پاک افغان مفاہمتی عمل میں پیشرفت
افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کرنے کے لیے عملی اقدامات اعلی سطح پر اٹھائے جائیں گے۔
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد خارجہ پالیسی میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ افغانستان کے صدر حامدکرزئی بھی کچھ عرصہ قبل پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں، اس موقعے پر وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کے دوران انھوں نے انتہائی مثبت انداز فکر اپنایا تھا جس سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کے لیے عملی اقدامات اعلی سطح پر اٹھائے جائیں گے۔ اسی حوالے سے ایک مثبت پیش رفت گزشتہ روز سامنے آئی ہے جب وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ پاکستان نے طالبان رہنما ملا عمر کے نائب ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا افغان مفاہمتی عمل آگے بڑھانے کے لیے رہائی رواں ماہ کے دوران ہی عمل میں آ جائے گی لیکن رہا ہونے والے رہنما کو براہ راست افغان حکام کے حوالے نہیں کیا جائے گا بلکہ پاکستان میں ہی رکھا جائے گا۔ ادھر افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان اور افغان طالبان نے ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ بلاشبہ طالبان افغانستان میں ایک بڑی سیاسی اور متحرک قوت ہیں اور افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بننے والی حکومت میں ان کا اہم ترین کردار ہو گا۔ماضی میں بھی جب طالبان افغانستان پر برسراقتدار تھے تو ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خاصے خوشگوار تھے۔ پھر نائن الیون کے واقعے بعد امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اور اس کے بعد سے لے کر آج تک طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
اب جب کہ پاکستانی افواج کی ڈاکٹرائن تبدیل ہو چکی ہے اور خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی کے واضح اشارے مل رہے ہیں تو ایک ایسے وقت میں ملابرادر کی رہائی کا فیصلہ دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ کیونکہ ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر کو فروری 2010 کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔وہ 2001 میں طالبان دور کے خاتمے کے وقت گرفتار کیے جانے والے اہم ترین رہنما ہیں۔ امریکا کی جانب سے ملا عبدالغنی کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن سابق حکومت نے یہ مطالبہ نہیں مانا تھا۔
ایکسپریس ٹریبون کے مطابق اعلیٰ حکومتی ذرایع نے بتایا کہ ملابرادر کو رہائی کے بعد سعودی عرب یا ترکی بھیجنے کے آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے جہاں وہ امریکا اور افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے طالبان وفد کی قیادت کر سکتے ہیں ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جہاں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں افغانستان کی موجودہ حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان نہ صرف دوست برادر اسلامی ملک ہے بلکہ اس کے افغانوں پر بہت سے احسانات ہیں ۔ افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل بھی مکمل ہونا چاہیے اور افغانستان کے کرتا دھرتا افراد کو بھارت کے کہنے میں آ کر بے بنیاد الزامات کو ترک کر کے دوستی، محبت اور افہام و تفہیم کی راہ کو چننا چاہیے اس میں پاکستان و افغانستان کے عوام کی فلاح اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔
انھوں نے مزید کہا افغان مفاہمتی عمل آگے بڑھانے کے لیے رہائی رواں ماہ کے دوران ہی عمل میں آ جائے گی لیکن رہا ہونے والے رہنما کو براہ راست افغان حکام کے حوالے نہیں کیا جائے گا بلکہ پاکستان میں ہی رکھا جائے گا۔ ادھر افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان اور افغان طالبان نے ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ بلاشبہ طالبان افغانستان میں ایک بڑی سیاسی اور متحرک قوت ہیں اور افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بننے والی حکومت میں ان کا اہم ترین کردار ہو گا۔ماضی میں بھی جب طالبان افغانستان پر برسراقتدار تھے تو ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خاصے خوشگوار تھے۔ پھر نائن الیون کے واقعے بعد امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اور اس کے بعد سے لے کر آج تک طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
اب جب کہ پاکستانی افواج کی ڈاکٹرائن تبدیل ہو چکی ہے اور خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی کے واضح اشارے مل رہے ہیں تو ایک ایسے وقت میں ملابرادر کی رہائی کا فیصلہ دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ کیونکہ ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر کو فروری 2010 کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔وہ 2001 میں طالبان دور کے خاتمے کے وقت گرفتار کیے جانے والے اہم ترین رہنما ہیں۔ امریکا کی جانب سے ملا عبدالغنی کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن سابق حکومت نے یہ مطالبہ نہیں مانا تھا۔
ایکسپریس ٹریبون کے مطابق اعلیٰ حکومتی ذرایع نے بتایا کہ ملابرادر کو رہائی کے بعد سعودی عرب یا ترکی بھیجنے کے آپشن پر بھی غور کیا جا رہا ہے جہاں وہ امریکا اور افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے طالبان وفد کی قیادت کر سکتے ہیں ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جہاں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں افغانستان کی موجودہ حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان نہ صرف دوست برادر اسلامی ملک ہے بلکہ اس کے افغانوں پر بہت سے احسانات ہیں ۔ افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل بھی مکمل ہونا چاہیے اور افغانستان کے کرتا دھرتا افراد کو بھارت کے کہنے میں آ کر بے بنیاد الزامات کو ترک کر کے دوستی، محبت اور افہام و تفہیم کی راہ کو چننا چاہیے اس میں پاکستان و افغانستان کے عوام کی فلاح اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