جمیلہ رزاق نے ’’انتخاب‘‘ سے فلمی کیرئیر شروع کیا
’’نیادور‘‘ پہلی کامیاب فلم تھی، والدہ سلطانہ اور خالہ زبیدہ خاموش فلموں کی ہیروئن رہیں
KARACHI:
پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف ہیروئن جمیلہ رزاق نے ہمایوں مرزا کی فلم ''انتخاب'' میں مسعود کے مقابل بطور ہیروئن فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔
''انتخاب'' باکس آفس پر توقعات کے مطابق تو کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن جمیلہ رزاق اپنے دلکش خدوخال اور خوبصورت غزالی آنکھوں کے باعث فلم انڈسٹری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوئیں۔ یاد رہے کہ جمیلہ کی والدہ سلطانہ نے بھارت میں خاموش فلموں کے دور میں ''کالا ناگ'' ،'' شکنتلا'' ، ''ینگ انڈیا'' نامی فلمیں کیا لیکن بعد میں ایک صاحب ثروت سیٹھ عبدالرزاق سے شادی کر کے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، جمیلہ کی خالہ زبیدہ بھی بھارتی فلم انڈسٹری کی معروف ہیروئن تھی جس نے پہلی متکلم فلم عالم آراء میں مرکزی کردار ادا کیا، زبیدہ اس سے قبل خاموش فلموں میں بھی اداکاری کے حوالے سے شہرت رکھتی تھیں۔
یہ دونوں بہنیں بھارت کے شہر سورت میں پیدا ہوئیں، انکے والد کا نام ابراہیم تھا اور والدہ بمبئی کی ایک تھیٹریکل کمپنی کی حصہ دار تھی۔ قیام پاکستان کے بعد زبیدہ بمبئی ہی رہیں جب کہ سلطانہ اپنے خاوند اور بیٹی جمیلہ کے ساتھ کراچی چلی آئیں یہی جمیلہ پاکستان فلم انڈسٹری کا حصہ بنیں، اسے کلاسیکل رقص پر کمال مہارت حاصل تھی جس کی شہرت اور حسن وفن کو دیکھ کر ہمایوں مرزا نے اپنی فلم ''انتخاب'' میں مسعود کے مقابل ہیروئن سائن کیا۔ جمیلہ کی ''انتخاب '' کے بعد ''فنکار'' نامی فلم بھی ناکام رہی۔ لگاتار فلموں کی ناکامی سے وہ قدرے مایوس سی ہوکر فلمی دنیا سے علیحدگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگیں کہ عطا اللہ ہاشمی نے اپنی ایک فلم ''نیادور'' میں کاسٹ کر لیا اس کے مقابل اسلم پرویز ہیرو تھے، فلم کامیاب ثابت ہوئی اور جمیلہ کے پائوں انڈسٹری میں جم گئے۔
نذیر صوفی کی فلم ''یہ دنیا'' میں بھی عاقل نام کے نوجوان کے ساتھ بحثیت ہیروئن پیش ہوئیں۔ ہدایتکار اے ایچ صدیقی کی فلم ''اور بھی غم ہیں'' میں وہ اسد جعفری کے مقابل ہیروئن تھیں۔ ہدایتکار منشی دل کی فلم ''گل بکائولی'' میں سدھیر کے مقابل ہیروئن تھیں۔ اس دوران اس کی والدہ نے ایک فلم '' ہم ایک ہیں'' بنائی جس کی ہدایتکاری مشہور مصنف ، مکالمہ نویس اور نغمہ نگار فیاض ہاشمی کے سپرد کی گئی جب کہ میوزک اے حمید نے دیا۔ اس فلم کے چند مناظر جزوی طور پر رنگین بھی تھے۔ 1951ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی ۔ اگلے سال 1952ء میں اس کی ایک اور فلم ''انقلاب'' بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
راشدی اس کے ہدایتکار اور جمیلہ کے مقابل ہیرو حبیب تھے۔ 1963ء کے اوائل میں الیاس کشمیری کی ذاتی فلم '' عشق پر زور نہیں'' ریلیز ہوئی جس کے ہدایتکار شریف نیر تھے۔ اس فلم میں مسرت نذیر نے بھی اہم رول ادا کیا تھا لیکن اسلم پرویز اور جمیلہ رزاق رومانوی کرداروں میں تھے۔ جمیلہ رزاق اس فلم میں واقعتا ایک فنکارہ نظر آئی۔ یہ فلم سپرہٹ ہوئی اور اس کا ایک گانا ''دل دیتا ہے رو رو دہائی'' بیحد مقبول ہوا۔ ہدایتکار جعفر بخاری کی مشہور فلم ''فیصلہ'' میں یوسف خان کے مقابل ہیروئن تھیں۔ اس کے بعد وہ ابتدائی دور کے مشہور کرکٹر وقار حسن سے شادی کر کے جمیلہ حسن بن گئی۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف ہیروئن جمیلہ رزاق نے ہمایوں مرزا کی فلم ''انتخاب'' میں مسعود کے مقابل بطور ہیروئن فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔
''انتخاب'' باکس آفس پر توقعات کے مطابق تو کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن جمیلہ رزاق اپنے دلکش خدوخال اور خوبصورت غزالی آنکھوں کے باعث فلم انڈسٹری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوئیں۔ یاد رہے کہ جمیلہ کی والدہ سلطانہ نے بھارت میں خاموش فلموں کے دور میں ''کالا ناگ'' ،'' شکنتلا'' ، ''ینگ انڈیا'' نامی فلمیں کیا لیکن بعد میں ایک صاحب ثروت سیٹھ عبدالرزاق سے شادی کر کے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، جمیلہ کی خالہ زبیدہ بھی بھارتی فلم انڈسٹری کی معروف ہیروئن تھی جس نے پہلی متکلم فلم عالم آراء میں مرکزی کردار ادا کیا، زبیدہ اس سے قبل خاموش فلموں میں بھی اداکاری کے حوالے سے شہرت رکھتی تھیں۔
یہ دونوں بہنیں بھارت کے شہر سورت میں پیدا ہوئیں، انکے والد کا نام ابراہیم تھا اور والدہ بمبئی کی ایک تھیٹریکل کمپنی کی حصہ دار تھی۔ قیام پاکستان کے بعد زبیدہ بمبئی ہی رہیں جب کہ سلطانہ اپنے خاوند اور بیٹی جمیلہ کے ساتھ کراچی چلی آئیں یہی جمیلہ پاکستان فلم انڈسٹری کا حصہ بنیں، اسے کلاسیکل رقص پر کمال مہارت حاصل تھی جس کی شہرت اور حسن وفن کو دیکھ کر ہمایوں مرزا نے اپنی فلم ''انتخاب'' میں مسعود کے مقابل ہیروئن سائن کیا۔ جمیلہ کی ''انتخاب '' کے بعد ''فنکار'' نامی فلم بھی ناکام رہی۔ لگاتار فلموں کی ناکامی سے وہ قدرے مایوس سی ہوکر فلمی دنیا سے علیحدگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگیں کہ عطا اللہ ہاشمی نے اپنی ایک فلم ''نیادور'' میں کاسٹ کر لیا اس کے مقابل اسلم پرویز ہیرو تھے، فلم کامیاب ثابت ہوئی اور جمیلہ کے پائوں انڈسٹری میں جم گئے۔
نذیر صوفی کی فلم ''یہ دنیا'' میں بھی عاقل نام کے نوجوان کے ساتھ بحثیت ہیروئن پیش ہوئیں۔ ہدایتکار اے ایچ صدیقی کی فلم ''اور بھی غم ہیں'' میں وہ اسد جعفری کے مقابل ہیروئن تھیں۔ ہدایتکار منشی دل کی فلم ''گل بکائولی'' میں سدھیر کے مقابل ہیروئن تھیں۔ اس دوران اس کی والدہ نے ایک فلم '' ہم ایک ہیں'' بنائی جس کی ہدایتکاری مشہور مصنف ، مکالمہ نویس اور نغمہ نگار فیاض ہاشمی کے سپرد کی گئی جب کہ میوزک اے حمید نے دیا۔ اس فلم کے چند مناظر جزوی طور پر رنگین بھی تھے۔ 1951ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی ۔ اگلے سال 1952ء میں اس کی ایک اور فلم ''انقلاب'' بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
راشدی اس کے ہدایتکار اور جمیلہ کے مقابل ہیرو حبیب تھے۔ 1963ء کے اوائل میں الیاس کشمیری کی ذاتی فلم '' عشق پر زور نہیں'' ریلیز ہوئی جس کے ہدایتکار شریف نیر تھے۔ اس فلم میں مسرت نذیر نے بھی اہم رول ادا کیا تھا لیکن اسلم پرویز اور جمیلہ رزاق رومانوی کرداروں میں تھے۔ جمیلہ رزاق اس فلم میں واقعتا ایک فنکارہ نظر آئی۔ یہ فلم سپرہٹ ہوئی اور اس کا ایک گانا ''دل دیتا ہے رو رو دہائی'' بیحد مقبول ہوا۔ ہدایتکار جعفر بخاری کی مشہور فلم ''فیصلہ'' میں یوسف خان کے مقابل ہیروئن تھیں۔ اس کے بعد وہ ابتدائی دور کے مشہور کرکٹر وقار حسن سے شادی کر کے جمیلہ حسن بن گئی۔