نکولسباوقارطریقے سے مصائب کوجھیلتارہا
اقتدار کے دوران اگران کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ،ہزاروں یا لاکھوں نہیں،کروڑوں لوگوں کانصیب بن جاتاہے
نکولس دوم روس کاآخری شہنشاہ یعنی زارتھا۔23 برس بلاشرکت غیر حکومت کرتارہا۔اس کاانجام کیاہوا،کچھ دیر بعد عرض کرتاہوں۔نکولس کاوالد فوت ہواتووہ 26 برس کا تھا۔ زارکی تدفین کی شاہی تقریب جاری تھی۔نکولس دوم نے اپنے ایک قریب ترین دوست کوبلاکرکہا، ابھی وہ زاربننے کے لائق نہیں ہے۔اس کی تربیت نہیں ہوئی۔دوست نے جواب دیا، نکولس،آپ کوخدانے بادشاہت کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ فیصلہ کسی انسان کا نہیں ہے۔اس خدائی فیصلے سے مفرممکن نہیں۔روس کاشاہی خاندان راسخ العقیدہ مسیحی تھا۔
نکولس نے زاربننا قبول کرلیا۔اگلے 23 برس،روس کی بدقسمتی کاوہ دورتھا،جس میں اس کی بحریہ اوربری افواج کو ہر مقام پر شکست فاش ہوئی۔جاپان نے روس کے 42 بحری جہازوں کوصرف آدھے گھنٹے میں بربادکرکے رکھ دیا۔روس کے عوام غربت کا شکار ہوگئے۔لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے لگے مگرزارکے سپاہیوں نے بے دریغ قتلِ عام کرکے ہرآوازکوخاموش کرنے کی بھرپورکوشش کی جووقتی طورپرتوکامیاب رہی۔مگر ظلم اورجبرکی حکومتی پالیسی ناکام ہوگئی۔نکولس کویقین تھاکہ انسانی حقوق اورجمہوریت بیکارقسم کے نعرے ہیں۔
ایک مرتبہ،کسی سیانے درباری نے مشورہ دیا کہ اسے جمہوری حکومت بنادینی چاہیے کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے۔نکولس کاجواب تھا،''حکومت کرنے کاواحد طریقہ، مضبوط اورطاقتوربادشاہت ہے۔جمہوریت میں صرف بحث ومباحثہ ہوتاہے۔لوگوں کے مسائل حل کرنے کی استطاعت جمہوری نظام میں موجودنہیں ہوتی''۔درباری خاموش ہوگیا۔نکولس اپنے خیالات میں مکمل طورپرغلط ثابت ہوا۔عرض کرنے کامقصدصرف یہ ہے کہ نکولس ایک شہنشاہ تھااوروہ آخری دم تک شہنشاہ کے طورپرزندہ رہا۔
1917کے انقلاب کے بعد،نکولس دوم،اہلیہ، بیٹا اور چاربیٹیوں کوکیمونسٹ حکومت نے Ekaterinburg کے ایک خصوصی گھرمیں قید کردیا۔ اسے شاہی لباس پہننے کی اجازت نہیں تھی۔مگرعام لباس پہننے کے باوجود،وہ ہرگزعام آدمی نہیں تھا۔کھانے کے لیے پورے خاندان کوسادہ گوشت کے ٹکڑے دیے جاتے تھے۔جسے وہ میزپربیٹھ کر اس طرح کھاتے تھے کہ کوئی شاہی کھاناہو۔جوسپاہی قید خانے میں ڈیوٹی پرہوتے تھے،وہ اس خاندان کا باوقار رویہ دیکھ کر گھبرا جاتے تھے۔پورے شاہی خاندان کواپنے انجام کا اندازہ تھا،مگرانھوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ آسٹریا اور لندن کے شاہی خاندان،نکولس دوم کے قریب ترین عزیز تھے، مگر آخری زارنے کبھی ان کویہ نہیں کہاکہ اس کی جان بخشی کرا دی جائے۔ زارنے یہ درخواست نہیں کی کہ اسے جلاوطن کر دیا جائے۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس نے روسی کیمونسٹ حکومت کو خط تک نہیں لکھاکہ اسے اوراس کے خاندان کوبنیادی مراعات تک حاصل نہیں ہیں۔