احساس کے بغیر زندگی بے معنی ہے
جسم کا ہر عنصر، دوسرے عنصر کے ساتھ مطابقت اور موافقت پیدا کر لیتا ہے۔
بادل برستے ہیں مگر تمام زمین سہراب نہیں ہوتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سرسبز کھیت ہر طرف لہلہاتے ہیں۔ ہریالی کی خوشبو احساس کو طراوت بخشتی ہے۔ محنت کشوں کی آنکھیں خوشحالی کے خواب دیکھتی ہیں۔ مگر سیلاب آ جاتے ہیں اور خواب بکھر جاتے ہیں۔ کبھی گھروں میں اتنی خوشیاں آتی ہیں کہ سنبھالے نہیں سنبھلتیں پھر یکایک وہ گھر ویرانے میں بدل جاتے ہیں۔ انسان کے اپنے اختیار میں نہ وقت ہے اور نہ ہی حالات اس کے خوابوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کائنات کی بنیاد تضاد پر رکھی گئی ہے۔ جہاں چیزوں میں ہم آہنگی ہے، وہاں مخالف سمتیں مختلف زاویوں کی طرف سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ انسان ہم آہنگی چاہتا ہے۔ تعبیر کو کھوجتا ہے۔ وہ زندگی کے سفر میں کچھ بھی کھونا نہیں چاہتا۔ مگر قانون فطرت کا تقاضا کچھ اور ہی ہے۔
جہاں کوئی بھی چیز آسانی سے نہیں ملتی۔ مل کے جب چیزیں چھن جاتی ہیں تو زندگی کی سمجھ اور فہم و فراست اس کسک کو محسوس کر کے آتی ہے۔ پھر انسان کے دل میں جستجو جاگ اٹھتی ہے۔ کھوئی ہوئی چیزیں واپس نہیں ملتیں مگر نعم البدل مل جاتے ہیں۔ درحقیقت زندگی کے یہ تضادات اگر نہ ہوتے تو انسان کے حواس خمسہ بھی صحیح کام نہ کر رہے ہوتے۔ انسان کے وجود میں ایک پوری کائنات بس رہی ہے۔ یہ کائنات دکھ سے آگہی حاصل کرتی ہے۔ ہم زندگی کو حواس خمسہ کے توسط سے دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ تمام تر ذائقے جو ہمیں زندگی کا احساس دلاتے ہیں اور اظہار کی خوبصورتی جسے سننے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ایلکس کیرل اپنی کتاب ''انسان ایک سربستہ راز'' میں لکھتے ہیں ''انسانی اعضاء کو عضوی رطوبتیں اور اعصاب ایک دوسرے سے ملاتے ہیں۔
جسم کا ہر عنصر، دوسرے عنصر کے ساتھ مطابقت اور موافقت پیدا کر لیتا ہے۔ باہمی مطابقت کا یہ فعل ایک خاص غایت، خاص مقصد کے ماتحت ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ہمارے جسم کے سارے خلیے اسی طرح عقل کے مالک ہیں، جس طرح خود انسان ہے تو ہمیں یہ نظر آئے گا کہ سارے حیاتیاتی افعال ایک خاص مقصد کے تحت عمل میں آتے ہیں۔ گویا جسم انسانی کے اندر، تکمیل کا وجود ناقابل انکار بن جاتا ہے۔'' ہمارے جسم کا ہر عضو یہ جانتا ہے کہ سارے جسم کی فوری ضروریات کیا ہیں اور ہمارے جسم کو آیندہ کیسی ضروریات درپیش رہیں گی۔ ہمارا جسم، قریب کی اشیاء اور تقاضوں سے باخبر ہوتا ہے لیکن اسے مستقبل کے تقاضوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔''
لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب ہماری حسیں صحیح کام نہیں کر رہی ہوتیں تو زندگی نہ ختم ہونے والے مسائل کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ آنکھیں جو دیکھتی ہیں اس پیش منظر کا پس منظر نہیں دیکھ سکتیں۔ لہٰذا بصارت محض دیکھنے کا میکانکی عمل کہلاتا ہے، جسے بصیرت میں بدلنے کے لیے باطن کی آنکھ چاہیے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کانوں سے نہیں سنتے کان سے سننے کا عمل غیر جانبدار ہوتا ہے۔ اگر سننے کی حس صحیح کام کرے تو زندگی بدل کر رہ جائے۔ ساری غلط فہمیاں و خوش فہمیاں آبی بخارات کی طرح غائب ہو جائیں اور یہ زندگی حقیقتوں کی روشنی سے منور ہو جائے۔ مغالطے کا بگولہ کان سے سر اٹھاتا ہے اور حقائق گردآلود ہو کر اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اکثر لوگ کان سے نہیں بلکہ ذہن میں محفوظ نظریوں کی اوٹ سے سنتے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے لفظوں کے ہنر کو آواز میں پرونے کا سلیقہ عطا کیا۔ زندگی کا اعلیٰ معیار گفتگو کے فن کا مرہون منت ہے۔ لفظوں کو پرکھنے کا سلیقہ بھی ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔
بعض اوقات آوازیں احساس کے آہنگ سے عاری ہوتی ہیں۔ کسی سیانے کا قول ہے کہ لفظوں کے بادشاہ عملی طور پر فقیر ہوتے ہیں۔ لفظ کو عمل کی تاثیر چاہیے۔ آج موجودہ معاشرے میں جو مسائل کی بھرمار اور افراتفری دکھائی دیتی ہے وہ غیر معیاری گفتگو کا نتیجہ ہے۔ پہلے تو ہم کسی کی پوری بات نہیں سنتے اور ہمارا ڈیفنس مکینزم (دفاعی ردعمل) حرکت میں آ جاتا ہے۔ یہ رویے فرد کو اپنے متعلق تلخ حقائق کا سامنا کرنے سے بچاتے ہیں۔ ایک غیر محفوظ فرد دوسرے لوگوں، گروہ کے بارے میں منفی یا متعصبانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے، خود کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لیے۔ یہ دفاعی رداعمال بعض اوقات مسابقت، طنز اور جارحانہ رویوں کی وجہ سے سماجی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور سماجی طور پر لوگ مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سونگھنے کی حس کے ذریعے ہم ماحول کو محسوس کر سکتے ہیں۔ دریا، سمندر، درختوں، پودوں، پھولوں، سبزے و مٹی کی اپنی ایک الگ مہک ہوتی ہے۔
یہ حس اگر صحیح کام نہیں کرتی تو ذہن کی کارکردگی بھی غیر فعال ہو جاتی ہے۔ اگر ناک سے صحیح سانس نہ لی جائے تو دماغ اور جسم کے خلیوں تک آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ یہ حسیاتی فہم آنکھ، کان، ناک، لمس، ذائقے و خوشبو کے ذریعے باہر کی دنیا سے ہمارا رابطہ مضبوط کرتا ہے۔ بہت سی قوتیں ایسی ہیں جو ہم محسوس نہیں کر سکتے۔ جیسے کائناتی رو جسے Neutrinos کہا جاتا ہے جو ہمارے جسموں اور زمین سے گزرتی ہے۔ اگر انسان حسیاتی طور پر فعال اور متحرک ہے تو وہ روحانی طور پر بھی مضبوط ہو گا۔ منفی رویوں کے حامل افراد کی حسیں صحیح کارکردگی سرانجام نہیں دے پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں روحانی علاج کے طریقے رائج ہیں۔ جس میں میڈیٹیشن (مراقبہ) سرفہرست ہے۔ اس طریقہ کار میں غیر ضروری اور منفی سوچوں سے نجات حاصل کی جاتی ہے کیونکہ منتشر ذہن کئی برائیوں کی جڑ بن جاتا ہے۔ انتشار، تخریبی سوچ کو جنم دیتا ہے۔ جس کے تباہ کن اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو قوت سماعت سے محروم ہو چکی تھیں۔ مجھے یاد ہے اس نے انتہائی اذیت سے کہا تھا کہ ''میرے کان اپنے بچوں کی آوازیں سننے کو ترس گئے ہیں۔ مدت ہوئی میں نے ان کے منہ سے لفظ ''ماں'' نہیں سنا''۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر انسان کے جسم کے تمام اعضاء صحیح کام کرتے ہیں تو دنیا میں اس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی نعمت ہو۔ والدین جیسے خوبصورت نام پکارے جانے سے زندگی کی معنویت و احساس کی دنیا قائم ہے۔ لیکن ایک والد ایسے بھی ہیں جو شدت سے منتظر ہیں کہ کب ان کی بیٹی انھیں ابو کہہ کر پکارے گی۔ مظفر آباد سے محمد آصف لکھتے ہیں۔ ''جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو آنکھوں کے علاوہ کوئی عضو ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔ دو سالوں کی انتھک محنت کے بعد اس کی حالت میں بہتری آئی ہے ماسوائے سماعت کی بحالی کے۔ اس کا علاج ممکن ہے مگر اتنا مہنگا علاج ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ جو بچے سن نہیں سکتے وہ بول بھی نہیں پاتے۔ ایک گہری تڑپ محسوس ہوئی ان الفاظ کے پس منظر میں۔ ایک امید بھی جو کائنات کے وجود میں دل بن کے دھڑکتی ہے۔ ایک یقین جو جو ناممکن کا فاصلہ عبور کر لیتا ہے۔ اور یہ یقین دنیا کے سب سے خوبصورت اور قریبی رشتے کی دین ہے۔ درد مند دل رکھنے والے مخیر لوگ ان سے اس میل اور سیل فون پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
[email protected]
cell: 923326185997
923075567998
بقول شاعر:
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا