ش ع کی یاد میں
شفیع عقیل صاحب نے تمام زندگی صحافت کے میدان میں گزاری اور سرخروئی کا یہ سفر آخری سانس تک جاری رہا۔
یہ 1963 کی بات ہے۔ میں اس وقت مسلم ماڈل ہائی اسکول لاہور میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ گھر کا ماحول ادبی تھا۔ والد صاحب صوفی عنایت اللہ اور دو بڑے بھائی مشتاق مبارک اور حبیب جالبؔ شاعر تھے سو مجھ میں بھی کچھ ادبی رنگ موجود تھا۔ ایسے میں بچوں کے مشہور رسالے ''بھائی جان'' کے مدیر کے بارے میں مضمون لکھنے کے مقابلے کا اعلان کیا گیا۔ اعلان میں بچوں سے کہا گیا تھا کہ آپ نے بھائی جان (رسالے کے مدیر بھائی جان کہلاتے تھے) کو نہیں دیکھا۔ آپ ان سے کبھی نہیں ملے تو آپ بتائیں کہ آپ کے خیال کے مطابق بھائی جان کیسے ہوں گے۔ صاف ظاہر ہے میں بھی رسالے بھائی جان کے مدیر سے نہ کبھی ملا تھا نہ ان کے بارے میں کچھ جانتا تھا، سوائے اس بات کہ کہ وہ رسالہ بھائی جان کے مدیر ہیں۔ خیر میں نے بھی اس مقابلے میں شامل ہونے کا ارادہ کرلیا اور مضمون بھی لکھ کر مطلوبہ پتے پر بذریعہ ڈاک روانہ کر دیا اور مقابلے کے فیصلے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دن بعد میرا لکھا ہوا مضمون نہ صرف رسالے میں شایع ہوا بلکہ اسے اول انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے نام پانچ روپے کا منی آرڈر بھی آیا تھا۔
یہ تھے بچوں کے رسالے بھائی جان کے مدیر سب کے بھائی جان شفیع عقیل جو چھ ستمبر 2013کے دن انتقال کر گئے۔ شفیع عقیل صاحب 83 سال دنیا میں رہے اور وہ کام، کام اور بس کام ہی کرتے رہے۔ افسانے لکھے، سفرنامے لکھے، اردو اور پنجابی زبانوں میں شاعری کی۔ پنجابی ادب کے لیے بہت اہم اور اعلیٰ کتابیں ترتیب دیں۔ اپنے دور کے اہم لکھنے والوں سے بچوں کے لیے نظمیں اور مضامین لکھوائے۔ شفیع عقیل یوں بھی خوش قسمت نکلے کہ ان کو نامور قلم کاروں کا سنہرا دور نصیب ہوا بلکہ دیگر فنون کے بھی بہت اہم اور مشہور لوگ شفیع عقیل کے عہد میں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ کس کس کا نام لکھوں۔ مولانا چراغ حسن حسرت، مجید لاہوری، مصور احمد پرویز، علی امام، براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری، ابوالاثر حفیظ جالندھری، ابراہیم جلیس، صادقین، احمد راہی، بشیر مرزا (بی ایم) فیض احمد فیض، ظہور الحسن ڈار (کالم نگار) بس یہ چند نام لکھ رہا ہوں۔ ورنہ ایسے ہی نامور شاعر ادیب، مصور، کالم نگاروں کی فہرست بہت طویل ہے۔
شفیع عقیل صاحب نے تمام زندگی صحافت کے میدان میں گزاری اور سرخروئی کا یہ سفر آخری سانس تک جاری رہا۔ شفیع عقیل صاحب میری پہلی تحریر کا محرک تھے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں، کراچی آ کر ان سے باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ قائم ہوا تو میں نے ان کو بڑا مشفق، مگر اپنے طے شدہ اصولوں پر سخت گیر پایا۔ (کامیاب انسانوں میں ایسے ہی اوصاف ہوا کرتے ہیں)۔ وہ ہر اعتبار سے میرے لیے قابل احترام تھے۔ اس کے باوجود کبھی کبھی وہ خود بھی مجھے فون کر لیا کرتے تھے اور ٹھیٹ پنجابی میںیوں گویا ہوتے ''اوئے سعید! کی حال اے تیرا؟ بڑے دن ہو گئے چکر نئیں لایا''۔ اور میں اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ اپنے ''بھائی جان'' کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔ چند سال میں نے بھائی جان کی بطور انکم ٹیکس وکیل بھی خدمت کی ہے۔ ان کا انکم ٹیکس اخبار والے کاٹ کر حکومتی خزانے میں جمع کروا دیتے تھے اور ٹیکس کا چالان معہ سرٹیفکیٹ شفیع عقیل صاحب کو دے دیتے تھے۔ پھر میں ٹیکس چالان اور سرٹیفکیٹ کے مطابق انکم ٹیکس کا گوشوارہ (Return of Income) بھر کے شفیع عقیل صاحب کے دستخط کے ساتھ محکمہ انکم ٹیکس میں جمع کروا دیتا تھا۔ اخبار سے باقاعدہ ریٹائرمنٹ تک وکیل اور مدعی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔
اب دو اہم اور تاریخی واقعات کا ذکر بھی سن لیجیے۔ یہ کوئی دس بارہ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ شفیع عقیل صاحب کا فون آیا۔ وہ کہہ رہے تھے ''یار سعید! میں رسالہ ''بھائی جان'' سے اہم قلم کاروں کی بچوں کے لیے فرمائشی تحریریں منتخب کر رہا ہوں اور مجھے حبیب جالب کی ایک نظم بعنوان ''ایٹم بم'' نظر آئی ہے اور میرے خیال میں جالب کی یہ نظم اس کے کسی بھی مجموعے میں شامل نہیں ہے تو تم آ جاؤ اور یہ نظم لے جاؤ''۔ یہ اہم پیغام سن کر میں فوراً شفیع عقیل صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انھوں نے مجھے بچوں کا رسالہ ''بھائی جان'' دکھایا جس کے ایک صفحے پر نظم ''ایٹم بم'' اس اہتمام سے چھپی ہوئی تھی کہ نظم کے اوپر ایٹم بم کی تباہی و بربادی پھیلانے والے آگ اور دھوئیں کے آسمان کی طرف بلند ہوتے شعلوں کو دکھایا گیا تھا۔ یہ نظم رسالہ بھائی جان کے شمارے اکتوبر 1952میں شایع ہوئی تھی۔
واقعی یہ تاریخی نظم جالب صاحب کے کسی بھی مجموعے میں شامل نہیں تھی۔ میں نے شفیع عقیل صاحب سے کہا کہ اس صفحے کی فوٹو کاپی مجھے دے دیں۔ اس پر وہ بولے کہ میں کاپی کروا کے تمہیں بھجوا دوں گا۔ دو روز بعد شفیع عقیل صاحب کی طرف سے فوٹو کاپی صفحہ ملا۔ جس کے نچلے حصے میں انھوں نے لکھا تھا ''برادرم سعید پرویز! تم آج کل حبیب جالب مرحوم کی تحریریں اور منظومات جمع کر رہے ہو، اس سلسلے میں ایک نظم ارسال ہے۔ یہ نظم آج سے ٹھیک پینتالیس برس قبل میں نے جالب سے لکھوائی تھی، جب وہ اخبار میں ملازم تھے۔ ان دنوں اخبار کی طرف سے بچوں کا ماہنامہ ''بھائی جان'' شایع ہوتا تھا جس کا میں مدیر تھا۔ میں تمام مشہور ادیبوں، شاعروں سے کچھ نہ کچھ لکھوا لیا کرتا تھا اور حبیب جالب سے بھی یہ نظم لکھوائی تھی جو اکتوبر 1952کے شمارے میں شایع ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ نظم جالب کے کسی مجموعے میں ہے یا نہیں، اس بات کی تصدیق تم خود کر لو۔ شفیع عقیل 10-09-97، کراچی''۔
بعدازاں یہ نظم شفیع عقیل صاحب کی تحریر، میں نے جالب صاحب کے مجموعے ''جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے'' مطبوعہ فروری 2000میں شامل کر دی، جہاں سے یہ نظم معروف صحافی ضمیر نیازی مرحوم نے اپنی کتاب ''زمین کا نوحہ میں شامل کی۔ کہتے ہیں ایٹم بم پر اردو کی یہ پہلی نظم ہے بہرحال یہ تحقیق طلب کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ مرحوم شفیع عقیل کے توسط سے سامنے آنے والی یہ نظم قارئین بھی پڑھیں۔ بچوں کے لیے جالب کی نظم ایٹم بم ملاحظہ ہو۔
امن کا دشمن جان کا دشمن
دھرتی اور دہقان کا دشمن
کھیت کا اور کھلیان کا دشمن
پیارے پاکستان کا دشمن
ایٹم بم انسان کا دشمن
بچوں اور ماؤں کا بیری
پیڑوں کی چھاؤں کا بیری
سندر آشاؤں کا بیری
ہر دل کے ارمان کا دشمن
ایٹم بم انسان کا دشمن
جب یہ کبھی غصے میں آئے
مندر' مسجد سب کو ڈھائے
دریاؤں میں آگ لگائے
دھرم کا اور ایمان کا دشمن
ایٹم بم انسان کا دشمن
اسی طرح ایک بار انھوں نے مجھے بلا کر وہ یادگار رنگین تصویر دی، جس میں حبیب جالب صاحب کو ''حسرت موہانی ایوارڈ'' دیا جا رہا ہے۔ دہلی میں انڈوپاک مشاعرے کے موقعے پر منتظم مشاعرہ علی صدیقی نے یہ ایوارڈ موسیقار اعظم نوشاد علی کے ہاتھوں، حبیب جالب کو 1988 میں دیا تھا۔ حق مغفرت کرے، اب ایسے منصف مزاج لوگ کہاں رہے۔
خصوصی نوٹ:
کالم ''سربازار می رقصم'' میں فارسی غزل حضرت لال شہباز قلندرؒ سے منسوب کی گئی ہے۔ بعض محققین اسے حضرت عثمان ہارونیؒ کی غزل کہتے ہیں، نیز کالم کی آخری تین سطروں میں لفظ ''ندامت'' کو ''ندرت'' پڑھا جائے۔