احمد ندیم قاسمی کو مداحوں سے بچھڑے 13برس بیت گئے

احمدندیم قاسمی نے 50 سے زائد یادگار کتابیں لکھیں جن میں کفن دفن، رئیس خانہ، موچی اور سلطان وغیرہ قابل ذکر ہیں

احمد ندیم قاسمی نے ادب کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے فوٹوفائل

اردو کے معروف شاعر ادیب، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی کو مداحوں سے بچھڑے 13برس بیت گئے۔

احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916 کو پنجاب کے ضلع خوشاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ میں پیدا ہوئے۔ ان کااصل نام احمد شاہ جب کہ ندیم ان کا تخلص تھا۔ انہوں نے ادب کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی۔ جن میں شاعری، تنقید، افسانہ نگاری، بچوں کے ادب کے علاوہ انشائیے اور ڈرامے بھی شامل ہیں۔


احمد ندیم قاسمی نے شاعری کی ابتدا1931 میں کی، مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم اس وقت کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ''سیاست'' کے سرورق پر شائع ہوئی، انہوں نے نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل کرلی تھی۔

انہوں نے افسانہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے اس وقت خود کو نمایاں کیا جب بر اعظم پاک وہند میں ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر تھے مگر افسانہ نگاری میں بھی انھوں نے پہاڑوں کی برف، نصیب، لارنس آف تھیلیسیا، بھاڑا، بدنام جیسے افسانے تحریر کیے۔

انہوں نے 50 سے زائد یادگار کتابیں لکھیں جن میں کفن دفن، رئیس خانہ، موچی، خربوزے، ماسی گل بانو، ماں، آتش گل، نیلا پتھر، عاجز بندہ، بے گناہ، سلطان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ادب کی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ 10 جولائی 2006 کو لاہور میں اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔
Load Next Story