زارنے روس کی کسی عدالت میں رحم کی اپیل دائرنہیں کی۔اس نے پولٹ بیورو کو کسی قسم کامعافی نامہ نہیں بھجوایا۔ سولہ اورسترہ جولائی1918کی درمیانی شب،جیلرنے خاندان کوبتایاکہ انھیں سیکیورٹی کی وجہ سے کسی اورجگہ منتقل کیاجارہا ہے۔ نکولس کا بیٹا معذور تھا۔رات کوڈیڑھ بجے زارنے اپنے بیٹے کوگودمیں اُٹھایا۔ بیوی بچوں کوساتھ لیااورجیلرکے حکم پرگھرکے تہہ خانے میں آگیا۔وہاں پہنچ کرسپاہیوں کوکہاکہ دوکرسیاںلے کرآؤ۔ ایک کرسی پر زار نے اپنی بیوی کو بٹھایا اوردوسری کرسی پراپنے معذوربیٹے کو۔پوراخاندان انتظار کر رہاتھاکہ کب ٹرک آئے اوروہ محفوظ جگہ پرمنتقل ہوجائیں۔ مگرایساکچھ نہیں ہوا۔
اچانک جیلر،چھ سات سپاہیوں کے ساتھ اندرآیا۔ ایک کاغذکھولا۔زاراوراس کے پورے خاندان کے نام پڑھے اوربتایاکہ حکومت نے انھیں سزائے موت دیدی ہے۔ زار نے قطعاًیہ نہیں کہاکہ اس پرتوکوئی مقدمہ سرے سے چلایاہی نہیں گیا۔اسے توکسی عدالت میں پیش ہی نہیں کیاگیا۔یہ سراسرناانصافی ہے۔زار وقارسے خاموش کھڑا رہا۔اسے پانچ گولیاں ماری گئیں۔مرتے وقت بھی اس نے کرسی کا سہارا نہیںلیا۔ زمین پراس وقت گراجب روح پروازکرچکی تھی۔بالکل یہی رویہ،اس کی بیوی،بیٹے اور چاروں بیٹیوں کا تھا۔انھوں نے انتہائی تہذیب اور بہادری سے موت کوقبول کیا۔ قطعاًیہ نہیں کہاکہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔وہ بے قصورہیں۔گزارشات پیش کرنے کا مقصدصرف ایک ہے کہ اچھے اوربرے انجام سے بے نیاز، حکمرانوں میں ذاتی گریس(Grace)ہونی چاہیے۔
اقتدار کے دوران اگران کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ،ہزاروں یا لاکھوں نہیں،کروڑوں لوگوں کانصیب بن جاتاہے۔تومشکل وقت میں بھی انھیں اسی وقارکامظاہرہ کرناچاہیے جووہ اقتدارمیں کرتے آئے ہیں۔ یہ ذاتی کردارکی بلندی کی نشانی ہوتی ہے۔صحیح اورغلط کی بات نہیں کررہا۔کیونکہ ہرحکمران کے کارناموں اور ناکامیوں کا فیصلہ صرف اورصرف تاریخ کرتی ہے۔عرض کرنے کا قطعاً یہ مقصدنہیں کہ بادشاہت ایک اچھا نظام ہے یاجمہوریت کو ختم ہوجاناچاہیے۔
ہرگزنہیں۔بالکل نہیں۔ موجودہ دورمیں جمہوریت واحد نظام ہے جس کے ذریعے حکومت کی جاسکتی ہے۔مرکزی نکتہ صرف ایک ہے کہ حکمران طبقہ،حکمرانی کے عہدکے بعد،کس وقاراورتہذیب سے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ مصائب ہی وہ درسگاہ ہے جہاں اصل کردارکاپتہ چلتا ہے۔اس میں عام آدمی بھی شامل ہے اوربادشاہ یعنی حکمران بھی۔اس میں عام سطح کے خاندان بھی شامل ہیں اورشاہی خاندان بھی۔ شائد میری بات تلخ لگے۔شائد آپ کے ذہن میں یہ بات اُبھرے کہ اگلی کہنے والی بات، مجھے نہیں لکھنی چاہیے تھی۔مگربہت سے المیوں کے درمیان ہماراالمیہ یہ بھی ہے کہ نہ مصیبت کے وقت ہمارے نام نہادشاہی خاندان اورحکمران کوئی وقار دکھاتے تھے نہ ہی عوامی سطح پراس کامظاہرہ کیاجاتاہے۔ہمارا حکمران طبقہ مصائب کے سامنے پگھل کرموم بن جاتا ہے۔ عام لوگوں کی بات کرنے کاتوسوال پیداہی نہیں ہوتا۔وہ تو پیداہی ذلیل ہونے کے لیے ہوئے ہیں۔
دعوے سے عرض کرسکتاہوں کہ نکولس دوم کے پاس جتنا مال ودولت تھی۔پاکستان کے جمہوری خاندانوں کے پاس اس سے زیادہ دولت ہو۔زارکوتوپھربھی اپنے خزانے کے متعلق معلوم تھا۔ہمارے حکمرانوں کوتواپنے بین الاقوامی اثاثوں اورمنافعے کاعلم ہی نہیں ہے۔ قوم کوتوصرف یورپ یا امریکا میں موجود اثاثوں کا علم ہے۔مگران کی جائیداد تو دنیا کے تمام براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے۔پیرس سے لے کر نیویارک اورآسٹریلیاسے لے کراسپین،ہرجگہ ان لوگوں کے محلات،گالف کورس،ہوٹل اوردیگرجائیدادیں موجود ہیں۔ اگرراست طریقہ سے دیکھاجائے توزارتوہمارے جمہوری بادشاہوں سے کافی غریب تھا۔مگرزاراوران میں ایک بہت بڑافرق تھااورہے۔زارکومشکل ترین حالات میں باوقار رہنے کا فن آتاتھا۔پاکستان کے جمہوری بادشاہوں کوپیسہ بناناتوآتاہے۔مگران کے اندر مشکل وقت میں آب وتاب سے رہنے کا حوصلہ موجودنہیں ہے۔یہ اندرسے اس قدر کمزور اوربکھرے ہوئے لوگ ہیں کہ تعجب ہوتاہے۔
اپنے دورِحکومت میں ان کے ملازم کھانالانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹراورجیٹ طیارے استعمال کرتے تھے۔ نوکروں کی بات کررہاہوں۔دوران حکومت، پاکستان کی مشہورترین بیوٹیشن،سرکاری جہازمیں اسلام آباد،کراچی اور دیگرشہروں سے بلوائی جاتی تھی تاکہ شاہی خاندان کی خواتین کا بہترین میک اَپ کیاجاسکے۔قوم سے سادگی کی اپیل کرکے،یہ لوگ،دنیاکی قیمتی ترین گاڑیاں جمع کرتے تھے۔ لازم ہے کہ اگر حکمران قومی خزانہ کو اپنا سمجھے گا تودرباری تو ہرچیزلوٹ لیںگے۔
ہمارے ہاں ایسا ہی ہوا۔مگر ہمارے حکمرانوں کوتھوڑی سی گرم ہوا لگی ہے اور انھوں نے وا ویلا شروع کردیا ہے۔ شکوہ کے علاوہ ان کی زبان پرکوئی دوسرالفظ ہے ہی نہیں۔ جیل میں انھیںوہ تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں جو پاکستان کے نناوے فیصدلوگوں کو میسر نہیں۔حدتویہ ہے کہ یہ سہولیات،جیل کے قوانین کے بھی خلاف ہیں۔ مگر گریہ اس قدر کیا جارہاہے کہ شائد جیل میں انھیں اذیت ناک ماحول میں رکھا گیا ہے۔ کیاپاکستان کے قیدیوں کو ایئرکنڈیشنرکی سہولت موجود ہے۔ ہرگزنہیں۔بالکل نہیں۔ مگران کے پاس جیل میں ایئرکنڈیشنر موجود ہیں، ڈاکٹروںکی ٹیم چوبیس گھنٹے موجودہے۔
مگر پھر بھی یہ شاہی لوگ سخت ناراض ہیں،نادم نہیں ۔ یہ لوگوں کے سامنے جمہوریت کی بات کرتے ہیں اورتنہائی میں مک مکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ کیمرہ کے سامنے وکٹری کانشان بناتے ہیں مگردرون خانہ،دوسروں ملکوں کے ذریعے اپنی آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگریقین فرمائیے کہ ملکی اوربین الاقوامی سطح پرکوئی مقتدرحلقہ ساتھ نہیں دے رہا۔ افسوس نہ انھیں باوقار طریقے سے زندہ رہناآتاہے اور نہ ہی نکولس کی طرح جرات سے مصیبت کاسامنا کرنا آتا ہے۔ تاریخ انھیں کس نام سے یاد کرے گی،یہ کچھ دہائیوں بعد سامنے آجائیگا؟