342 میں صرف20 ارکان
اسمبلیوں میں ارکان کا یہ حال صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہی ہے
قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران یہ بھی نیا ریکارڈ ہوا کہ اجلاس میں صرف 20 ممبران اسمبلی موجود تھے ، جن میں دس حکومتی اور دس اپوزیشن کے ارکان تھے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے ممبران کی تعداد 342 ہے اور قومی اسمبلی کے اجلاس پر پانچ کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور قومی اسمبلی کے صرف 20 ممبران ملک کے اکیس کروڑ سے زائد لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اسمبلیوں میں ارکان کا یہ حال صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہی ہے ، جن کے ایوان اسلام آباد میں ہیں اور اسلام آباد ہی ملک کا صدر مقام یعنی دارالحکومت ہے ، جہاں صدر مملکت، وزیر اعظم، وفاقی وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کے دفاتر اورگھر بھی ہیں اور اسلام آباد کو ملک کا خوبصورت شہر قرار دیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ کی خوبصورت عمارتوں میں وہ ایوان موجود ہے جو دیکھنے میں آرام دہ اور خوبصورت بھی ہے مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کا خوبصورت ایوان میں دل نہیں لگتا اور اسی لیے وہ اپنے گھروں سے دور دراز کا سفرکرکے اسلام آباد آتے تو اجلاسوں میں شرکت کے لیے ہیں ، مگر ان کا زیادہ وقت وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی وفاقی سیکریٹریوں اور سرکاری دفاتر میں گزرتا ہے اکثر ارکان دور دراز سے سرکاری خرچ پر جہازوں میں اور بعض اپنی آرام دہ کاروں میں آتے ہیں اور ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جو مرحوم عبدالستار ایدھی کی طرح بس میں سفر کرکے کراچی سے اسلام آباد آتا ہو اور مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوتا ہو اور جہاز کا کرایہ وصول نہ کرتا ہو کیونکہ وہ عوام کی حقیقی خدمت کرنے والے سیاسی رہنما نہیں سماجی رہنما تھے اور بغیر الیکشن لڑے اور کوئی خرچہ کیے قومی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد کیے گئے تھے اور ان کی نامزدگی جنرل ضیا الحق نے کی تھی۔
آج قومی اسمبلی کا رکن مفت میں رکن نہیں بنتا بلکہ کروڑوں روپے خرچ کرکے، سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے، اپنی بااثر پارٹی کو بہت بڑا الیکشن فنڈ دے کر اور پارٹی کے بااثر افراد سے حمایت حاصل کرکے پارٹی ٹکٹ حاصل کرتا ہے۔ الیکشن کے وقت بعض بڑی پارٹیاں اپنے سربراہ کی ہدایت پر ہی انتخابی ٹکٹ جاری کرتی ہیں جس کے لیے وہ اپنے خصوصی افراد کے ذریعے درخواستیں دینے والوں کے انٹرویوکرتی ہیں اور بعض کو بغیر انٹرویو ہی سیاسی وجوہ اور پسندیدگی و سیاسی وفاداری کے باعث ٹکٹ مل جاتا ہے اور جن کو ٹکٹ نہیں ملتا وہ سیاسی وفاداری تبدیل کرنے میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور اپنی ہی پارٹی کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ جس نے کسی وجہ سے انھیں ٹکٹ نہیں دیا تو وہ خاموش ہوکر بیٹھنے والے نہیں ہوتے اور دوسری پارٹی سے ٹکٹ لے لیتے ہیں اور جن کو کسی دوسری پارٹی سے بھی ٹکٹ نہیں ملتا وہ اپنی ہی دیرینہ پارٹی کے امیدوار کے سامنے الیکشن لڑنے کے لیے آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں کا اپنا ہی حلقہ انتخاب، اپنی برادری اور سیاسی اثر و رسوخ تو ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے وہ اپنی پارٹی کے سربراہ کی پسند نہیں ہوتا اور اس کی جگہ پارٹی سربراہ کو کوئی اور پسند آجاتا ہے تو وہ اپنی پسند کے بندے کو نامزد کردیتا ہے جس کا اس کے پرانے رہنما کو رنج ہوتا ہے اور اسے پارٹی کا فیصلہ قبول نہیں ہوتا اور اپنی پارٹی کا فیصلہ نامنظور کرکے آزاد حیثیت میں یا دوسری بڑی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ضرور لڑتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک اہم سیاستدان کی ایک ایسی مثال ہے جو چاہتے تھے کہ انھیں مسلم لیگ (ن) میں سینیارٹی کے باعث ٹکٹ دیا جائے گا اور وہ درخواست نہیں دیں گے۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد ان کا رویہ پارٹی سربراہ کے خلاف تھا اور وہ بیان بازی میں حقائق پر بولتے ہوں گے جس پر اصلاح کی بجائے قیادت نے بغیر مانگے انھیں ٹکٹ نہیں دیا اور مسلم لیگ کا ٹکٹ دوسرے لیگی کو ملا تو انھوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا مگر قومی اسمبلی میں کہیں بھی کامیاب نہیں ہوئے اور صرف صوبائی نشست جیتے جس پر وہ ابھی تک حلف نہیں اٹھا رہے۔
الیکشن جیتنے کے لیے بعض لوگوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی چھوڑی اور سیاسی وفاداری بدل کر پی ٹی آئی میں چلے گئے، جن میں دو نمایاں نام ندیم افضل چن اور فردوس عاشق اعوان ہیں جو ہار گئے ۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جاکر راجہ ریاض جیت تو گئے مگر وہ حکومت سے باہر جب کہ ندیم افضل چن اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہار کر بھی حکومت میں ہیں ۔
الیکشن میں ایسا بھی ہوا کہ بعض اپنی پارٹی چھوڑ کر ہارے اور دوسری پارٹی میں جاکر جیتے اور بعض آزاد حیثیت میں ہارے جس سے لگتا ہے کہ ووٹ کسی شخصیت کو نہیں پارٹی قیادت کو ملتے ہیں اور کسی کے اصول اور پارٹی وابستگی نہیں دیکھی جاتی۔ اسمبلیوں کے کورم پورے نہ ہونے کی وجہ ارکان کی عدم دلچسپی ہی نہیں پارٹی پالیسی بھی ہوتی ہے۔ پارٹی قائد چاہے تو ایوان ارکان سے بھر جاتے ہیں اور پارٹی چاہے تو کورم ہونا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 99 ممبران ہیں جو 28 جون کے اجلاس سے غائب ہوگئے کیونکہ پارٹی کورم نہیں چاہتی تھی اور ایوان میں صرف ایک رکن موجود تھا اور اسپیکر نے پانچ منٹ بھی انتظار نہیں کیا اور فوری طور پر اجلاس ملتوی کردیا۔ سندھ اسمبلی میں منگل پرائیویٹ ممبرز ڈے ہے مگر اس دن کورم پورا نہیں ہونے دیا جاتا تاکہ اپوزیشن کے سوالات کا جواب نہ دینا پڑے اس لیے منگل کے روز اکثر اجلاس منعقد نہیں ہونے دیا جاتا۔
قومی اسمبلی کے 342 ممبران میں حکومت نے اپنے حامی 176 ممبران کی حمایت سے بجٹ منظور کرالیا جب کہ 146 نے مخالفت کی جو اپوزیشن کے تھے۔ بجٹ پر تقریباً 30 گھنٹے ممبران کو بولنے کا موقعہ دیا گیا جس میں اپوزیشن کے 6 رہنما تھے جب کہ ممبران کی اکثریت خاموش تماشائی بنی رہی۔ ممبران کی اکثریت ایوان میں بولنے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہے البتہ ڈیسک بہت اچھا بجاتی ہے جس کی ہدایت انھیں اپنی پارٹی سے ملتی ہے حکومتی اور اپوزیشن رہنما جو بولنا جانتے ہیں وہ میڈیا پر نظر آنے کے لیے بن ٹھن کر آتے ہیں۔ ارکان اسمبلی سے اب اسپیکر کے تحفظ کے لیے ڈائس گھیرے رہنے کا بھی کام لیا جاتا ہے اور دونوں فریق اپنے اپنے مقصد کے لیے ممبران کو استعمال کرتے ہیں۔
ارکان اسمبلی ایوانوں میں اپنے ووٹروں کی آواز بننے کے لیے منتخب ہوتے ہیں مگر اکثر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں تو ان کے انتخاب کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے انھیں اگر بولنا نہیں آتا تو انھیں الیکشن بھی نہیں لڑنا چاہیے کیونکہ انھیں صرف منتخب ہونے سے دلچسپی ہوتی ہے ایوان میں آنے اور بولنے میں نہیں تو اسمبلیوں کے اجلاسوں میں کثیر رقم کیوں ضایع کی جا رہی ہے؟