آرٹس کونسل پسماندہ علاقوں کے طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنے لگا

انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈکرافٹس میں اسکلپچرز،گرافک ڈیزائننگ،ٹیکسٹائل ڈیزائننگ، کیلی گرافی اورمینی ایچر سیکھائے جاتے ہیں

اسکالرشپ کے تحت لیاری، لانڈھی، کورنگی، سرجانی، نیو کراچی اور مضافاتی علاقوں کے طلبہ فائن آرٹس کی مہنگی تعلیم مفت سیکھ رہے ہیں

آرٹس کونسل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس میں لیاری،لانڈھی،سرجانی ٹاؤن،نیوکراچی سمیت شہر کے متوسط اور پسماندہ علاقوں کے بچوں کی فنون لطیفہ کی صلاحیتوںکو نکھارا جارہا ہے، طلبہ کو فن سے آشنا کرنے کیلیے درکار مہنگا ترین سامان بھی مفت مہیا کیا جارہا ہے۔

ادارے میں 200 سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں جنھیں پینٹنگ، پینسل اسکیچ، اسکلپچرز، گرافک ڈیزائننگ اور ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کا فن سکھایا جا رہا ہے، آج سے 55 سال قبل اس ادارے کی آبیاری فیض احمد فیض اور زیڈ اے بخاری جیسے نابغہ روزگار شخصیات نے کی، آرٹس کونسل کی موجودہ قیادت بچوں کے اسکالرشپ سمیت اس ادارے کی تاریخی حیثیت کی بحالی کے لیے کوشاں ہے، آرٹس کونسل کی احمد پرویز آرٹ گیلری کے اوپر بنے انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس میں داخل ہوں تو شیشے اور کنکریٹ کی دیواروں کے پس منظر میں مختلف حصوں میں کہیں فرشی نشست اور کہیں کرسیوں پر کینوس بورڈ پر نظریں گاڑھے اور ہاتھوں میں پنسل یا برش تھامے طلبہ دنیا و مافیہا سے بے خبر کام میں منہمک دکھائی دیتے ہیں۔

فائن آرٹس کی تعلیم جسے ایک مہنگی تعلیم تصور کیا جاتا ہے ایسے میں اسکالر شپ پروگرام کے تحت شہر کے سفید پوش علاقوں لیاری، لانڈھی، کورنگی، سرجانی ٹاؤن، نیو کراچی سمیت دیگر علاقوں کے بچے اس ادارے سے نہ صرف جڑچکے ہیں بلکہ انھوں نے یہ بات ثابت کردی کہ ادارے کی جانب سے ان کا انتخاب قطعی غلط نہ تھا، طلبہ و طالبات کے فنون لطیفہ کے شوق کو نہ صرف نکھارا جارہا ہے بلکہ انھیں انگریزی زبان اور اردو ادب سے بھی روشناس کرایا جارہا ہے یہاں بیک وقت پینٹنگ، اسکلپچرز،گرافک ڈیزائننگ، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ جبکہ کیلی گرافی اور مینی ایچرکے شعبے کام کررہے ہیں۔

آرٹسٹ معاشرے کی پہچان ہیں، آرٹ علم ہے، شاہد رسام

آرٹس کونسل انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کے پرنسپل شاہد رسام کے مطابق گونگے،بہرے بچوں کے ابصا اسکول کے اشتراک سے ایک پروگرام شروع کیا جارہا ہے، جس میں گونگے اور بہرے طلبہ و طالبات کو بھی معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لیے فنون لطیفہ کی تعلیم سے روشناس کرایا جائے گا ان کا کہنا ہے کہ معاشرہ اپنے آرٹسٹوں سے پہچانا جاتا ہے،آرٹ کاریگری نہیں بلکہ ایک باقاعدہ علم ہے جس طرح ڈاکٹر،انجینئرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے پیشے ہیں۔

اسکالرشپ پروگرام میں بچوں کے انتخاب کے دوران ایک تو ان کی صلاحیتوں کو پرکھا جاتا ہے اس کے علاوہ انھیں ایک امتحان پاس کرنا ہوتا ہے جبکہ ان کے فیملی کا پس منظراور بچے کے مستحق ہونے کا مشاہدہ بھی کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو صنعتوں اور اداروں سے منسلک کرنے کے لیے ایک برج ڈیولپ کیا گیا ہے جس کے ذریعے مختلف میڈیا ہاؤسز اور ایڈورٹائزنگ کمپنیوں سے ان بچوں کو پیشہ وارانہ طور پرجوڑا جا رہا ہے۔

