کسے یہ ’’آئینہ‘‘ دکھا رہے ہو
ریاست پاکستان کی ستر سالہ تاریخ سیاسی اور غیر سیاسی حملوں اور دھونس دھمکیوں میں ہونے والے عدالتی فیصلوں سے پراگندہ ہے
JALALABAD:
سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں جب درخواست گزرا کا نام پکارا گیا تو کالا کوٹ اور کالی ٹائی پہنے میاں محمد نواز شریف خود روسٹرم پر آئے۔ بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے نواز شریف سے استفسار کیا۔ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لےکر کیوں نہیں گئے؟ نواز شریف نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ بااختیار ہوتی تو ارکان پارلیمنٹ حتیٰ کہ حکومتی وزراء بھی سپریم کورٹ کا رخ نہ کرتے۔
یہ مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں امریکی فوج کی ہائی کمان کو لکھے جانے والے مبینہ خط کے خلاف سنا جارہا تھا۔ دوران سماعت میاں صاحب کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ عدلیہ پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ آزاد اور بااختیار ہے، سو اہم قومی معاملات کے فیصلے کرنا منتخب نمائندوں کے بس کا روگ نہیں۔ آج میاں صاحب ان ہی عدالتوں کے سزا یافتہ مجرم ہیں اور کوٹ لکھپت جیل میں تاحال سات سال کی قید کاٹ رہے ہیں۔ مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے فیصلوں میں ججز بھی اتنے ہی دباؤ کا شکار ہیں جتنی کہ، بقول میاں صاحب، پارلیمنٹ۔
مریم نواز نے جج ارشد ملک کے انکشافات پر مبنی ویڈیو بطور ثبوت پیش کی۔ لب لباب یہ تھا کہ کچھ لوگوں نے ''مجھے کسی جگہ پر بلایا، میرے سامنے چائے رکھی اور سامنے اسکرین پر ایک ویڈیو چلا دی۔ وہ لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے اور کچھ دیر بعد واپس آئے تو ویڈیو ختم ہوچکی تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں؟ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ مریم نواز کے مطابق، گفتگو کے دوران جج ناصر بٹ کو، جو کہ نون لیگی کارکن ہیں، بتارہے تھے کہ وہ لوگ خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑتے اور ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ بندہ اس جگہ پر ہی چلا جاتا ہے جہاں پر وہ لے کرجانا چاہتے ہیں۔''
اس پریس کانفرنس کے بعد سیاست کی صفوں میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ گو کہ اس ویڈیو سے حکومت وقت کا لینا دینا نہیں مگر ویڈیو سے وابستہ فریق خاموش اور حکومتی وزراء جج کے دفاع میں پوزیشن سنبھال چکے ہیں۔ اس ویڈیو کی تصدیق یا تردید فریقین کو کرنی ہے: ایک وہ جو فاضل جج کو ان کی نجی زندگی کی 15 سال پرانی ویڈیو دکھا کا بلیک میل کر رہا ہے؛ اور دوسرا فریق اعلیٰ عدالت ہے جسے اب یہ تعین کرنا ہے کہ ملک کے تین بار منتخب وزیراعظم کی سزا کا فیصلہ کسی دباؤ میں کیا گیا یا انصاف کے تقاضے پورے ہوئے۔ سوال مذکورہ منصف اعلیٰ کے کنڈکٹ کا ہے جس کا فیصلہ بہرحال سپریم جوڈیشل کونسل کو کرنا ہے۔
اس سے قبل حکومت وقت تین ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرچکی ہے جن کے دفاع میں اِکا دُکا وکلا کمیونٹی کے علاوہ اب تک کوئی نہیں نکلا۔ ایک مختصر سے احتجاج میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی کی شمولیت دیکھی گئی مگر ان کی بھی وضاحت یہ تھی کہ وہ بطور وکیل اس احتجاج کا حصہ بنے ہیں۔
ریاست پاکستان کی ستر سالہ تاریخ سیاسی اور غیر سیاسی حملوں اور دھونس دھمکیوں میں ہونے والے عدالتی فیصلوں سے پراگندہ ہے۔ تاریخ کا سبق پڑھنے والوں کو ازبر ہوگا کہ ریاست پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے خلاف اسپیکر مولوی تمیز الدین درخواست لے کر ملک کی سب سے بڑی عدالت پہنچے تو پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے فیصلے میں گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کو ملک کے وسیع تر مفاد میں درست قرار دیا۔ یہ بینچ جن ججز پر مشتمل تھا، ان میں جسٹس منیر، جسٹس محمد شریف، جسٹس ایس ایم اکرم، جسٹس ایس اے رحمان اور فیصلے سے اختلاف رکھنے والے جج کا نام رابرٹ کارنیلیئس تھا۔ اس فیصلے کو تاریخ میں نظریہ ضرورت کے نام سے یاد رکھا گیا۔
ضیا الحق کی چھڑی سے تھرتھر کانپتے مولوی مشاق کی عدالت ہو، نواز شریف کے جانثار جسٹس قیوم کی آڈیو ٹیپ ہو یا پھر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں جنرل صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے جج صاحبان، تاریخ کا یہ معاملہ چل سو چل کا ہے یعنی امر مقرر ہے سو احتساب عدالت کا حالیہ معاملہ بھی جانیے کہ ایک تجربہ اور سہی۔
جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے 2011 میں اپنے ایک انٹرویو میں بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو غلط قرار دیا مگر یہ عذر بھی پیش کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی ضد بھی تھی، انہوں نے ججز کو ناراض کر دیا تھا۔ نسیم حسن شاہ ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے میں اعلیٰ عدالت کے لارجر بینچ کا حصہ تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کے نظام سیاست کو گدلا کرنے والے فریقین نےاپنی غلطیوں کا اعتراف تو کیا مگر ماضی کا سبق یاد رکھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ غیر سیاسی اداروں کی مداخلت سیاست میں اور سیاست کی مداخلت عدالتی کٹہروں میں تواتر سے جاری رہی۔
میاں صاحب نے اپنے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو ایس جی ایس کوٹیکنا کیس کے مقدمے میں الجھائے رکھا تھا۔ عدالت جسٹس قیوم کی تھی۔ ان ہی دنوں ایک برطانوی اخبار نے شریف حکومت کے اٹارنی جنرل خالد انور اور جسٹس قیوم کی ٹیلی فونک گفتگو کی ٹیپ کا متن شائع کردیا۔ اس گفتگو کا خلاصہ تھا کہ ایک جج، ایک وکیل سے کہہ رہا ہے، ''فکر نہ کرو سر جی! میں جناب کا خادم!'' میاں نواز نے اس خدمت کے صلے میں جسٹس قیوم کو اٹارنی جنرل آف پاکستان کے عہدے سےنوازا۔
احتساب عدالت کے ارشد ملک پر الزام ہے کہ میاں صاحب کو جیل بھیجنے کا فیصلہ انہوں نے دباؤ میں کیا۔ اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی ججوں کے فیصلوں پر دباؤ کا کھلم کھلا اظہار کرچکے ہیں۔ گو کہ جاری کی جانے والے والی ویڈیو کی قانونی حیثیت کمزور ہے اور اس ویڈیو کے جواب میں جج ارشد ملک کی طرف سے جاری ہونے والی تردیدی پریس ریلیز بھی ناکافی ہے مگر اس سارے معاملے نے فی الحال احتساب کے تسلسل کو ضرور مشکوک کر دیا ہے۔ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ بھی احتساب عدالت میں جج ارشد ملک سن رہے ہیں۔
