جھوٹ پرکھڑی عمارت کبھی پائیدار نہیں ہوتی

یہ دنیا کی کسی بھی ریاست کے خلاف ایک انتہائی قدم ہوا کرتا ہے جو کوئی حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔


Dr Mansoor Norani July 10, 2019
[email protected]

جس طرح حضرت علی کے اِس قول کو ہمارے یہاں اکثر استعمال کیا جاتا ہے کہ کفر کی حکومت تو برقرار رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔ اِسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ جھوٹ پر مبنی عمارت بن تو سکتی ہے لیکن وہ کبھی پائیدار نہیں ہو سکتی تو غلط بھی نہیں ہو گا۔ عمران خان نے سیاست کے میدان میں جب قدم رکھا تو وہ صاف ستھری اور مثبت سیاست کے امین ہونے کے دعویدار تھے۔

اُن کے ویژن اور انداز فکر کو دیکھ کر لوگوں نے سمجھا کہ واقعی وہ ایک ایسا نیا فلسفہ اور نظریہ متعارف کروانا چاہتے ہیں جس کی وطن عزیز میں شدت سے ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ وہ پندرہ سولہ سال تک اِسی کو لے کر انتخابی سیاست میں خود کو آزماتے رہے لیکن مسلسل ناکامی نے انھیں ملک کی روایتی سیاست کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا اور انھوں نے مکر و فریب کے تمام ریکارڈز توڑ ڈالے۔ وہ ہر شام اِک نیا جھوٹ تراش کر عوام کو الّو بناتے رہے اور اپنے بارے میں ایسا تاثر پیدا کرتے رہے کہ جیسے وہ واقعی اِس قوم کے مسیحا بن کر آئے ہیں۔

جس طرح جھوٹ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی جھوٹ تواتر اور تسلسل کے ساتھ ہر روز بولاجاتا رہے تو وہ ایک دن شاید سچ معلوم ہونے لگتا ہے۔ عمران خان کے اِسی فلسفہ کو اپنا کر اپنے مخالفوں کے بارے میں تواتر کے ساتھ اتنے جھوٹ بولے کہ عوام اُسے سچ ماننے پر مجبور ہوگئے۔ چار حلقوں سے شروع ہونے والی سیاست نے اردو بازار میں بیلٹ پیپر چھپوانے اور 35 پنکچرز سمیت ایسے لاتعداد جھوٹ تراشے جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا اور جنھیں وہ کسی عدالت یا الیکشن کمیشن میں بھی ثابت نہیں کرسکے۔

اِسی طرح ملک کے دیگر مسائل پر بھی وہ قوم کو ہر روز ایک نیا من گھڑت بیانیہ لے کر نہ صرف بے وقوف بناتے رہے بلکہ سارے ملک کو عدم استحکام اور انارکی جانب دھکیلتے رہے۔ امپائر کی انگلی کے اشارے اور اُس کے انتظار میں وہ ہر روز ایک نئی تاریخ قوم کو دیا کرتے تھے، مگر پھر اِس میں ناکامی میں وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر لوگوں کو پارلیمنٹ اورپرائم منسٹر ہاؤس سمیت پی ٹی وی پر حملے کے لیے بھی راغب کرنے لگے۔

یہ دنیا کی کسی بھی ریاست کے خلاف ایک انتہائی قدم ہوا کرتا ہے جو کوئی حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ خود عمران خان اپنی اپوزیشن کو آج اِس کی اجازت دینے کے روا دار نہیں ہو سکتے لیکن انھوں نے خود اپنے لیے سیاست کے نئے اور منفرد اُصول اورضابطے بنائے رکھے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ کسی کی ایماء اور اشاروں پرکر رہے تھے شاید اِسی لیے اُن کو اِس کی اجازت تھی۔ اِن تمام حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود وہ کامیاب ہوتے نہیں دکھائی دے رہے تھے تو پھر اُن کی مدد کے لیے خفیہ ٹاسک فورس حرکت میں لائی گئی جس نے پاناما کیس کو عدالت کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں پاناما لیکس کی بازگشت اتنی شدت کے ساتھ سنی گئی ورنہ دنیاکے اور بھی بہت سے ملکوں کے با اثر لوگوںکے خلاف بھی کچھ ایسے ہی الزامات لگائے گئے تھے مگر وہاں کسی نے توجہ نہیں دی ۔خود ہمارے یہاں 480 افراد آف شور کمپنیاں بنانے والوں کی فہرست میںشامل تھے لیکن سوائے ایک شخص کے کسی اورسے کوئی پوچھ گچھ تک نہیں کی گئی۔ شروع شروع میں کہا تو یہ گیاتھا کہ ہر ایک کیس کی چھان بین ہوگی مگریہ سارا ہنگامہ نواز شریف سے شروع ہوکر نواز شریف پر ہی ختم کردیا گیا ۔اِسی ایک بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس سارے منصوبے کے پیچھے پوشیدہ محرکات اور عزائم کیا تھے۔

آج کوئی بھی پاناما کیس کے باقی ماندہ ملزموں کی کوئی بات بھی نہیں کرتا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی اور اُس کی دس جلدوں میں سے میاں صاحب کو سزا وار قراد دینے کے لیے اگرکچھ نکلا تو محض ایک اقامہ نکلا۔ میاں صاحب نے باوجود اپنی ناپسندیدگی کے عدلیہ کے احترام میں اِس انتہائی متنازعہ اور غیر منصفانہ فیصلے کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ13جولائی 2018ء کو خود اپنے طور پر لندن سے واپس آکر اپنی اور اپنی بیٹی کی گرفتاری بھی دیدی۔

میاں صاحب کو یقین تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور انھیں ایسے جرم کی سزا دی جا رہی ہے جوانھوں نے کیا ہی نہیں ۔ ہاں اُن کا جرم یہ ضرور تھاکہ وہ جمہوریت کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ اپنے یہاں عرصہ دراز سے قابض اُن قوتوں کے خلاف ڈٹ گئے تھے جو اپنے علاوہ کسی کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ انھیں اسی گناہ اور بغاوت کی سزا دی گئی۔وہ جانتے تھے کہ وہ حق پرہیں اور ایک دن یہ سچ کھل کر سامنے آئے گا۔

انھوں نے قیدوبندکی صعوبتیں بھی شاید اِسی لیے برداشت کیں کہ انھیں اپنے اللہ پرکامل یقین تھا کہ وہ انھیں ایسا لاوارث نہیں چھوڑے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ رفتہ رفتہ حقائق عوام کے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ عزیزیہ ریفرنس میں سزا لکھنے والاجج آج سچ بولنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اُس کے ضمیر نے بھی اُسے جگادیا ہے۔ جوں جوں دن اور وقت آگے بڑھتا جائے گا حق اورسچ سامنے آتا جائے گا۔ ملکی سیاست میں آج تک جتنے بھی ایسے متنازعہ فیصلے تھے سبھی اپنی اہمیت اور افادیت کھوتے رہے۔ جھوٹ چاہے کتنی شدت کے ساتھ بولا جاتا رہے لیکن حقیقت ایک دن عیاں ہوکر ہی رہتی ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ ظلم کی حکومت زیادہ دن نہیں چل سکتی۔کچھ دن تو وہ اپنا زور دکھا سکتی ہے لیکن بالآخر اُسے ختم ہونا ہی پڑتا ہے۔

میاں نواز شریف اور اُن کے وفادار ساتھی آج سچ بولنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ ، حمزہ شریف، حنیف عباسی اور ایسے کئی اور رہنما صرف اسی ایک جرم میں پابند سلاسل کردیے گئے ہیں کہ وہ سچ بولنے سے باز نہیں آتے۔ خواجہ سعد رفیق نے پارلیمنٹ میں خان صاحب سے براہ راست مخاطب ہوکر درست فرمایا ہے کہ '' ہم نہیں چاہتے کہ آپ بھی اسی زیادتی کا شکار ہوں جن سے ہم گزر رہے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی والے بھی گزرچکے ہیں، ایم کیوایم والے بھائی بھی گزر چکے ہیں ۔یہاں کوئی اب تک نہیں بچا۔ ہوسکتا ہے آپ بھی نہیں بچیں گے۔

ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہولیکن یہاں ایسا ہی ہوتاآیا ہے۔ اتنے صاف اور واضح الفاظ میں آج تک کسی نے کسی کوتنبیہ نہیں کی ہوگی۔یہ اب خان صاحب پر منحصر ہے کہ وہ سعد رفیق کی اِن باتوں پر توجہ دیکراپنی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کو چھوڑکر مثبت اور درست سیاست کو اپناتے ہیں یا پھر اقتدار اور طاقت کے نشے میں بدمست ہوکر ہروہ کام کرجاتے ہیں جن کا انجام خود اُن کے لیے اچھا اوربہتر نہ ہو۔ ظلم کی رات طویل نہیں ہوتی ۔اُسے ایک دن ختم ہی ہونا ہوتا ہے۔

تاریخ میں بہت سے ظالم اور فاشسٹ حکمراں آئے لیکن سب کا انجام انتہائی خوفناک اور بھیانک ہی رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی کی حمایت اور مدد کے بل بوتے پر آپ آج ظلم اور بربریت کی انتہا کو چھوجائیں لیکن بہر حال اِس ظلم اور بربریت اِس تاریک رات کو بھی ایک دن ختم ہونا ہی ہے۔ پھر قوم آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اِس کا اندازہ اور احساس فی الحال آپ کو نہیں ہوسکتا۔ دنیاکے ظالم حکمرانوں کی تاریخ اُٹھا کے دیکھ لیجیے وہ کچھ سالوں کے لیے بظاہر وہ بہت مضبوط اورکامیاب حکمراں کے طور پردکھائی دیتے رہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی جانے والی ڈھیل ختم ہوئی تودور دور تک اُن کانام ونشاں نہیں ملا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں