دوحہ میں افغان امن مذاکرات

اس کانفرنس میں افغانستان کی تمام بڑی 18سیاسی جماعتوں کے قائدین،گروپس کے 45مندوبین اور نمایندہ وفود نے شرکت کی۔


Editorial July 09, 2019
اس کانفرنس میں افغانستان کی تمام بڑی 18سیاسی جماعتوں کے قائدین،گروپس کے 45مندوبین اور نمایندہ وفود نے شرکت کی۔ فوٹو : فائل

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اتوار کو افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور دیگر متحارب دھڑوں میں مذاکرات شروع ہوئے۔ سخت سیکیورٹی میں ہونے والے یہ مذاکرات ساڑھے آٹھ گھنٹے جاری رہے ۔ مذاکرات میں تقریباً 70 مندوبین شریک تھے۔

کانفرنس روم میں داخل ہونے سے قبل تمام افراد کو اپنے موبائل فونز انتظامیہ کے حوالے کرنے پڑے۔ مذاکرات میں فریقین نے ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کی ۔مذاکرات پیر کو بھی جاری رہے جن میں خواتین اور اقلیتوں کے مستقبل پر بھی بات ہوئی۔

یہ مذاکرات امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کے ایک ہفتے بعد ہورہے ہیںجن میں دونوں فریق قیام امن کی جانب پیشرفت کرنا چاہتے ہیں۔طالبان اور امریکا کے مذاکرات میں افغان دھڑوں کے ان مذاکرات کی وجہ سے 2 دن کا وقفہ دیا گیا ہے۔ امریکا ستمبر میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخابات سے قبل کو ئی معاہدہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے امریکی افواج کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوسکے۔

ادھر افغانستان کے صوبے غزنی میں انٹیلی جنس کے دفتر پر طالبان کے خود کش کار بم حملے میں 8 پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد ہلاک اور 180 زخمی ہو گئے۔طالبان نے غزنی میں این ڈی ایس کے یونٹ کو نشانہ بنایا، انھوں نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں این ڈی ایس کے درجنوں افسران یا تو مارے گئے یا پھر زخمی ہوئے۔

افغانستان کی سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے غیرملکی حملوں اور بعدازاں خانہ جنگی کا شکار چلی آ رہی ہے' پہلے روس نے حملہ کر کے افغانستان کے امن کو تہہ و بالا کیا' افغانیوں نے اپنا خون دے کر روس کو واپسی پر مجبور کیا تو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ امن کو ترستی افغان سرزمین پر پھر امریکا آدھمکا اور اس نے تاریخ کے ان اوراق کو بھی افغانیوں کے خون سے رقم کر دیا جنھیں روس خالی چھوڑ گیا تھا۔

افغانستان میں پائیدار امن کے لیے طالبان کا وجود حقیقت بن کر ابھرا ہے' جنھیں کل تک امریکا دہشت گرد قرار دیتا رہا آج انھی طالبان کو امن مذاکرات کا بنیادی فریق قرار دے رہا ہے' امریکا کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ طالبان کے وجود سے انکار کرکے افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔

طالبان سے ہونے والے مذاکرات اسی سوچ کا عملی روپ ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکی پالیسیوں میں بہت سی تبدیلیاں لا چکے ہیں' وہ اب امریکی قوم کا سرمایہ اور امریکی فوج کا خون افغانستان کی سرزمین پر مزید ضایع نہیں کرنا چاہتے' انھیں احساس ہو چکا ہے کہ جنگ ایک ایسا راستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں اور اس کے ذریعے افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا لہٰذا مذاکرات کے ذریعے پرامن حل تلاش کیا جائے جس کا طالبان لازمی حصہ ہیں۔

امریکا نے افغانستان کے دیگر دھڑوں کی مدد سے حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومت بھی قائم کر کے دیکھ لی مگر طالبان کی جنگجویانہ پالیسی نے امریکا کو مجبور کر دیا کہ وہ طالبان کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔ دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ہر دو فریق کسی متفقہ حل تک نہیں پہنچ پائے۔ اب دوحہ مذاکرات میں طالبان اور ان کے متحارب دھڑوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ایک بار پھر امن کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ان مذاکرات میں پہلی بار کم از کم چھ خواتین بھی شریک ہوئیں۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ افغان گروپوں کے ان مذاکرات کا بڑی دیر سے انتظار تھا،انھوں نے افغان حکومت، سول سوسائٹی، خواتین اور طالبان کی اکٹھے بیٹھنے پر تعریف کی ہے۔

قطر کے وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ وہ ان تعمیری مذاکرات سے بہت پر امید ہیں۔ پاکستان نے بھی امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کار کا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور آج بھی وہ بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے۔ افغانستان کے حالات کا پاکستان پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے بھی افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے کیمپوں سے جا ملتے ہیں اس لیے ایک پرامن افغانستان مضبوط پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔

گزشتہ دنوں افغان صدر اشرف غنی نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان نے حامد کرزئی کے دور میں بھی افغانستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر کرزئی حکومت کا منفی رویہ ان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہا۔

گزشتہ ماہ بھوربن میں افغان امن عمل کے لیے ''لاہور پراسیس'' کی پہلی امن کانفرنس سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،افغانستان سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان اور افغانستان یکساں تاریخ، مذہبی تعلق، زبان، ثقافت رکھتے ہیں، افغان مہاجرین کو دہائیوں سے پناہ دینا، بھائی چارے کا غماز ہے، پاکستان اور افغانستان عدم استحکام اور تنازعات کے باعث شدید متاثر ہوئے، اس لیے ایک دوسرے کے مابین عدم اعتماد کی فضا کسی کے مفاد میں نہیں، پاک افغان تعلقات پر کسی کو عدم اعتماد، پروپیگنڈہ یا منفی تاثر پیدا نہیں کرنے دیں گے۔

اس کانفرنس میں افغانستان کی تمام بڑی 18سیاسی جماعتوں کے قائدین،گروپس کے 45مندوبین اور نمایندہ وفود نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں سابق افغان وزیراعظم و حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار' شمالی اتحاد کے رہنما احمد شاہ مسعود مرحوم کے بھائی احمد ولی مسعود' حزب وحدت مردم افغانستان کے استاد محمد محقق' جماعت اسلامی افغانستان کے سیکریٹری جنرل و سابق گورنر استاد عطا محمد نور سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے مگر طالبان اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔

جہاں شمالی اتحاد اور دیگر افغان دھڑوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے وہاں طالبان کے وجود کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ابھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قیام امن کے لیے ان کوششوں کا یقیناً خیرمقدم کیا جانا چاہیے اور جب تک امن قائم نہیں ہوتا ایسی کوششوں کا تسلسل جاری رہنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں