وقت کیا چیز ہے
کائناتی حوالے سے دو ایسے عمل ہیں جن کو مخالف سمت میں نہیں لایا جاسکتا۔
ہم وقت کی سمت کو بدل ڈالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم توکہتے ہیں کہ وقت بہہ رہا ہے۔ جوں جوں وقت بہتا رہتا ہے یہ بہت سی چیزوں، واقعات اور باتوں کو ایک ناقابل واپسی ماضی کے سپرد کرکے حال کی وادی سے گزرتا ہے اور ابھی گزرنے نہیں پاتا کہ ایک نامعلوم مستقبل کی طرف بڑھ جاتا ہے۔کتنی پراسرار حقیقت ہے یہ وقت جوکسی کے لیے بھی رک نہیں سکتا۔
عام آدمی کے لیے وقت کی پراسراریت واقعی ہوش ربا ہے لیکن ایک طبیعات دان کے لیے یہ سوال زیادہ مبہم نہیں کہ ''وقت کیا ہے؟'' بقول ڈیوڈ لیزرکے (جو ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ فلکیات دان ہیں) آئن اسٹائن نے واضح طور پر اس سوال کا جواب یوں دیا تھا کہ:
وقت اس پیمائش سے بڑھ کر اورکچھ بھی نہیں جو گھڑی کی مدد سے کی جائے۔
آئن اسٹائن کی اس تعریف کوکافی سمجھا جائے یا نہیں یہ الگ سوال ہے تاریخی طور پر 1920ء کی دہائی سے طبیعات دانوں اور کونیات دانوں نے ایک اس سے بھی نازک اور مشکل سوال پوچھنا شروع کردیا تھا اور وہ یہ تھا کہ:
کیا طبعی دنیا میں ایسے یک سمتی واقعات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہم وقت کو یک سمتی سمجھتے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ وقت کا تیر ہمیشہ ایک ہی سمت میں سفرکرتا رہتا ہے۔ جب کسی ساکت تالاب میں پتھر پھینکا جائے تو پتھر گرنے کے مقام سے پرے کی طرف موجیں پیدا ہوکر کناروں تک جاتی ہیں۔ اگر اس منظر کی فلم بنائی جائے اور فلم کو الٹا چلادیا جائے تو پھیلی ہوئی موجیں مرکزکی طرف واپس آئیں گی اور وہاں مجتمع ہوں گی۔ ہم اس منظر کو دیکھ کر فوراً سمجھ جائیں گے کہ ہم نے اصل منظر نہیں دیکھا بلکہ اصل منظرکی فلم کو الٹی سمت چلا دیا گیا ہے۔
عام مشاہدے کے خلاف باتیں انسان فوراً محسوس کر لیتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ طبعی قوانین بھی ان کے مخالف ہی ہوں۔ مثال کے طور پر تالاب کی موجیں اگرکناروں سے مرکزکی طرف آئیں (الٹی فلم چلانے پر) تو یہ بھی کوئی ایسا منظر نہیں جو طبیعاتی قوانین کے لحاظ سے ناممکن ہو۔ یہ عین ممکن ہے کہ ساکت تالاب کے پانی میں ایسی حرکت بھی پیدا ہوسکے۔
مثال کے طور پر پانی کے مالیکیول ایک خاص فریکوئنسی سے حرکت میں لائے جائیں تو انھیں کناروں سے مرکز کی طرف حرکت دی جاسکتی ہے۔ اس منظر کو ناقابل یقین تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ناقابل امکان نہیں۔ اور ''وقت کے تیر'' کی سمت اس لحاظ سے طبعی قوانین پر نہیں بلکہ کسی بھی واقعہ یا عمل کی ابتدائی کیفیات پر منحصر ہے۔
نظر آنے والی روشنی اور مقناطیسی اشعاع کی دوسری اقسام بھی ویسے ہی نتائج پیدا کرتی ہیں جیسے تالاب میں گرنے والا پتھر۔ ہماری مراد یہ ہے کہ ان کا پھیلاؤ ایک مرکزی نقطے سے شروع ہوتا ہے (مثال کے طور پر روشنی کا بلب) اس بات کی وضاحت کہ ہم روشنی کی موجوں کا انتشار ہی کیوں مشاہدہ کرتے ہیں اور ارتکاز کی طرف ہماری توجہ کیوں مبذول نہیں ہوتی۔ وہی ہے جو پانی کی موجوں کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے یعنی وہ ابتدائی کیفیات جو مخالف منظر پیدا کرسکتی ہیں غیر امکانی ہیں۔
اس وضاحت کو اور زیادہ تفصیل، باریکی اور پیچیدگی سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمن اور جون وہیلر (ٹیکساس یونیورسٹی) نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ جس طرح منتشر ہوتی ہوئی موجیں موجود ہیں اسی طرح مرتکز ہوتی ہوئی موجیں بھی وجود رکھتی ہیں۔لیکن اس سے قبل کہ ہم ان کا مشاہدہ کرسکیں وہ ایک اندرونی میکائیت کے تحت ایک دوسرے کی تنسیخ کرکے غائب ہوجاتی ہیں۔ یہی کیفیت اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب پانی کی ایک موج کا فراز اور دوسری موج کا نشیب مل جائیں۔ اسے اصطلاحی لحاظ سے تخریبی تداخل کہا جاتا ہے۔
کائناتی حوالے سے دو ایسے عمل ہیں جن کو مخالف سمت میں نہیں لایا جاسکتا اور وہ جس سمت میں جاری ہیں ہمیشہ اسی سمت میں جاری رہیں گے۔ ان میں سے پہلا تو کائنات کا پھیلاؤ ہے۔ مجموعی طور پر تمام کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ اس کے باوجود طبیعاتی قوانین کہیں بھی اس امرکو خارج نہیں کرتے کہ کبھی یہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جانے کے بجائے قریب آنے لگیں۔ بہر حال موجودہ صورتحال تو پیچھے ہٹنے کی یہ سمت ''وقت کے تیر'' کی سمت متعین کرتی ہے۔ (سائنس فنکشن کے لیے بہرحال یہ موقع ہے کہ وہ منتشر ہونے کی بجائے مرتکز ہوتی ہوئی کائنات میں وقت کے الٹے بہاؤ پر افسانے تراشے)۔
کائنات کا وہ دوسرا عمل جو مخالف سمت میں انجام نہیں پا سکتا، ناکارہ (Entropy) یا دنیا میں بڑھتے ہوئے انتشار کا عمل ہے۔ حرکیات کے دوسرے قانون کا کہنا ہے کہ حرارت ہمیشہ ایک تسلسل کے ساتھ گرم حصے سے ٹھنڈے حصے کو منتقل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں یقینا دنیا کی سابقہ ترتیب متاثر ہوکر ایک نئی بے ترتیبی میں بدل جاتی ہے۔
مارٹن گارڈنر نے بڑھتی ہوئی ناکارگی کے عمل کو ویسا ہی قرار دیا ہے جیسا تاش کے پتے پھینٹنے کا عمل ہوتا ہے۔ اس نے پہلے تو پتوں کو زیادہ سے زیادہ ترتیب میں رکھا۔ پھر ان کو اپنی اپنی نشانیوں کے تحت الگ الگ حصے دیے۔ یہ حصے بھی بالترتیب تھے اور ہر حصے میں اعداد کو ان کی ترتیب کے مطابق رکھا گیا۔ اب جتنی مرتبہ ان کو پھینٹا گیا ہر بار بے ترتیبی بڑھ جائے گی۔ یہی کیفیت کائنات میں توانائی کے پھینٹے جانے کی ہے، اس لیے مسلسل بے ترتیبی بڑھے گی اور اس عمل کو الٹا کرکے ترتیب پیدا کرنا ناممکن نہیں۔
