جب میں یتیم ہو گیا

گزشتہ سال اگست میں یہ پیدا ہوئی اور اپنے بچپن میں ہی آنے والے سال ستمبر میں یتیم ہو گئی،


Abdul Qadir Hassan September 12, 2013
[email protected]

کوئی 65 برس پہلے کی بات ہے کہ میں سرگودھے کے کمپنی باغ کی دیوار کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ پر بے فکری کے انداز میں ٹہلتا ہوا چل رہا تھا۔ یہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ سال کی آخری گرمیوں کے اس میٹھے موسم میں ایک طرف باغ کے سبزہ زار اور دوسری طرف پر رونق بازار ، خوب منظر تھا۔ دکانوں پر اونچی آواز میں ریڈیو بج رہے تھے کہ اچانک جہاں جہاں ریڈیو تھا اس کے سامنے لوگ جمع ہو گئے۔ ریڈیو کی آواز اور اسے سننے والوں کی اچانک آہ و بکا میں، میں یہ دیکھ کر ایک مخمصے کے عالم میں کھڑا ہو گیا پھر پتہ چلا کہ میرے بابا فوت ہو گئے ہیں مجھ سمیت ہم سب اپنے بابا سے محروم ہو گئے ہیں پوری قوم یتیم ہو گئی ہے۔اس نوزائیدہ قوم کی عمر صرف ایک برس تھی۔

گزشتہ سال اگست میں یہ پیدا ہوئی اور اپنے بچپن میں ہی آنے والے سال ستمبر میں یتیم ہو گئی، اس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا پھر وہ دن اور آج کا دن کسی نے اس یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا جو ہاتھ بھی اس کی طرف بڑھا وہ اس کی جیب کی طرف بڑھا دل کی طرف نہیں، یہ قوم نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک اپنی بے پناہ ہمت بلکہ ضد میں زندہ رہی، بھوک اور ظلم کے خلاف بھی لڑتی رہی اور دشمن کے خلاف بھی۔ اس کے بڑوں کی طرف سے ڈھارس بندھانے کے لیے اس کے حصے میں صرف تقریریں ہی آئیں۔ کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ ہاتھ نہیں پکڑا آج محاورتاً نہیں حقیقتاً زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بدامنی خدا کی پناہ، زندگی موت کے منہ کے سامنے بے آسرا پڑی ہوئی تڑپ رہی ہے غربت کی وجہ سے عزتیں لٹ رہی ہیں۔ کوئی گھر محفوظ نہیں خدا کے گھر سے بھی جوتے چوری ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ قوم کے گھر پر یتیم خانے کا بورڈ لٹک رہا ہے اور اسی بورڈ کو کبھی کبھار نیا رنگ کر دیا جاتا ہے اس کے حروف صاف کر دیے جاتے ہیں مگر کوئی بھی اسے اتارتا نہیں ہے۔

اب گزشتہ نصف صدی سے کچھ اوپر کا عرصہ یاد کیجیے۔ اگر کسی یاد سے چہرے پر رونق آئے تو مجھے بھی ضرور بتائیے گا۔ قائد کو قدرت نے ہم سے چھین لیا۔ آج جب اس کی ذاتی اور سیاسی زندگی پڑھتے سنتے ہیں تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ قرون اولیٰ کی دیانت و امانت والا یہ شخص کہاں سے آ گیا تھا۔ وہ ایک امیر قانون دان تھا اس کی جیب کی ایک ایک پائی حلال کی تھی اس لیے وہ اسے حلال سمجھ کر خرچ کرتا تھا۔ وہ ملک کا بلاشبہ بادشاہ تھا جس پر اس کی رعایا جان چھڑکتی تھی اور وہ اپنی رعایا سے اولاد کی طرح پیار کرتا تھا۔ مہاجروں کو ان کے کیمپوں میں دیکھ کر اس کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے، وہ پشیمان تھا کہ اسے اس کی توقع نہ تھی لیکن بہر حال سب کچھ ایک حقیقت بن کر اس کے سامنے تھا۔ کچھ تو وہ ایک زبردست جسمانی بیماری کا شکار تھا اور کچھ اسے اس کے سامنے کی بیماری تڑپاتی تھی۔

ہمارے لیڈر ہمارے بابا کی زندگی ہم سے چھپاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ بیماری میں جب بھوک جواب دے گئی تو بہن کو ایک پرانا باورچی یاد آیا جس کا کھانا وہ شوق کے ساتھ کھاتے تھے۔ اسے ڈھونڈ کر بلایا گیا اور جب اس کا کھانا آیا تو بابا نے بڑے شوق کے ساتھ کھایا اور پوچھا کہ یہ کس نے پکایا ہے بہن نے اس پرانے باورچی کا ذکر کیا اور اس کو بلانے کا بتایا تو بہت خوش ہوئے اور حکم دیا کہ اس کی آمدورفت کا خرچ میں دوں گا۔ ہماری ریاست میری پسند کے کھانے کا خرچ برداشت نہیں کرے گی۔ یہ تو ایک بات یاد آ گئی جو بیان کر دی۔ اب آپ آج کے اور اس کے بعد کے حکمرانوں کا حال دیکھیے کہ ریاست ان پر کروڑوں خرچ کرتی ہے مگر کوئی پوچھتا نہیں کہ اس بھوکی قوم کا مال یہ انتہائی رئیس لوگ کیوں کھا رہے ہیں اس لیے کہ اقتدار اور اختیار ان کے پاس ہے ان کا جو جی میں آئے وہ کریں۔

ہماری پاکستانی قوم یتیموں کی قوم ہے اور اس کا مال کسی یتیم کا مال ہے اور یتیم کے مال کی جو حرمت ہے وہ ہر مسلمان جانتا ہے۔ ہمارے تو آقائے دو جہاں بھی یتیم تھے اور یتیموں کی مرادیں بر لانے والے تھے۔ ہم ان کے نام لیوا یتیموں کا مال کھانے والے ہیں۔ میں بار بار یتیم اس لیے لکھ رہا ہوں کہ جب سے ہمارے بابا ہم سے جدا ہوئے ہیں جب سے ان کا ہاتھ ہمارے سر سے اٹھا ہے تب سے ہم لٹیروں کے قبضے میں آ گئے ہیں۔ مثلاً ہمارے کوئی صدر صاحب جب ریٹائر ہوتے ہیں تو وہ ریاست کی ذمے داری بن جاتے ہیں بلکہ صدر تو بڑی بات ہے گورنر بھی بعد میں یتیموں کے مال پر چلتے ہیں اور یتیم ووٹروں سے منتخب ہونے والے جب اسمبلی کے اجلاس میں جاتے ہیں تو گویا کسی بڑی اونچی نوکری پر جاتے ہیں اور جب تک وہ ممبر رہتے ہیں مسلسل ہمارا مال کھاتے رہتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ وہ اپنی مراعات خود طے کرتے ہیں جو قانون بن جاتی ہیں۔

آج جب بابا یاد آ رہے ہیں تو اچھا ہی ہوا کہ وہ چلے گئے۔ جب بیماری میں ان کی عیادت کے لیے وزیراعظم گئے تو انھوں نے اپنی بہن سے کہا یہ مجھے دیکھنے آئے ہیں کہ کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی تقریب میں کہا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ یہی کھوٹے سکے کھرے سکے بن کر چل رہے ہیں اور چلتے چلے جا رہے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کی یاد اگر ان کے کارناموں اور ان کی زندگی کی خوبصورتی کے حوالے سے کریں تو زندگی بخش لیکن ان کے کھوٹے سکوں نے ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔

ہماری قسمت!

مجھے نورالامین کیوں یاد آ گئے۔ ہمارے یہ بزرگ لیڈر جو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے سقوط ڈھاکہ کے بعد جب کراچی میں قائد کے مزار پر حاضر ہوئے تو رو رو کر بے ہوش ہو گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں