آگ بگولہ ہو گئیں
’’دقیانوسی سوچ‘‘ والے واقعی بہت ہی ’’دقیانوسی سوچ‘‘ والے ہیں بلکہ ’’چھوٹی سوچ‘‘ والے بھی ہوتے ہیں۔
جی ہاں بالکل اور باوثوق ذرایع سے ''آگ بگولہ ہوگئیں'' حالانکہ ''آگ بگولہ'' ہونے کی ضرورت بالکل نہیں تھی کیونکہ ''آگ بگولہ'' پہلے ہی سے کافی ''آگ بگولہ'' بلکہ ناک بگولہ تھی۔ اس ''ناک بگولہ'' آگ بگولہ نے آگ بگولہ ہو کر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں فلموں کی وجہ سے اضافے کو بالکل مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے واقعات کا الزام ''شوبز'' پر لگانا غلط ہے بلکہ اس نے معاشرے میں ''دقیانوسی سوچ'' پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے ''کھری کھری'' بھی سنا دیں۔
اب ہمارے لیے یہ اندازہ لگانا تو ممکن نہیں کہ محترمہ ناک بگولہ۔ کہاں کسی مقام پر اور کتنی آگ بگولہ ہو گئی تھیں اور معاشرے میں ''دقیانوسی سوچ'' والوں کو کتنی کتنی کھری کھری سنائیں لیکن ''دقیانوسی سوچ'' کے بارے میں ان کے ساتھ ہم مکمل طور پر ''متفق'' ہیں۔ ''دقیانوسی سوچ'' والے واقعی بہت ہی ''دقیانوسی سوچ'' والے ہیں بلکہ ''چھوٹی سوچ'' والے بھی ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ''موٹی'' اور کھوٹی سوچ والے بھی ہوتے ہیں اور ہم دونوں کے ساتھ پہلے ہی پڑوسی ملک والے بھی متفق ہیں۔ اس اشتہار کے بارے میں تو ہم نے آپ کو بتایا تھا، کہ ایک نوخیز لڑکی جسم پر ''چارہ گرہ'' کا خوش نصیب کپڑا لے کر والدین کے سامنے دکھانے کو آتی ہے تو ماں جو پہلے ہی سے اپنی ''بچی'' سے بھی دو انگل (لباس میں) کم ہے نہال ہو جاتی ہے لیکن باپ ہماری طرح ''زیر لب'' صرف اس سے کہتا ہے کہ کپڑے کچھ زیادہ چھوٹے نہیں؟۔
اس پر اس کی بیوی ایسی ہی ''آگ بگولہ'' ہو کر پھنکارتی ''چھوٹے کپڑے''۔ نہیں ''سوچ'' چھوٹی ہوتی ہے۔ معاملہ گھمبیر ہو گیا ہے اب اس کا فیصلہ کون کرے کہ ''کونسی سوچ'' کتنی چھوٹی ہے اور کونسا کپڑا چھوٹی سوچ سے بڑا یا چھوٹا ہے۔ معاملہ ناپ تول کا نہ ہوتا تو ہم کچھ بھی کہہ دیتے لیکن ''ناپ تول'' کے معاملے میں ''ناپ تول'' کر ہی بولنا چاہیے۔ کپڑے کا ناپ تول تو آسان ہے، کسی ٹیلر کی خدمات حاصل کر لیں بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ آج کل عام لوگ بھی آنکھوں میں ''انچی ٹیپ'' لیے گھومتے ہیں اور ایک ہی نظر میں آدھے کپڑے اور پورے جسم کو ناپ بھی لیتے ہیں اور ''ماپ'' بھی لیتے ہیں بلکہ کچھ تو ''تاپ'' کر منہ سے بھاپ بھی چھوڑنے لگتے ہیں اور دل ہی دل میں طرح طرح کے ''پاپ'' بھی کر لیتے ہیں۔ ''سوچ'' کا ناپ تول کچھ ٹیڑھا معاملہ ہے اور قوم کو اس پر سر جوڑ کر سارے کام چھوڑ کر اور ایک دوسرے کو ''توڑمروڑ'' غور کرنا چاہیے کہ اگر اس طرح کپڑے اور سوچ کے درمیان ''چھوٹے بڑے'' کا سلسلہ جاری رہا تو کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ معاشرے میں بچیوں کے ساتھ ''زیادتی''کے واقعات واقعی ہو رہے ہیں لیکن اس پر اتنا سیخ پا بلکہ سر تا پا نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ہم انصاف کی نظر سے دیکھیں تو سال بھر میں ایک دو واقعات کچھ زیادہ تشویش ناک ہے بھی نہیں۔ بڑے بڑے ملکوں بڑے بڑے لوگوں میں اور بڑی بڑی سوچوں میں ایسے بڑے بڑے ''پرنسوں'' میں ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ ہم تو اس سے بھی متفق ہیں کہ اس کا ایک اقتصادی پہلو بھی ہے۔ جتنی جتنی سوچ بڑی ہوتی جائے گی اتنا ہی کپڑا کم سے کم ہوتا جائے گا اور ایک دن وہ بھی آ جائے گا کہ کپڑے کا سارا ''خرچہ'' ہی ختم ہو جائے گا اور ''جسم'' خود بھی چھپانے بلکہ دکھانے میں یکسر ''خود کفیل'' ہو جائیں اور اس خود کفالتی کے بارے میں آپ نے کسی دانا کا یہ قول زرین تو سنا ہی ہو گا۔
تن کی عریانی سے بہتر نہیں کوئی لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا
صرف الٹا سیدھا ہی نہیں بلکہ خرچہ بھی نہیں ہوتا ، سینے سلانے کا ٹینٹا بھی نہیں ہوتا، دھونے دلانے کا صرفا بھی نہیں ہوتا اور نئے پرانے کا چرچا بھی نہیں ہوتا۔ بڑی سوچ کی بڑی بچت۔ نہ رہے بانس۔ نہ رہے گی چھوٹی سی سوچ کی چھوٹی بانسری بلکہ ننگی پہنے گی کیا نہائے گی کیا ، دھلوائے گی کیا اور سکھائے گی کیا۔ صرف یہ نہیں بڑی سوچ کے اور بھی بہت بڑے بڑے فوائد ہیں۔ آپ حساب لگاتے جائیں اور ہم بتاتے جائیں گے۔ اس واقعے سے متعلقہ تھانے، پولیس اور متعلقات کو کتنے ''ثمرات'' ملے ہوں گے، مل رہے ہیں اور ملتے رہیں گے۔
خبر نگاروں خبر سازوں خبر بازوں اور خبر درازوں کو کتنا کتنا فائدہ ہوا ہو گا اور آفٹرشاکس یا پس معاوضہ پر کتنے دانا، دانشور، تجزیہ نگار اور اینکر نگار۔ کتنی کتنی اور کتنے کتنے اطراف اور پہلو سے روشنیاں ڈال کر دادا پائیں گے، سیاست کی کتنی چھوٹی بڑی سوئیوں کو پاجامہ ادھیڑنے اور سینے کے مواقعے ملیں گے۔ ان سب کا حساب لگا کر میزان لگایے اور ہم اسے ''بڑی سوچ'' والوں کو بجھوا کر چھوٹی سوچ کی ایسی کی تیسی کر دیں گے۔ رہا محترمہ ''ناک بگولہ'' کا معاشرے کی چھوٹی سوچ پر آگ بگولہ ہونے کا اور چھوٹی سوچ کو کھری کھری سنانے کا معاملہ، تو ہم اس کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے۔
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
اور جہاں تک ایسے واقعات کی جانکاہی، والدین کی تباہی اور لوگوں کی ''آہ و آہی'' کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے رہے ہیں کہ کچھ ہی دنوں تک لوگ گلیسرین ڈال کر ''خون کے آنسو'' روئیں گے، پھر آنکھیں پونچھ کر ایسے کسی دوسرے واقعے دوسری خبر اور دوسری کثیرالفوائد سلسلے کے انتظار میں بیٹھ جائیں گے:
خلش غمزہ خونخوار نہ پوچھ
دیکھ خوننا بہ فشانی میری
اس واقعے کے تانے بانے میں مزے مزے سے جگالی کرنے میں کبھی کبھی اس بدنصیب ''اماں حوا'' اور اس کی بیٹیوں کا آموختہ بھی دہرایا جاتا ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا لطیفہ اور سب سے بڑا المیہ ہے۔ کہ جتنے تواتر سے '' اماں حوا'' کو ماں ماں پکارا جاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ وہ تواتر سے اس کی بیٹیوں کو بے حرمت، بے وقعت اور بے توقیر کیا جاتا ہے۔ اس اس کا المیہ ترین پہلو یہ ہے کہ صرف مردوں کی طرف سے نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرف سے بھی۔ جو چند ٹکوں اور ذرا سی شہرت کے لیے خود ہی ''بڑی سوچ'' پیدا کرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف ''جسم'' کو جنس و نمائش کا سمندر بناتی ہے اور دوسری طرف:
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
یعنی مجھے عین دریا کے بیچ میں تختے سے باندہ کر چھوڑا ہے اور اس پر کہتا ہے کہ خبردار ذرا بھی دامن ترنہ ہو۔ چھوٹی سوچ مردہ باد۔ بڑی سوچ اور چھوٹے کپڑے زندہ باد۔