وقت کے معمے کو حل کرنے کے لیے ایک بار یہ خیال بھی سامنے لایا گیا تھا کہ وہ طبیعاتی قوانین جن کا تعلق ایٹم کے ذیلی ذرات سے ہے وقت کی کسی ایک سمت کو دوسری پر ترجیح نہیں دیتے، گویا ان ذرات کی ایک الٹی فلم چل سکتی ہے اور ایک ایسے واقعے کو ظاہر کرسکتی ہے جو طبعی طور پر واقع ہوسکتا ہے۔
1964ء میں ایک ایسا سمتی تعامل مشاہدے میں آیا جس کا تعلق ایک مختصر قیام پذیر ذرے ''کاؤن'' کی قائیت سے تھا۔ اب پچھلے 20 برس سے طبیعات دان اس کوشش میں مصروف ہیں (بغیر کسی کامیابی کے) کہ ذیلی ایٹمی ذرات کے حوالے سے وقت کی ''بے سمتی'' سے انحراف کا جواز تلاش کریں۔ ان میں سے کوئی یہ نہیں بتا پا رہا کہ اس مشاہدے کی تشریح و توضیح کیونکر کی جائے۔ آیا یہ ایک اتفاقی امر ہے یا اس بات کا اشارہ کہ ایک سمتی پر ہمارا اعتقاد نظرثانی کا محتاج ہے؟
ایک اور اہم سوال اسی ضمن میں یہ بھی ہے کہ وقت کے مختلف تیروں میں باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا کوئی ایسا پوشیدہ قانون موجود ہے جو وقت کے پانچ تیروں پر بیک وقت لاگو ہوتا ہے۔ یعنی اس نفسیاتی تاثر پرکہ وقت بہتا ہے، تالاب میں پتھر گرنے پر موجی انتشار، بلب سے آتی روشنی کا انتشار، کائنات میں کہکشاؤں کی دوری اور ''کاؤن'' میں عجب فنائیت کا مظاہرہ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تیر، باقی سب کو حسب سابق رکھ کر، الٹی سمت میں چھوڑا جاسکے؟ جب تک طبیعات دان ایسے سوالوں کے ٹھوس جواب نہ لے آئیں۔ سائنسی افسانہ نگار اپنے تخیلات پیش کرتے رہیں گے۔
عام آدمی کے لیے وقت کی پراسراریت واقعی ہوش ربا ہے لیکن ایک طبیعات دان کے لیے یہ سوال زیادہ مبہم نہیں کہ ''وقت کیا ہے؟'' بقول ڈیوڈ لیزرکے (جو ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ فلکیات دان ہیں) آئن اسٹائن نے واضح طور پر اس سوال کا جواب یوں دیا تھا کہ:
وقت اس پیمائش سے بڑھ کر اورکچھ بھی نہیں جو گھڑی کی مدد سے کی جائے۔
آئن اسٹائن کی اس تعریف کوکافی سمجھا جائے یا نہیں یہ الگ سوال ہے تاریخی طور پر 1920ء کی دہائی سے طبیعات دانوں اور کونیات دانوں نے ایک اس سے بھی نازک اور مشکل سوال پوچھنا شروع کردیا تھا اور وہ یہ تھا کہ:
کیا طبعی دنیا میں ایسے یک سمتی واقعات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہم وقت کو یک سمتی سمجھتے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ وقت کا تیر ہمیشہ ایک ہی سمت میں سفرکرتا رہتا ہے۔ جب کسی ساکت تالاب میں پتھر پھینکا جائے تو پتھر گرنے کے مقام سے پرے کی طرف موجیں پیدا ہوکر کناروں تک جاتی ہیں۔ اگر اس منظر کی فلم بنائی جائے اور فلم کو الٹا چلادیا جائے تو پھیلی ہوئی موجیں مرکزکی طرف واپس آئیں گی اور وہاں مجتمع ہوں گی۔ ہم اس منظر کو دیکھ کر فوراً سمجھ جائیں گے کہ ہم نے اصل منظر نہیں دیکھا بلکہ اصل منظرکی فلم کو الٹی سمت چلا دیا گیا ہے۔
عام مشاہدے کے خلاف باتیں انسان فوراً محسوس کر لیتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ طبعی قوانین بھی ان کے مخالف ہی ہوں۔ مثال کے طور پر تالاب کی موجیں اگرکناروں سے مرکزکی طرف آئیں (الٹی فلم چلانے پر) تو یہ بھی کوئی ایسا منظر نہیں جو طبیعاتی قوانین کے لحاظ سے ناممکن ہو۔ یہ عین ممکن ہے کہ ساکت تالاب کے پانی میں ایسی حرکت بھی پیدا ہوسکے۔
مثال کے طور پر پانی کے مالیکیول ایک خاص فریکوئنسی سے حرکت میں لائے جائیں تو انھیں کناروں سے مرکز کی طرف حرکت دی جاسکتی ہے۔ اس منظر کو ناقابل یقین تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ناقابل امکان نہیں۔ اور ''وقت کے تیر'' کی سمت اس لحاظ سے طبعی قوانین پر نہیں بلکہ کسی بھی واقعہ یا عمل کی ابتدائی کیفیات پر منحصر ہے۔
نظر آنے والی روشنی اور مقناطیسی اشعاع کی دوسری اقسام بھی ویسے ہی نتائج پیدا کرتی ہیں جیسے تالاب میں گرنے والا پتھر۔ ہماری مراد یہ ہے کہ ان کا پھیلاؤ ایک مرکزی نقطے سے شروع ہوتا ہے (مثال کے طور پر روشنی کا بلب) اس بات کی وضاحت کہ ہم روشنی کی موجوں کا انتشار ہی کیوں مشاہدہ کرتے ہیں اور ارتکاز کی طرف ہماری توجہ کیوں مبذول نہیں ہوتی۔ وہی ہے جو پانی کی موجوں کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے یعنی وہ ابتدائی کیفیات جو مخالف منظر پیدا کرسکتی ہیں غیر امکانی ہیں۔
اس وضاحت کو اور زیادہ تفصیل، باریکی اور پیچیدگی سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمن اور جون وہیلر (ٹیکساس یونیورسٹی) نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ جس طرح منتشر ہوتی ہوئی موجیں موجود ہیں اسی طرح مرتکز ہوتی ہوئی موجیں بھی وجود رکھتی ہیں۔لیکن اس سے قبل کہ ہم ان کا مشاہدہ کرسکیں وہ ایک اندرونی میکائیت کے تحت ایک دوسرے کی تنسیخ کرکے غائب ہوجاتی ہیں۔ یہی کیفیت اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب پانی کی ایک موج کا فراز اور دوسری موج کا نشیب مل جائیں۔ اسے اصطلاحی لحاظ سے تخریبی تداخل کہا جاتا ہے۔
کائناتی حوالے سے دو ایسے عمل ہیں جن کو مخالف سمت میں نہیں لایا جاسکتا اور وہ جس سمت میں جاری ہیں ہمیشہ اسی سمت میں جاری رہیں گے۔ ان میں سے پہلا تو کائنات کا پھیلاؤ ہے۔ مجموعی طور پر تمام کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ اس کے باوجود طبیعاتی قوانین کہیں بھی اس امرکو خارج نہیں کرتے کہ کبھی یہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جانے کے بجائے قریب آنے لگیں۔ بہر حال موجودہ صورتحال تو پیچھے ہٹنے کی یہ سمت ''وقت کے تیر'' کی سمت متعین کرتی ہے۔ (سائنس فنکشن کے لیے بہرحال یہ موقع ہے کہ وہ منتشر ہونے کی بجائے مرتکز ہوتی ہوئی کائنات میں وقت کے الٹے بہاؤ پر افسانے تراشے)۔