اگلے سال ڈگری پروگرام شروع ہوگاپھرادارے کوجامعہ کا درجہ دیں گے

معروف پینٹر شاہد رسام کے مطابق یہاں زیرتعلیم بچوں کو تمام تر آرٹ میٹریل مفت مہیا کیا جاتا ہے اس وقت اس انسٹی ٹیوٹ میں ڈپلومہ پروگرام کروایا جارہا ہے جبکہ اگلے سال سے باقاعدہ ڈگری پروگرام اور بعدازاں اگلے3 سال میں انسٹی ٹیوٹ کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا ہدف رکھا گیا ہے جبکہ اسکالر شپ کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخی حیثیت کی بحالی بھی اہم مقصد ہے ۔

لیاری کاطالبعلم جوادبلوچ رواں سال کاگولڈ میڈلسٹ بن گیا

آرٹس کونسل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس میں زیرتعلیم لیاری سے تعلق رکھنے والا جواد بلوچ جوکچھ عرصہ قبل آٹھ چوک پر رنگ کی دکان پر کام کرتا تھا اور یہیں سے اس کا شوق پروان چڑھا، جواد بلوچ کو رنگ کی دکان پر ہفتے میں 800 روپے ملا کرتے تھے،جواد بلوچ کے والد پاکستان ریلوے میں چپڑاسی کی ملازمت کر رہے ہیں مگر یہ جواد بلوچ کی آرٹ سے لگن تھی جس کی وجہ سے آرٹس کونسل کے فنون لطیفہ کی اس ادارے کی نظریں اس باصلاحیت نوجوان پر جا ٹھہری اور بعد ازاں اس کی صلاحیتوں کو یہاں اس قدر نکھار ملا کہ وہ اس سال کا گولڈ میڈلسٹ ہے۔

یہاں پڑھنے والا ایک دوسرا نوجوان بہزاد بھی جواد کی طرح ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، ان کے والد لالوکھیت میں کڑھائی کا کام کرتے ہیں، یہاں زیرتعلیم آرام باغ کے رہائشی طالبعلم رضا حیدر کے والد پاسپورٹ آفس کے باہر فارم بھرنے کا کام کرتے ہیں جبکہ نیوکراچی کی اسٹوڈنٹ لڑکی رمشا کے والد لائبریرین ہیں ان متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان میں فائن آرٹس سیکھنے کی لگن اور جنون ہے، یہی وجہ ہے کہ آج یہ اور ان جیسے ان گنت بچے اس ادارے سے جڑچکے ہیں۔

موجودہ قیادت نے طویل محنت کے بعد ادارے کو آرٹس کونسل میں شامل کرایا
شاہدرسام کے مطابق انھوں نے خود انتہائی عسرت اورغربت کی زندگی گزاری ہے اوران بچوں جیسے ہی حالات سے گزرے ہیں، والدہ کپڑے سیتی تھیں اور اپنے آرٹ کے شوق کے لیے انھیں بڑے جتن کرنے پڑتے تھے، شاہد رسام کے مطابق انھوں نے رنگوں کا پہلا سیٹ تین سال میں جاکر روپیہ روپیہ جوڑکر خریدا تھا آرٹس کونسل کے انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کو ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے توسن 1964 میں ادارے کا قیام عمل میں آیا تھا زیڈاے بخاری اورفیض احمد فیض نے ابتدا میں اس ادارے کی آبیاری کی اورپاکستان کا پہلا فنون لطیفہ کا باقاعدہ ادارہ تھا۔

آذرزوبی اس کے پہلے پرنسپل تھے جبکہ علی امام اور احمد پرویز، صادقین،ناہید رضا، شکیل صدیقی،نیلوفر فرخ،شکیل اسماعیل یہاں سے پڑھ کر نکلے، درمیان میں کچھ لوگ اس ادارے پر قابض ہوئے جس کی وجہ سے بتدریج تنزلی کا شکار ہوااس سے منسلک کافی چیزیں کہیں اور منتقل کردی گئیں، جبکہ بہت عرصے تک عدالتوں میں اس کا کیس چلتا رہا بعدازاں آرٹس کونسل کی موجودہ قیادت نے طویل محنت کے بعد اس ادارے کو آرٹس کونسل میں شامل کرادیا ، آرٹس کونسل انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کی بحالی کے لیے ازسرنو کوششیں کی گئیں جس کے لیے ایک بورڈ بنایا گیا جس میں نامور شخصیات عشرت حسین، شوکت ترین، مارجری حسین اور انور مقصود شامل ہیں۔

کئی ملکوںاوراداروں کے اشتراک سے ایکسچینج پروگرام جلد شروع ہوگا
آرٹس کونسل انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کے پرنسپل شاہد رسام نے کہا کہ ایران، چین، امریکا ، برٹش کونسل، الیانس فرانسس اور گوئتھے کے اشتراک سے ایکسچینج پروگرام شروع کررہے ہیں ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ سرکاری اسکالر شپ بذریعہ انسٹی ٹیوشن دی جائیں تاکہ ان طلبہ کے لیے بھی بیرون ملک راہیں ہموار ہوں۔
Load Next Story