کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں
کانگریس ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔تقسیم سے قبل مدتِ صدارت ایک سالانہ اجلاس سے اگلے سالانہ اجلاس تک ہوا کرتی تھی۔
جنوبی ایشیا کی سب سے پرانی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس (اٹھارہ سو پچاسی)اس وقت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔موتی لال نہرو سے راہول گاندھی تک پانچ نسلوں کی قیادت کا نوے برس کا دورانیہ شائد اکیسویں صدی میں مزید آگے نہیں چل سکتا۔اگر ایک سو تینتیس برس پرانی پارٹی کا اندرونی کلچر اوپر سے نیچے تک نہ بدلا تو سفید گینڈے کی طرح اس کا قصہ بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہو جائے گا۔
انسان کی طرح ہر تحریک اور جماعت بھی بچپن ، جوانی اور بڑھاپے سے گذرتی ہے۔ایک دور میں وہ پرکشش بھی ہوتی ہے اور توانا بھی۔لیکن اگر ورزش کرنا چھوڑ دے ، نظریاتی طور پر منجمد ہو جائے،نئے خون کو جسم میں نہ دوڑنے دے ،کج بحثی میں پڑ جائے اور صرف ماضی میں زندہ رہے تو پھر حال بے حال اور مستقبل موتیا جاتا ہے۔آج چورانوے برس پرانی راشٹریہ سیوک سنگھ کی نظریاتی کوکھ سے جنمی انتالیس سالہ بی جے پی کے مقابلے میں سوا سو سال سے زائد کی کانگریس کو یہی چیلنج درپیش ہے۔
خاندانی سیاست کی چھتر چھایا تلے زندگیاں بتانے والی کانگریسی قیادت اس قدر آلسی ہو چکی ہے کہ وہ گاندھی خاندان کی انگلی پکڑے بغیر قدم باہر نکالنے سے بھی ڈرتی ہے۔یہی سبب ہے کہ جب عام انتخابات میں شکستِ فاش کے بعد راہول گاندھی نے کانگریسی رہنماؤں کو ہدایت کی کہ ڈیڑھ ماہ کے اندر کسی اور کو نیا قائد چن لیں تو کئی ہفتے تو اسی میں نکل گئے کہ شائد راہول شکست کی وجہ سے جذباتی ہو گئے ہیں۔ہم انھیں نہیں بھائی نہیں کہتے ہوئے منا لیں گے اور وہ بالاخر مان بھی جائیں گے اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے۔
لیکن جب راہول منت سماجت اور آہ و زاری کے باوجود اپنے فیصلے پر اڑے رہے تب کھلبلی مچ گئی کہ کسے نیا صدر چنا جائے۔طے یہ پایا کہ جب تک ورکنگ کمیٹی کوئی مستقل رہنما نہیں چن لیتی تب تک نوے سالہ موتی لال ووہرہ قائمقام صدر رہیں گے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس میں گاندھی خاندان کو نکال کر قیادت کا کتنا گمبھیر خلا ہے اور بی ٹیم تیار کرنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
راہول نے پچھلے ہفتے جو الوداعی خط لکھا وہ ایسی تمام پارٹیوں کے کارکنوں کو پڑھنا چاہیے جن کی زندگیاں موروثی سیاست کے برگد تلے آخری سانس تک گذر جاتی ہیں۔
خط کا خلاصہ یہ ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں شکست کے اسباب کا تعین اور محاسبہ ضروری ہے۔میں نہ صرف اس شکست کی ذمے داری قبول کرتا ہوںبلکہ خود کو جوابدہی کے لیے بھی پیش کرتا ہوں۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سب کا محاسبہ ہو مگر صدر کا نہ ہو۔میں بی جے پی کا بطور سیاسی جماعت مخالف نہیں بلکہ اس کے نظریے کا مخالف ہوں۔میں جس بھارت کے خمیر سے اٹھا ہوں وہ بی جے پی کے تصورِ بھارت سے مختلف ہے۔یہ کوئی نئی لڑائی نہیں بلکہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔
جہاں وہ تصادم دیکھتے ہیں میں ہم آہنگی دیکھتا ہوں۔ جہاں وہ نفرت دیکھتے ہیں وہاں میں پیار دیکھتا ہوں۔ جہاں وہ خوف دیکھتے ہیں وہاں میں گلے لگاتا ہوں۔یہی بھارت کی اصل روح ہے۔ریاستی ڈھانچے اور آئین پر حملہ اس ملک کے تانے بنے کو تباہ کر سکتا ہے۔کئی بار مجھے لگا جیسے میں اکیلا کھڑا ہوں مگر جتنا بھی لڑ سکا اس پر فخر ہے اور مرتے دم تک کانگریس کا سپاہی رہوں گا۔
کئی مبصرین کہتے ہیں کہ راہول کا جذبہ بھلے کتنا ہی قابلِ قدر ہو مگر جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔راہول نے اپنے پانچ سالہ دورِ صدارت میں پارٹی کو سیکولر سمبل بنا کر رکھنے کے لیے باتیں زیادہ کیں اور عمل کم کیا۔ ووٹ بینک بڑھانے کے لیے انھوں نے گلابی ہندوتوا کی پالیسی اختیار کی، مندروں میں چڑھاوا چڑھایا، مسجدوں سے دور رہے ، خود کے ہندو ہونے پر فخر کیا مگر پچھلی جاتیوں اور مسلمانوں پر اجتماعی تشدد کے بارے میں ایک لفظ نہ کہا۔بقول شخصے راہول نے اپنا نظریاتی میدان چھوڑ کر بی جے پی کے میدان میں فٹ بال کھیلنے کی کوشش کی مگر جب اصل ہندوتوا موجود ہو تو چائنا کاپی کون خریدے گا۔
سیاست میں اونچ نیچ غلط صحیح چلتا رہتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس خود کو اوور ہال کر پاتی ہے یا بار بار مڑ مڑکے گاندھی خاندان کی طرف ہی دیکھتی رہے گی۔کیا راہول ، پریانکا اور سونیا اگلے کئی برس تک کانگریس کو اپنے تنظیمی فیصلے خود کرنے دیں گے یا پیچھے سے ڈور ہلاتے رہیں گے ؟
کانگریس ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔تقسیم سے قبل مدتِ صدارت ایک سالانہ اجلاس سے اگلے سالانہ اجلاس تک ہوا کرتی تھی۔ صدر نامزد نہیں منتخب ہوتا تھا۔یوں سمجھ لیجیے کہ اٹھارہ سو پچاسی سے انیس سو سینتالیس تک کانگریس کے اٹھاون صدر بدلے گئے۔مگر تقسیم کے بعد کے پہلے پچاس برس میں کانگریس کی صدارت کے لیے صرف دو بار انتخابات ہوئے۔ نوے کی دہائی میں راجیو گاندھی کے مرنے کے بعد لگ بھگ آٹھ برس تک کانگریس کی قیادت نہرو خاندان سے باہر رہی اور پھر سونیا گاندھی اور پھر راہول کے پاس آ گئی۔
کیا اس پوری کہانی میں پاکستانی خاندانی سیاسی جماعتوں کے لیے کوئی سبق ہے ؟ اگرچہ پی ٹی آئی اور بی جے پی میں سوائے اس کے کوئی قدرِ مشترک نہیں کہ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت فی الحال خاندانی سیاست کے گھن چکر سے باہر ہے اور اس وقت دونوں ملکوں میں خاندانی سیاست کے بل پر برسوں حکمران رہنے والی تجربہ کار جماعتوں کو وختا پڑا ہوا ہے۔لیکن بی جے پی اور پی ٹی آئی میں ایسے کئی سیاسی خاندان مل جائیں گے جن کے گھر میں پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی عہدوں سمیت چھ آٹھ دس پندرہ تک ارکان پائے جاتے ہیں ( سوائے جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم کے )۔
دونوں ممالک میں آج بھی ہارنے اور جیتنے والی بیشتر جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں بھائی بھتیجا میں رچی بسی ہیں۔ بھلے وہ تامل ناڈو کی ڈی ایم کے ہو کہ بہار کی راشٹریہ جنتا دل کہ یوپی کے ملائم سنگھ یادو کی بہوجن سماج پارٹی کہ پنجاب کا اکالی دل ، کہ مہاراشٹر کی شیو سینا کہ آندھرا کی تلگو دیشم پارٹی یا اور بہت سی چھوٹی بڑی جماعتیں۔کسی میں بیوی تو کسی میں داماد تو کسی میں بیٹی تو کسی میں ماں چچا ماموں خالو۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ ق ، جے یو آئی ، اے این پی ، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی ، قومی وطن پارٹی ، بی این پی مینگل ، نیشنل پارٹی سے لے کر تانگے پر سوار سیاسی تنظیموں تک پہلے خاندان ، پھر پارٹی ورکر ، پھر ووٹر ، پھر جمہوریت۔
ہارتے چلے جائیں گے مگر خو نہیں بدلیں گے۔یہی حال بنگلہ دیش کا بھی ہے۔عوامی لیگ مجیب خاندان کی لمیٹڈ کمپنی ہے اور بی این پی ضیا خاندان کی لونڈی۔
دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جماعت نہرو خاندان کی '' ددو کی بوتل '' ترک کر کے کب پوری طرح سے سیاست کے کپ میں دودھ پینا سیکھتی ہے۔اگر یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو پھر جنوبی ایشیا کی دیگر خاندان گزیدہ جماعتوں کو بھی کچھ غیرت دلانے کا کام نسبتاً آسان ہو جائے گا۔آج کانگریس جس حال میں ہے اسے دیکھتے ہوئے مولانا ظفر علی خان کے اسی برس پرانے شعر میں جان پڑ گئی ہے۔
کانگریس آ رہی ہے ننگے پاؤں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)