کائنات کا وہ دوسرا عمل جو مخالف سمت میں انجام نہیں پا سکتا، ناکارہ (Entropy) یا دنیا میں بڑھتے ہوئے انتشار کا عمل ہے۔ حرکیات کے دوسرے قانون کا کہنا ہے کہ حرارت ہمیشہ ایک تسلسل کے ساتھ گرم حصے سے ٹھنڈے حصے کو منتقل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں یقینا دنیا کی سابقہ ترتیب متاثر ہوکر ایک نئی بے ترتیبی میں بدل جاتی ہے۔
مارٹن گارڈنر نے بڑھتی ہوئی ناکارگی کے عمل کو ویسا ہی قرار دیا ہے جیسا تاش کے پتے پھینٹنے کا عمل ہوتا ہے۔ اس نے پہلے تو پتوں کو زیادہ سے زیادہ ترتیب میں رکھا۔ پھر ان کو اپنی اپنی نشانیوں کے تحت الگ الگ حصے دیے۔ یہ حصے بھی بالترتیب تھے اور ہر حصے میں اعداد کو ان کی ترتیب کے مطابق رکھا گیا۔ اب جتنی مرتبہ ان کو پھینٹا گیا ہر بار بے ترتیبی بڑھ جائے گی۔ یہی کیفیت کائنات میں توانائی کے پھینٹے جانے کی ہے، اس لیے مسلسل بے ترتیبی بڑھے گی اور اس عمل کو الٹا کرکے ترتیب پیدا کرنا ناممکن نہیں۔
وقت کے معمے کو حل کرنے کے لیے ایک بار یہ خیال بھی سامنے لایا گیا تھا کہ وہ طبیعاتی قوانین جن کا تعلق ایٹم کے ذیلی ذرات سے ہے وقت کی کسی ایک سمت کو دوسری پر ترجیح نہیں دیتے، گویا ان ذرات کی ایک الٹی فلم چل سکتی ہے اور ایک ایسے واقعے کو ظاہر کرسکتی ہے جو طبعی طور پر واقع ہوسکتا ہے۔
1964ء میں ایک ایسا سمتی تعامل مشاہدے میں آیا جس کا تعلق ایک مختصر قیام پذیر ذرے ''کاؤن'' کی قائیت سے تھا۔ اب پچھلے 20 برس سے طبیعات دان اس کوشش میں مصروف ہیں (بغیر کسی کامیابی کے) کہ ذیلی ایٹمی ذرات کے حوالے سے وقت کی ''بے سمتی'' سے انحراف کا جواز تلاش کریں۔ ان میں سے کوئی یہ نہیں بتا پا رہا کہ اس مشاہدے کی تشریح و توضیح کیونکر کی جائے۔ آیا یہ ایک اتفاقی امر ہے یا اس بات کا اشارہ کہ ایک سمتی پر ہمارا اعتقاد نظرثانی کا محتاج ہے؟
ایک اور اہم سوال اسی ضمن میں یہ بھی ہے کہ وقت کے مختلف تیروں میں باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا کوئی ایسا پوشیدہ قانون موجود ہے جو وقت کے پانچ تیروں پر بیک وقت لاگو ہوتا ہے۔ یعنی اس نفسیاتی تاثر پرکہ وقت بہتا ہے، تالاب میں پتھر گرنے پر موجی انتشار، بلب سے آتی روشنی کا انتشار، کائنات میں کہکشاؤں کی دوری اور ''کاؤن'' میں عجب فنائیت کا مظاہرہ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تیر، باقی سب کو حسب سابق رکھ کر، الٹی سمت میں چھوڑا جاسکے؟ جب تک طبیعات دان ایسے سوالوں کے ٹھوس جواب نہ لے آئیں۔ سائنسی افسانہ نگار اپنے تخیلات پیش کرتے رہیں گے۔