اچھے دنوں کی نوید
سبزہ، درخت، پانی زندگی کی ضمانت ہیں جب کہ زیرزمین پانی خطرے کے نشان سے بھی نیچے چلا گیا ہے
زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ زراعت سے پاکستان کے آبادی کا ستر سے نوے فیصد حصہ وابستہ تھا۔ آج بھی پاکستان کی 60 فیصد آبادی اسی سے منسلک ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ زراعت کونظر انداز کرنے کے باوجودبھی ہم صنعتی ملک نہیں بن سکے۔
آج بھی ہماری ایکسپورٹ کا زیادہ تر انحصار زرعی خام مال پر ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر جس کے ذریعے پاکستان سب سے زیادہ زرمبادلہ کماتا ہے اس کا انحصار کپاس پرہے۔ صنعت پر پوری توجہ دینے کے باوجود ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوا ہے، یعنی ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، نتیجہ یہ نکلا کہ صنعت میں تو ہم نے کیا ترقی کرنی تھی ، رہی سہی زراعت بھی تباہ حال ہوگئی۔ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی پیداوار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھارتی پنجاب پورے بھارت کو اناج مہیا کرتا ہے جب کہ دونوں طرف کے پنجاب کی زمین بھی ایک، موسم بھی ایک۔لیکن وہاں کی حکومت نے اپنے کاشتکاروں کو سہولیات فراہم کی ہیں جب کہ پاکستانی پنجاب میں کاشتکاروں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک۔ زرعی ترقی پورے ملک کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے جس سے غربت بیروزگاری میں نمایاں کمی آئے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے زرعی ایمرجنسی پروگرام کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت آیندہ چار برس میں زراعت اور آبپاشی کے شعبے میں 309 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے ، کم اور بے وقت بارشوں کی وجہ سے فصلیں خشک سالی کا شکار ہیں۔ رواں سال ایسا ہی ہوا ہے جب بارشوں کی ضرورت تھی بارش نہیں ہوئی اورجب فصل پک کر تیار ہو گئی تو بے موقع دھواں دار بارشیں شروع ہوگئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں ایکڑ رقبے پر فصلیں تباہ ہو گئیں۔اس کا تعلق براہ راست ماحولیات سے ہے۔ ماحولیات سے جو مقامی بھی ہے تو عالمی بھی۔ انسانوں نے اپنے ہاتھوں ہی ماحولیات کو تباہ کر لیا ہے۔ اب پوری دنیا سر پکڑ کر بیٹھی ہے کرے تو کیا کرے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ماحولیات کی تباہی زمین پر ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ کر دے گی۔
سبزہ، درخت، پانی زندگی کی ضمانت ہیں جب کہ زیرزمین پانی خطرے کے نشان سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ چند سال بعد یہ نوبت آنے والی ہے کہ پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوگا جس کے آثار ابھی سے ہی ملک کے مختلف حصوں میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر زراعت کی ترقی کے لیے ایک چار سالہ پروگرام تشکیل دیا گیا ہے جس پر 309 بلین روپے خرچ ہوں گے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجودسالانہ 400 ارب روپے کی زرعی اشیا درآمد کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کے مطابق زرعی ایمرجینسی پروگرام پر خرچہ اگلے پانچ سال میں 360 فیصد اضافے کے ساتھ نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافے بلکہ کسانوں کی خوش حالی کا باعث بھی بنے گا۔مسٹر ترین کے مطابق 220 بلین روپے صرف چھوٹے ڈیم اور اس سے متعلقہ پانی کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ گوشت کی قلت اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مویشیوںاور مچھلی کی پیداوار میں بھی بڑے پیمانے پر پر اضافہ کیا جائے گا۔ زرعی صنعتی پیداوار میں اضافے سے ہی پاکستان جس معاشی بھنور میں پھنسا ہوا اس سے نکل سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت پچھلے ایک سال میں جس افراتفری کا شکار رہی آنے والے وقت میں اس میں بتدریج کمی نظر آئے گی۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے سے اب پوری دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھے گا۔ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کی ساکھ کے حوالے سے ایک اہم گارنٹر بنے گاجس کے نتیجے میں دنیا کے سرمایہ کار بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کریں گے ۔ اس کے ساتھ ایک بڑی خبر یہ ہے کہ ایمنسٹی اسکیم میں نہ صرف کامیابی ہوئی ہے بلکہ اس معاملے میں کامیابی توقع سے بڑھ کر ہے۔
اس سلسلہ میں کم از کم ایک لاکھ نئے پاکستانی ٹیکس نیٹ میں داخل ہوئے ہیں وہ بھی صرف 25دنوں کی قلیل مدت میں جب کہ پچھلی ایمنسٹی اسکیم میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو پہلے سے فائلرز تھے۔ اسکیم میں 3ہزار ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے گئے جب کہ 70 ارب روپے کا ٹیکس ملا۔ کہا جا رہا ہے کہ معیشت کے برے دن ختم ہونے والے ہیں، پاکستان ایک بہتری کے دور میں داخل ہونے والا ہے۔بہتری کے آثار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پچھلے چند دنوں میں ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں سات روپے تک گری ہے۔ امید ہے آنے والے دنوں میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید مضبوط ہوگا۔ یہ تحریرلکھنے تک پچھلے تین دنوں میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ایک ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوچکا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں حالیہ مثبت تبدیلی میں چیئرمین ایف بی آر سیدشبر زیدی کا کلیدی کردار ہے۔
آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری کے بعد مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ پاکستان میں مشکل معاشی حالات ہیں۔ ہم مشکل فیصلے کریں گے لیکن کمزور طبقے کا تحفظ بھی کریں گے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کی شرح سود بہت کم یعنی صرف 3 فیصد ہے جس کی واپسی کی مدت 10سال تک ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام منظوری کے ساتھ ہی دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے بھی پاکستان کے لیے فنڈز ریلیز کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو آیندہ پانچ برسوں میں عالمی مالیاتی اداروں اور دو طرفہ معاہدوں سے مجموعی طور پر 38 ارب ڈالر ملیں گے۔
موجودہ حکومت کے لیے سب سے مشکل وقت پچھلے سال کا آخر اور اس سال کا شروع تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب انڈیا نے 26 فروری کو بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا اس کے بعد دوسرا سخت وقت مئی سے شروع ہوا اور 30 جون تک رہا۔ جیسے ہی اس وقت کے اثرات ختم ہوئے 3 جولائی کو آئی ایم ایف پیکیج منظور ہو گیا۔ستمبر اکتوبر سے ایک اور وقت شروع ہو رہا ہے جو جنوری 2020ء تک مکمل ہوگا جس میں موجودہ حکومت کے آزمائشی وقت کا بیشتر حصہ مکمل ہو جائے گا۔
کچھ کرکٹ کے بارے میں۔ بھارت کرکٹ کا عالمی چیمپئین ہوگا جب کہ اگلا ورلڈکرکٹ کپ پاکستان جیتے گا۔
آج بھی ہماری ایکسپورٹ کا زیادہ تر انحصار زرعی خام مال پر ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر جس کے ذریعے پاکستان سب سے زیادہ زرمبادلہ کماتا ہے اس کا انحصار کپاس پرہے۔ صنعت پر پوری توجہ دینے کے باوجود ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوا ہے، یعنی ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، نتیجہ یہ نکلا کہ صنعت میں تو ہم نے کیا ترقی کرنی تھی ، رہی سہی زراعت بھی تباہ حال ہوگئی۔ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی پیداوار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھارتی پنجاب پورے بھارت کو اناج مہیا کرتا ہے جب کہ دونوں طرف کے پنجاب کی زمین بھی ایک، موسم بھی ایک۔لیکن وہاں کی حکومت نے اپنے کاشتکاروں کو سہولیات فراہم کی ہیں جب کہ پاکستانی پنجاب میں کاشتکاروں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک۔ زرعی ترقی پورے ملک کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے جس سے غربت بیروزگاری میں نمایاں کمی آئے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے زرعی ایمرجنسی پروگرام کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت آیندہ چار برس میں زراعت اور آبپاشی کے شعبے میں 309 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے ، کم اور بے وقت بارشوں کی وجہ سے فصلیں خشک سالی کا شکار ہیں۔ رواں سال ایسا ہی ہوا ہے جب بارشوں کی ضرورت تھی بارش نہیں ہوئی اورجب فصل پک کر تیار ہو گئی تو بے موقع دھواں دار بارشیں شروع ہوگئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں ایکڑ رقبے پر فصلیں تباہ ہو گئیں۔اس کا تعلق براہ راست ماحولیات سے ہے۔ ماحولیات سے جو مقامی بھی ہے تو عالمی بھی۔ انسانوں نے اپنے ہاتھوں ہی ماحولیات کو تباہ کر لیا ہے۔ اب پوری دنیا سر پکڑ کر بیٹھی ہے کرے تو کیا کرے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ماحولیات کی تباہی زمین پر ہر طرح کی زندگی کا خاتمہ کر دے گی۔
سبزہ، درخت، پانی زندگی کی ضمانت ہیں جب کہ زیرزمین پانی خطرے کے نشان سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ چند سال بعد یہ نوبت آنے والی ہے کہ پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوگا جس کے آثار ابھی سے ہی ملک کے مختلف حصوں میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر زراعت کی ترقی کے لیے ایک چار سالہ پروگرام تشکیل دیا گیا ہے جس پر 309 بلین روپے خرچ ہوں گے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجودسالانہ 400 ارب روپے کی زرعی اشیا درآمد کرتا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کے مطابق زرعی ایمرجینسی پروگرام پر خرچہ اگلے پانچ سال میں 360 فیصد اضافے کے ساتھ نہ صرف زرعی پیداوار میں اضافے بلکہ کسانوں کی خوش حالی کا باعث بھی بنے گا۔مسٹر ترین کے مطابق 220 بلین روپے صرف چھوٹے ڈیم اور اس سے متعلقہ پانی کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ گوشت کی قلت اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مویشیوںاور مچھلی کی پیداوار میں بھی بڑے پیمانے پر پر اضافہ کیا جائے گا۔ زرعی صنعتی پیداوار میں اضافے سے ہی پاکستان جس معاشی بھنور میں پھنسا ہوا اس سے نکل سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت پچھلے ایک سال میں جس افراتفری کا شکار رہی آنے والے وقت میں اس میں بتدریج کمی نظر آئے گی۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے سے اب پوری دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھے گا۔ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کی ساکھ کے حوالے سے ایک اہم گارنٹر بنے گاجس کے نتیجے میں دنیا کے سرمایہ کار بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کریں گے ۔ اس کے ساتھ ایک بڑی خبر یہ ہے کہ ایمنسٹی اسکیم میں نہ صرف کامیابی ہوئی ہے بلکہ اس معاملے میں کامیابی توقع سے بڑھ کر ہے۔
اس سلسلہ میں کم از کم ایک لاکھ نئے پاکستانی ٹیکس نیٹ میں داخل ہوئے ہیں وہ بھی صرف 25دنوں کی قلیل مدت میں جب کہ پچھلی ایمنسٹی اسکیم میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو پہلے سے فائلرز تھے۔ اسکیم میں 3ہزار ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے گئے جب کہ 70 ارب روپے کا ٹیکس ملا۔ کہا جا رہا ہے کہ معیشت کے برے دن ختم ہونے والے ہیں، پاکستان ایک بہتری کے دور میں داخل ہونے والا ہے۔بہتری کے آثار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پچھلے چند دنوں میں ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں سات روپے تک گری ہے۔ امید ہے آنے والے دنوں میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مزید مضبوط ہوگا۔ یہ تحریرلکھنے تک پچھلے تین دنوں میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ایک ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوچکا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں حالیہ مثبت تبدیلی میں چیئرمین ایف بی آر سیدشبر زیدی کا کلیدی کردار ہے۔
آئی ایم ایف پیکیج کی منظوری کے بعد مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ پاکستان میں مشکل معاشی حالات ہیں۔ ہم مشکل فیصلے کریں گے لیکن کمزور طبقے کا تحفظ بھی کریں گے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کی شرح سود بہت کم یعنی صرف 3 فیصد ہے جس کی واپسی کی مدت 10سال تک ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام منظوری کے ساتھ ہی دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے بھی پاکستان کے لیے فنڈز ریلیز کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو آیندہ پانچ برسوں میں عالمی مالیاتی اداروں اور دو طرفہ معاہدوں سے مجموعی طور پر 38 ارب ڈالر ملیں گے۔
موجودہ حکومت کے لیے سب سے مشکل وقت پچھلے سال کا آخر اور اس سال کا شروع تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب انڈیا نے 26 فروری کو بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا اس کے بعد دوسرا سخت وقت مئی سے شروع ہوا اور 30 جون تک رہا۔ جیسے ہی اس وقت کے اثرات ختم ہوئے 3 جولائی کو آئی ایم ایف پیکیج منظور ہو گیا۔ستمبر اکتوبر سے ایک اور وقت شروع ہو رہا ہے جو جنوری 2020ء تک مکمل ہوگا جس میں موجودہ حکومت کے آزمائشی وقت کا بیشتر حصہ مکمل ہو جائے گا۔
کچھ کرکٹ کے بارے میں۔ بھارت کرکٹ کا عالمی چیمپئین ہوگا جب کہ اگلا ورلڈکرکٹ کپ پاکستان جیتے گا۔