اشرافیائی جمہوریت کا منظر نامہ
دیہی علاقوں کے ووٹ وڈیروں، جاگیرداروں ہی کو جاتے ہیں،یوں دیہی علاقوں کے ناخداہاریوں کسانوں سے ووٹ لے کرخدابن جاتے ہیں۔
پاکستان کے عوام 71 سال سے زندگی کے عذابوں سے لڑ رہے ہیں لیکن ان عذابوں سے نجات کا انھیں کوئی راستہ اب تک دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری جمہوریت اور سیاست پر اشرافیہ نے اس مضبوطی سے قبضہ جمایا ہوا ہے کہ اس قبضے سے عوام کو چھڑانے کی کوششیں کرنے والوں کو بھی پسینہ آرہا ہے۔
اس صورتحال کو دیکھ کر ذہن میں فطری طور پر یہ سوال آتا ہے کہ عوام کی تعداد 22 کروڑ ہے اور کہا جاتا ہے کہ اشرافیہ مشکل سے 2فیصد ہے۔ کیا 98 فیصد عوام 2 فیصد اشرافیہ سے مغلوب ہوگئے ہیں؟ایسا نہیں ہے بلکہ عوام کی مغلوبیت کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں سب سے بڑی وجہ عوام کی سیکڑوں خانوں میں تقسیم ہے ۔ اس حوالے سے دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام اس سیاسی اور طبقاتی شعور سے محروم ہیں ، جو مظلوموں کو ظالموں سے لڑنا سکھاتا ہے۔
اس حوالے سے تیسری وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں اور منصوبہ سازوں کو یہ اندازہ اور یقین تھا کہ جلد یا بدیر مظلوم اکثریت اشرافیائی استحصال کے خلاف ڈنڈا اٹھا لے گی۔ سو اس حقیقی خطرے سے بچنے کے لیے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے چارہ سازوں نے آئین قانون اور انصاف کا ایک مربوط اور مضبوط نظام بنایا اور آئین قانون اور انصاف پر عملدرآمد کے لیے ایک مسلح مضبوط اور طاقتور ریاستی مشینری بنائی جو قانون کی خلاف ورزی پر فوری حرکت میں آتی ہے۔یہ ایک مناسب نظام ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لیا جائے، لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ اشرافیہ ہمیشہ قانون سے بالاتر رہی ہے۔ قانون کا اطلاق عموماً غریب طبقات پر ہی ہوتا ہے۔
ہمارے ملک کی بھاری اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور جاگیردارانہ نظام میں دیہی علاقے عملاً جاگیرداروں، وڈیروں کی ملکیت ہوتے ہیں، جہاں علاقے کے پولیس افسرکو ہر روز وڈیروں کو سلام کرنے ان کی کوٹھیوں پر جانا پڑتا ہے جب قانون نافذ کرنے والوں کا یہ حال ہو تو غریب عوام قانون نافذ کرنے والوں کا کس طرح سامنا کرسکتے ہیں۔ اس پر ظلم یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مشکل سے مشکل کام دولت کے زور پر آسانی سے کیا جاتا ہے اور وہ غریب طبقات جنھیں دو وقت کی روٹی مشکل سے حاصل ہوتی ہے وہ مشکلات کا تالہ کھولنے کے لیے دولت کی چابی کہاں سے لاسکتے ہیں؟
جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بعد دنیا کے چالاک ذہنی غلام مفکرین نے سوچا کہ کوئی ایسا نظام لایا جائے جس میں اقتدار پر اشرافیہ کا جابرانہ قبضہ نہ ہو بلکہ عوام کی مرضی سے حکمران منتخب ہوں۔ یعنی ''ووٹ کی پرچی سے'' ووٹ کی پرچی کا جادو ترقی یافتہ ملکوں میں اتنا موثر نہیں جتنا پسماندہ ملکوں میں ہے۔ ہم نے اس حقیقت کی نشان دہی کردی ہے کہ ہماری آبادی کا اکثریتی حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے ، جہاں وڈیرہ ہی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ سو دیہی علاقوں کے ووٹ وڈیروں، جاگیرداروں ہی کو جاتے ہیں، یوں دیہی علاقوں کے ناخدا ہاریوں کسانوں سے ووٹ لے کر خدا بن جاتے ہیں۔ کوئی پرندہ ان کے حکم کے بغیر پَر نہیں مار سکتا۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کا چرچا زمینوں اور اشرافیہ کے آسمانوں میں ہے۔ شہری علاقوں میں اس بد بخت اشرافیہ نے عوام کو تقسیم بھی کر رکھا ہے اور اپنے دلالوں کے ذریعے ووٹ خرید کر اشرافیہ کے زعما کو قانون ساز اداروں میں پہنچا دیتی ہے۔
سرمایہ داروں کی لوٹ مار کا سب سے بڑا ذریعہ جمہوریت ہے ، بالادست طبقات نے جمہوری نظام کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے خواہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، اپنے سینے میں عوام کا درد رکھتے ہوں ، جمہوریت سے درست طریقے سے عملدرآمد کی کتنی ہی اہلیت رکھتے ہوں ،کبھی قانون ساز اداروں میں نہیں پہنچ سکتے کیونکہ اشرافیہ نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جو نظام بنایا ہے اس میں وہی شخص انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے جو کروڑوں اربوں کا مالک ہو۔ صدیوں سے جمہوریت کی پیٹھ پر سواری کرنے والے آج کل بہت پریشان ہیں کیونکہ عوام بیدار ہو رہے ہیں افریقہ جیسے پسماندہ براعظم میں عوام اپنے حقوق اور اشرافیائی مخلوق کے خلاف ڈنڈا اٹھا رہے ہیں۔
اب تک اشرافیائی نظریہ سازوں نے عوام کو جمہوریت اور آمریت کے کھیل میں الجھا رکھا تھا ، بے چارے عوام حیران رہ جاتے تھے کہ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت اشرافیہ ہر حکومت کا حصہ ہوتی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے چیمپئن جب چاہتے جمہوریت کی ٹوپی پہن لیتے جب چاہتے آمریت کے بوٹ ان کے پاؤں میں ہوتے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت اشرافیہ اقتدار کا حصہ ضرور رہتی رہی ہے۔ جمہوریت کے لیے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے والی اشرافیہ کا دوغلا پن مارشل لاء حکومتوں میں عوام کے سامنے آتا رہا ہے، جنرل (ر) ایوب خان کو ''یہ اعزاز'' حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کو حلال کرنے والے پہلے آمر ہیں۔ ایوب کی آمریت کے خلاف دھیمے سروں میں احتجاج کرنے والی اشرافیہ بہت جلد ایوب حکومت کا حصہ بن گئی۔ یہی حال ضیا الحق کی حکومت کا رہا ہے۔ ضیا الحق کہا کرتے تھے کہ جب میں آواز دوں جمہوریت کے پاسبان دم ہلاتے ہوئے آجائیں گے اور ہوا وہی۔
ضیا الحق کے بعد جب جنرل (ر) مشرف اقتدار میں آئے تو آمریت کے خلاف اونچی آواز میں نعرے لگانے اور لگوانے والی اشرافیہ پرویز مشرف کی حکومت کا حصہ بن گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اشرافیہ جمہوریت کی اتنی بڑی قدردان کیوں ہے؟ اشرافیہ نے جمہوریت کو وہ سیڑھی بنادیا ہے جس پر چڑھ کر وہ اربوں کھربوں کی دولت تک رسائی حاصل کرلیتی ہے اور اس دولت سے ملک کے اندر، بیرون ملک کروڑوں ڈالر کی جائیدادیں خریدتی ہے۔ عوام بے چارے حیرت سے جمہوریت کے اس کھیل کو دیکھتے رہتے ہیں۔
71 سالوں میں پہلی بار اشرافیہ کا اونٹ احتساب کے پہاڑوں کے درمیان آیا ہے اور بری طرح بلبلا رہا ہے۔ محترم اشرافیہ جس کا منہ جمہوریت زندہ باد کے نعروں سے سوکھ جاتا ہے اس جمہوریت کی کمائی اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات میں جیلوں میں آرام کر رہی ہے۔ جو لوگ حقیقی معنوں میں جمہوریت کے لیے لڑتے رہے ہیں وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی مفلس و قلاش ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے پھیلائے ہوئے اس فسوں سے عوام متعارف بھی ہو رہے ہیں اور حیران بھی ہیں۔ حقیقی عوامی جمہوریت کے پاسبانوں کو اب آگے آنا چاہیے اور عوام کو بتانا چاہیے کہ 71 سال سے جمہوریت کے نام پر اربوں کی لوٹ مار کرنے والوں کا ایک نہ ایک دن یہی انجام ہوتا ہے۔ بلکہ شاید اس سے برا انجام ہوتا ہے ، بے چارے اس ملک کے 22 کروڑ عوام اس تماشے سے حیران بھی ہیں اور پریشان بھی کہ اگلا منظرکیا ہوگا؟