سولرانرجی حصول توانائی کا ماحول دوست ذریعہ توجہ کا منتظر
پاک سرزمین پر سالانہ 2500 گھنٹے تک سورج چمکتا ہے، یہ دورانیہ یورپ سے دگنا ہے
آبادی میں اضافے، بڑھتی ہوئی صنعتی سرگرمیوں اور دیگر وجوہ کی بنا پر توانائی کی طلب گذشتہ چند دہائیوں کے دوران تیزی سے بڑھی ہے۔
پاکستان میں ان دنوں رکازی ایندھن ( فرنس آئل، قدرتی گیس اور کوئلہ ) اور قابل تجدید ذرائع ( ہائیڈروالیکٹرک پاور، ہوا اور شمسی توانائی ) سے توانائی حاصل کی جارہی ہے۔ دھوپ سے بجلی کا حصول ( سولر انرجی) ماحول دوست توانائی کے حصول کا وہ ذریعہ ہے جس کا استعمال حالیہ برسوں کے دوران تیزی سے بڑھا ہے۔ کم آپریشنل اور مینٹیننس لاگت،آسان تنصیب اور گرین ہاؤس گیسوں کے صفر اخراج کی وجہ سے یہ ری نیوایبل انرجی کا سب سے معروف ذریعہ ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کے لیے سولر انرجی بہت موزوں ہے۔
بیشتر یورپی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے زیادہ تر شہروں میں سالانہ 1500 سے 2500 گھنٹے تک سورج آب و تاب سے چمکتا ہے، یہ دورانیہ یورپ کے مقابلے میں دگنا ہے۔ سولر انرجی کے حصول کے لیے بلوچستان خاص طور سے موزوں ہے جہاں یومیہ 8 سے 8.5 گھنٹے سورج چمکتا ہے جو دنیا بھر میں بلند ترین شرح ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان میں سولر انرجی کا استعمال بہت کم ہورہا ہے۔
سولرانرجی کا دائرہ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت گرین انرجی پالیسیاں بنائے اور ان کی ترویج کرے ، سولر مینوفیکچررز کی مالی معاونت کی جائے، سولر ٹیکنالوجیز کی تنصیب کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں، سولر انرجی کی ترویج کے لیے آئی پی پیز کے بجائے گھروں کو ہدف بنایا جائے ۔ حکومت دور افتادہ دیہات میں رہنے والے لوگوں کی معاشی سماجی بہتری اور تخفیف غربت کے لیے باسانی اور بلامعاوضہ دستیاب سولر انرجی سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔
پاکستان میں ان دنوں رکازی ایندھن ( فرنس آئل، قدرتی گیس اور کوئلہ ) اور قابل تجدید ذرائع ( ہائیڈروالیکٹرک پاور، ہوا اور شمسی توانائی ) سے توانائی حاصل کی جارہی ہے۔ دھوپ سے بجلی کا حصول ( سولر انرجی) ماحول دوست توانائی کے حصول کا وہ ذریعہ ہے جس کا استعمال حالیہ برسوں کے دوران تیزی سے بڑھا ہے۔ کم آپریشنل اور مینٹیننس لاگت،آسان تنصیب اور گرین ہاؤس گیسوں کے صفر اخراج کی وجہ سے یہ ری نیوایبل انرجی کا سب سے معروف ذریعہ ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کے لیے سولر انرجی بہت موزوں ہے۔
بیشتر یورپی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے زیادہ تر شہروں میں سالانہ 1500 سے 2500 گھنٹے تک سورج آب و تاب سے چمکتا ہے، یہ دورانیہ یورپ کے مقابلے میں دگنا ہے۔ سولر انرجی کے حصول کے لیے بلوچستان خاص طور سے موزوں ہے جہاں یومیہ 8 سے 8.5 گھنٹے سورج چمکتا ہے جو دنیا بھر میں بلند ترین شرح ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان میں سولر انرجی کا استعمال بہت کم ہورہا ہے۔
سولرانرجی کا دائرہ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت گرین انرجی پالیسیاں بنائے اور ان کی ترویج کرے ، سولر مینوفیکچررز کی مالی معاونت کی جائے، سولر ٹیکنالوجیز کی تنصیب کے لیے سہولتیں فراہم کی جائیں، سولر انرجی کی ترویج کے لیے آئی پی پیز کے بجائے گھروں کو ہدف بنایا جائے ۔ حکومت دور افتادہ دیہات میں رہنے والے لوگوں کی معاشی سماجی بہتری اور تخفیف غربت کے لیے باسانی اور بلامعاوضہ دستیاب سولر انرجی سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