کراچی ایک لاوارث شہر
ایک ایسا شہرجو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ تجارتی ومعاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔
شہر قائد جوکبھی عروس البلاد کے نام سے پکارا جاتا تھا،ایک ترقی یافتہ شہر، علم وادب ، فن وثقافت کا گہوارہ، اب گونا گوں مسائل اور آلام کا شکار ہے۔اس شہر ناپرساں کا نوحہ لکھنا آسان نہیں ۔کراچی کے باسیوں کے کرب اوردرد کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔
ایک ایسا شہرجو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ تجارتی ومعاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے، اس کے باوجود یہاں انفرااسٹرکچر کی زبوں حالی اور بنیادی شہری مسائل کا اب تک حل نہ ہونا ایک ایسی دردانگیزداستان ہے، جسے سنا اور پڑھا جائے توآنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں۔ایک وہ وقت تھا جب سڑکوں کی پانی سے دھلائی کی جاتی تھی اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ یہی شہرکی سڑکیں انسانی خون سے تین دہائیوں تک سرخ رہیں۔
یہ شہر جمہوریت پسندوں کا مرکز رہا ہے، ہر تحریک کا ہر اول دستہ ، یہ ادائے دلبرانہ مقتدر حلقوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوئی اور پھر کراچی میں لسانیت اور فرقہ واریت کی وہ آگ لگائی گئی کہ دہکتے الاؤ میں شہرکا امن جل کر راکھ ہوگیا۔اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی کی محرومیوں کا کبھی درد مندی سے احساس ہی نہیں کیا گیا۔نہ ہی وفاق نے اسے اپنا سمجھا اور نہ اس شہر کا سپوت ہونے کے دعویداروں نے اسے اپنا سمجھا۔
بس ٹیکسز وصول کیے، لگ بھگ ملک بھر کا ساٹھ فی صد ریونیو یہ شہر آج بھی دیتا ہے، کراچی پورے پاکستان کی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں اپنا اہم ترین کردار نبھا رہا ہے لیکن عام آدمی کا المیہ یہ ہے کہ اختیارات کی جنگ جو صوبائی اور شہری حکومت کے درمیان طویل عرصے سے جاری ہے، اس کے نتیجے میں صوبائی و بلدیاتی مراکز اس شہر کے مسائل کے حل کی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس وقت شہر قائد کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں جا بجا کچرے کے ڈھیر ہیں۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس خبر سے لگایا جائے کہ سندھ حکومت نے سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈکی شہرکے چاروں اضلاع سے کچرا اٹھانے میں ناکامی پر بلدیہ عظمیٰ کو کچرا اٹھانے کے امور واپس دینے کا عندیہ دیا ہے ۔تین برس میں دو کمپنیوں کو چھ ارب کی ادائیگی کے باوجود شہرکچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا اور ڈرگ مافیا نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، اسٹریٹ کرائمز کے باعث ہر دوسرا شہری لٹ چکا ہے ، شہریوں کو نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ صاف ماحول۔ روزانہ 600ملین لیٹر گندا پانی سمندر میں پھینکا جارہا ہے جو سمندری حیات کو ختم کررہا ہے۔
دوسری جانب پینے کے صاف پانی کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے اور شہری ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ کراچی کے لیے پانی کا ''کے فور'' منصوبہ ابھی تک نامکمل ہے،حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انفرااسٹرکچر اور صفائی کے اعتبار سے کراچی دوسرے شہروں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔کراچی سرکلر ریلوے انیس برس سے بند ہے۔ ایم کیوایم پاکستان بحالی کمیٹی کے سربراہ فا روق ستار نے کہا ہے کہ کر اچی کے شہریوں کو مہنگائی تلے زندہ درگورکردیا ہے،کاروبا ر بند ہورہے ہیں، تاجر ہڑتال پر آگئے، اس حکومت نے ایسے ٹیکس عائد کردیے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کشادہ اور فراخ دل شہر نے ملک کے ہر حصے سے آنے والوں کو جگہ دے رکھی ہے، یہ شہر غریب و بندہ پرور شہر ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کاکبھی سوچا تک نہیں گیا۔ سچی بات فقط اتنی ہے کہ اس شہر کو اسٹیک ہولڈرز لے ڈوبے اور تبدیلی کے نعرے والے بھی نظر اندازکررہے ہیں۔
ایک ایسا شہرجو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ تجارتی ومعاشی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے، اس کے باوجود یہاں انفرااسٹرکچر کی زبوں حالی اور بنیادی شہری مسائل کا اب تک حل نہ ہونا ایک ایسی دردانگیزداستان ہے، جسے سنا اور پڑھا جائے توآنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں۔ایک وہ وقت تھا جب سڑکوں کی پانی سے دھلائی کی جاتی تھی اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ یہی شہرکی سڑکیں انسانی خون سے تین دہائیوں تک سرخ رہیں۔
یہ شہر جمہوریت پسندوں کا مرکز رہا ہے، ہر تحریک کا ہر اول دستہ ، یہ ادائے دلبرانہ مقتدر حلقوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوئی اور پھر کراچی میں لسانیت اور فرقہ واریت کی وہ آگ لگائی گئی کہ دہکتے الاؤ میں شہرکا امن جل کر راکھ ہوگیا۔اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی کی محرومیوں کا کبھی درد مندی سے احساس ہی نہیں کیا گیا۔نہ ہی وفاق نے اسے اپنا سمجھا اور نہ اس شہر کا سپوت ہونے کے دعویداروں نے اسے اپنا سمجھا۔
بس ٹیکسز وصول کیے، لگ بھگ ملک بھر کا ساٹھ فی صد ریونیو یہ شہر آج بھی دیتا ہے، کراچی پورے پاکستان کی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں اپنا اہم ترین کردار نبھا رہا ہے لیکن عام آدمی کا المیہ یہ ہے کہ اختیارات کی جنگ جو صوبائی اور شہری حکومت کے درمیان طویل عرصے سے جاری ہے، اس کے نتیجے میں صوبائی و بلدیاتی مراکز اس شہر کے مسائل کے حل کی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس وقت شہر قائد کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں جا بجا کچرے کے ڈھیر ہیں۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس خبر سے لگایا جائے کہ سندھ حکومت نے سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈکی شہرکے چاروں اضلاع سے کچرا اٹھانے میں ناکامی پر بلدیہ عظمیٰ کو کچرا اٹھانے کے امور واپس دینے کا عندیہ دیا ہے ۔تین برس میں دو کمپنیوں کو چھ ارب کی ادائیگی کے باوجود شہرکچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا اور ڈرگ مافیا نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، اسٹریٹ کرائمز کے باعث ہر دوسرا شہری لٹ چکا ہے ، شہریوں کو نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ صاف ماحول۔ روزانہ 600ملین لیٹر گندا پانی سمندر میں پھینکا جارہا ہے جو سمندری حیات کو ختم کررہا ہے۔
دوسری جانب پینے کے صاف پانی کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے اور شہری ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ کراچی کے لیے پانی کا ''کے فور'' منصوبہ ابھی تک نامکمل ہے،حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ انفرااسٹرکچر اور صفائی کے اعتبار سے کراچی دوسرے شہروں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔کراچی سرکلر ریلوے انیس برس سے بند ہے۔ ایم کیوایم پاکستان بحالی کمیٹی کے سربراہ فا روق ستار نے کہا ہے کہ کر اچی کے شہریوں کو مہنگائی تلے زندہ درگورکردیا ہے،کاروبا ر بند ہورہے ہیں، تاجر ہڑتال پر آگئے، اس حکومت نے ایسے ٹیکس عائد کردیے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کشادہ اور فراخ دل شہر نے ملک کے ہر حصے سے آنے والوں کو جگہ دے رکھی ہے، یہ شہر غریب و بندہ پرور شہر ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کاکبھی سوچا تک نہیں گیا۔ سچی بات فقط اتنی ہے کہ اس شہر کو اسٹیک ہولڈرز لے ڈوبے اور تبدیلی کے نعرے والے بھی نظر اندازکررہے ہیں۔