اگر اس سارے معاملے سے حکومت نے اپنے آپ کو دور نہ رکھا، دھمکیاں دینے والے فریق نے وضاحت نہ دی اور اعلیٰ عدالت انصاف کے تقاضوں پر مبنی فیصلہ نہ کرسکی تو بات دور تلک جائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں جب درخواست گزرا کا نام پکارا گیا تو کالا کوٹ اور کالی ٹائی پہنے میاں محمد نواز شریف خود روسٹرم پر آئے۔ بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے نواز شریف سے استفسار کیا۔ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لےکر کیوں نہیں گئے؟ نواز شریف نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ بااختیار ہوتی تو ارکان پارلیمنٹ حتیٰ کہ حکومتی وزراء بھی سپریم کورٹ کا رخ نہ کرتے۔
یہ مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں امریکی فوج کی ہائی کمان کو لکھے جانے والے مبینہ خط کے خلاف سنا جارہا تھا۔ دوران سماعت میاں صاحب کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ عدلیہ پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ آزاد اور بااختیار ہے، سو اہم قومی معاملات کے فیصلے کرنا منتخب نمائندوں کے بس کا روگ نہیں۔ آج میاں صاحب ان ہی عدالتوں کے سزا یافتہ مجرم ہیں اور کوٹ لکھپت جیل میں تاحال سات سال کی قید کاٹ رہے ہیں۔ مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے فیصلوں میں ججز بھی اتنے ہی دباؤ کا شکار ہیں جتنی کہ، بقول میاں صاحب، پارلیمنٹ۔
مریم نواز نے جج ارشد ملک کے انکشافات پر مبنی ویڈیو بطور ثبوت پیش کی۔ لب لباب یہ تھا کہ کچھ لوگوں نے ''مجھے کسی جگہ پر بلایا، میرے سامنے چائے رکھی اور سامنے اسکرین پر ایک ویڈیو چلا دی۔ وہ لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے اور کچھ دیر بعد واپس آئے تو ویڈیو ختم ہوچکی تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں؟ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔ مریم نواز کے مطابق، گفتگو کے دوران جج ناصر بٹ کو، جو کہ نون لیگی کارکن ہیں، بتارہے تھے کہ وہ لوگ خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑتے اور ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ بندہ اس جگہ پر ہی چلا جاتا ہے جہاں پر وہ لے کرجانا چاہتے ہیں۔''
اس پریس کانفرنس کے بعد سیاست کی صفوں میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ گو کہ اس ویڈیو سے حکومت وقت کا لینا دینا نہیں مگر ویڈیو سے وابستہ فریق خاموش اور حکومتی وزراء جج کے دفاع میں پوزیشن سنبھال چکے ہیں۔ اس ویڈیو کی تصدیق یا تردید فریقین کو کرنی ہے: ایک وہ جو فاضل جج کو ان کی نجی زندگی کی 15 سال پرانی ویڈیو دکھا کا بلیک میل کر رہا ہے؛ اور دوسرا فریق اعلیٰ عدالت ہے جسے اب یہ تعین کرنا ہے کہ ملک کے تین بار منتخب وزیراعظم کی سزا کا فیصلہ کسی دباؤ میں کیا گیا یا انصاف کے تقاضے پورے ہوئے۔ سوال مذکورہ منصف اعلیٰ کے کنڈکٹ کا ہے جس کا فیصلہ بہرحال سپریم جوڈیشل کونسل کو کرنا ہے۔
اس سے قبل حکومت وقت تین ججز کے خلاف ریفرنس دائر کرچکی ہے جن کے دفاع میں اِکا دُکا وکلا کمیونٹی کے علاوہ اب تک کوئی نہیں نکلا۔ ایک مختصر سے احتجاج میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی کی شمولیت دیکھی گئی مگر ان کی بھی وضاحت یہ تھی کہ وہ بطور وکیل اس احتجاج کا حصہ بنے ہیں۔
ریاست پاکستان کی ستر سالہ تاریخ سیاسی اور غیر سیاسی حملوں اور دھونس دھمکیوں میں ہونے والے عدالتی فیصلوں سے پراگندہ ہے۔ تاریخ کا سبق پڑھنے والوں کو ازبر ہوگا کہ ریاست پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے خلاف اسپیکر مولوی تمیز الدین درخواست لے کر ملک کی سب سے بڑی عدالت پہنچے تو پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے فیصلے میں گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کو ملک کے وسیع تر مفاد میں درست قرار دیا۔ یہ بینچ جن ججز پر مشتمل تھا، ان میں جسٹس منیر، جسٹس محمد شریف، جسٹس ایس ایم اکرم، جسٹس ایس اے رحمان اور فیصلے سے اختلاف رکھنے والے جج کا نام رابرٹ کارنیلیئس تھا۔ اس فیصلے کو تاریخ میں نظریہ ضرورت کے نام سے یاد رکھا گیا۔
ضیا الحق کی چھڑی سے تھرتھر کانپتے مولوی مشاق کی عدالت ہو، نواز شریف کے جانثار جسٹس قیوم کی آڈیو ٹیپ ہو یا پھر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں جنرل صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے جج صاحبان، تاریخ کا یہ معاملہ چل سو چل کا ہے یعنی امر مقرر ہے سو احتساب عدالت کا حالیہ معاملہ بھی جانیے کہ ایک تجربہ اور سہی۔
جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ نے 2011 میں اپنے ایک انٹرویو میں بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو غلط قرار دیا مگر یہ عذر بھی پیش کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی ضد بھی تھی، انہوں نے ججز کو ناراض کر دیا تھا۔ نسیم حسن شاہ ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے میں اعلیٰ عدالت کے لارجر بینچ کا حصہ تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کے نظام سیاست کو گدلا کرنے والے فریقین نےاپنی غلطیوں کا اعتراف تو کیا مگر ماضی کا سبق یاد رکھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ غیر سیاسی اداروں کی مداخلت سیاست میں اور سیاست کی مداخلت عدالتی کٹہروں میں تواتر سے جاری رہی۔
میاں صاحب نے اپنے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو ایس جی ایس کوٹیکنا کیس کے مقدمے میں الجھائے رکھا تھا۔ عدالت جسٹس قیوم کی تھی۔ ان ہی دنوں ایک برطانوی اخبار نے شریف حکومت کے اٹارنی جنرل خالد انور اور جسٹس قیوم کی ٹیلی فونک گفتگو کی ٹیپ کا متن شائع کردیا۔ اس گفتگو کا خلاصہ تھا کہ ایک جج، ایک وکیل سے کہہ رہا ہے، ''فکر نہ کرو سر جی! میں جناب کا خادم!'' میاں نواز نے اس خدمت کے صلے میں جسٹس قیوم کو اٹارنی جنرل آف پاکستان کے عہدے سےنوازا۔
احتساب عدالت کے ارشد ملک پر الزام ہے کہ میاں صاحب کو جیل بھیجنے کا فیصلہ انہوں نے دباؤ میں کیا۔ اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھی ججوں کے فیصلوں پر دباؤ کا کھلم کھلا اظہار کرچکے ہیں۔ گو کہ جاری کی جانے والے والی ویڈیو کی قانونی حیثیت کمزور ہے اور اس ویڈیو کے جواب میں جج ارشد ملک کی طرف سے جاری ہونے والی تردیدی پریس ریلیز بھی ناکافی ہے مگر اس سارے معاملے نے فی الحال احتساب کے تسلسل کو ضرور مشکوک کر دیا ہے۔ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ بھی احتساب عدالت میں جج ارشد ملک سن رہے ہیں۔
اگر اس سارے معاملے سے حکومت نے اپنے آپ کو دور نہ رکھا، دھمکیاں دینے والے فریق نے وضاحت نہ دی اور اعلیٰ عدالت انصاف کے تقاضوں پر مبنی فیصلہ نہ کرسکی تو بات دور تلک جائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