خان صاحب ایک دن سب کو چلے جانا ہے
براہِ کرم چھوٹے شہروں، قصبوں اور گاؤں کے اسپتالوں کی حالت زار درست کرنے کےلیے بھی کام کیجئے
وہ 15 جولائی کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ میں ڈائیوو کی پرتعیش بس میں ابوظہبی کی جانب رواں دواں تھا۔ باہر سورج آگ برسا رہا تھا اور گاڑی کے اندر اے سی نے مری کا ماحول بنایا ہوا تھا۔ کچھ مسافر سو چکے تھے اور کچھ اپنے موبائل پر دنیا سے جڑے ہوئے تھے۔ میں ابھی موبائل کو آف کرکے سونے کی منصوبہ بندی ہی کررہا تھا کہ فیس بک کے پیغامبر نے جاوید پرنس کے لائن پر موجود ہونے کی اطلاع دی۔ ابتدائی حال احوال کے بعد میں نے اپنے بلاگ ''ووٹ کو عزت دو لیکن کیسے؟'' کے بارے میں ان کی رائے جاننا چاہی۔ ''بیٹا جی میں ابھی مصروف ہوں، لاہور سے ٹیم آرہی ہے، اس کےلیے تیاری کررہا ہوں، فارغ ہوکر اسے پڑھ کر آپ کو بتاؤں گا''۔
''جی بہت اچھا'' کہہ کر میں نے اجازت چاہی۔ شام پانچ بجے میں رزق حلال کی تگ و دو میں مصروف تھا کہ کامران چوہدری کا پیغام ملا ''ماموں جان اس دارفانی سے کوچ کرگئے ہیں''۔ مجھے یقین نہ آیا۔ میں نے گھبرا کر فون کیا۔ بھائی نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ یہ سچ ہے۔ ''مگر کیسے؟'' میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
وہ سیون نیوز کی ٹیم کے ساتھ پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے کہ اچانک گرگئے۔ انہیں تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں پر ڈاکٹر موجود نہ تھا۔ کافی دیر بعد ایم ایس صاحب تشریف لائے، مگر تب تک بھیرہ کی ایک موثر آواز 'نمائندہ سیون نیوز' اور جنرل سیکریٹری پریس کلب بھیرہ (سرگودھا) دار فانی سے کوچ کرچکے تھے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
ماما جی تو چلے گئے مگر باقی رہنے والوں کےلیے سبق چھوڑ گئے۔ اپنی زندگی میں شائد ہی کبھی ماما جی کو تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال جانا پڑا ہو۔ وہ اگر کبھی بیمار بھی ہوئے تو علاج کےلیے نجی اسپتال کا رخ کیا۔ مگر جب ان کا آخری وقت آیا تو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ انہیں لاہور یا اسلام آباد کے کسی نجی اسپتال میں منتقل کیا جاتا۔
ایسا ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ جی ہاں ہم جو اعلیٰ عہدوں پر ہونے کے باوجود اپنے مقامی شہر کی حالت زار پر یہ سوچ کر توجہ نہیں دیتے کہ ''ہم نہ کون سا اب وہاں جانا ہے''۔ اگر ہم سب مل کر اپنے اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ اور اگر کل کو ہم بھی کسی اچانک ناگہانی صورت حال کا شکار ہوکر واپسی کا سفر اختیار کریں تو ہم بھی مستفید ہوسکیں۔
میں نے بڑوں سے یہ سنا ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا یا برا سلوک ہمارا وہ عمل ہے جس کا صلہ آخرت کے ساتھ دنیا میں بہت جلد مل جاتا ہے۔ اپنی زندگی میں ماما جی نے اپنے والدین کی بھرپور خدمت کی، جس کا صلہ یہ ملا کہ 16 جولائی کی صبح موسم بے حد گرم تھا، مگر جیسے ہی ماما جی کو آخری آرام گاہ کی طرف لے کر چلے، اچانک موسم بے حد خوشگوار ہوگیا۔ اور پھر جب لحد میں اتارا گیا تو ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ جیسے ہی تدفین کا عمل مکمل ہوا موسم دوبارہ سے اپنی ڈگر پر لوٹ آیا۔ بے اختیار ''زبان خلق سے نقارہ خدا بجا'' کہ جاوید پرنس کا خاتمہ اچھا ہوا ہے۔
آئیں ہم بھی عزم کریں کہ ہم بھی اپنے والدین کی بھرپور خدمت کریں گے۔ امید ہے کہ یہ نیک عمل ہمارے اچھے خاتمے کا ذریعہ بن جائے۔
آخر میں میری خان صاحب سے گزارش ہے کہ سر مجھے بھی آپ کی طرح یقین ہے کہ آپ جب بیمار ہوں گے، آپ کسی اچھے نجی اسپتال میں ہی علاج کےلیے جائیں گے۔ آپ بہرحال سیاستدان ہیں اور ملک گیر دورے کرتے رہتے ہیں۔ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کسی چھوٹے شہر کے دورے کے موقع پر آپ کو بھی ایمرجنسی میں ناکافی سہولیات والے سرکاری اسپتال میں جانا پڑے، اور خدانخواستہ آپ کے ساتھ بھی ماموں والی صورتحال پیش آئے۔ اس سے پہلے کہ ایسا وقت آئے آپ براہِ کرم چھوٹے شہروں، قصبوں اور گاؤں کے اسپتالوں کی حالت زار درست کرنے کےلیے نیک نام لوگوں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس قائم کردیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے اس نیک کام کا آپ کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''جی بہت اچھا'' کہہ کر میں نے اجازت چاہی۔ شام پانچ بجے میں رزق حلال کی تگ و دو میں مصروف تھا کہ کامران چوہدری کا پیغام ملا ''ماموں جان اس دارفانی سے کوچ کرگئے ہیں''۔ مجھے یقین نہ آیا۔ میں نے گھبرا کر فون کیا۔ بھائی نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ یہ سچ ہے۔ ''مگر کیسے؟'' میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
وہ سیون نیوز کی ٹیم کے ساتھ پروگرام کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے کہ اچانک گرگئے۔ انہیں تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں پر ڈاکٹر موجود نہ تھا۔ کافی دیر بعد ایم ایس صاحب تشریف لائے، مگر تب تک بھیرہ کی ایک موثر آواز 'نمائندہ سیون نیوز' اور جنرل سیکریٹری پریس کلب بھیرہ (سرگودھا) دار فانی سے کوچ کرچکے تھے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
ماما جی تو چلے گئے مگر باقی رہنے والوں کےلیے سبق چھوڑ گئے۔ اپنی زندگی میں شائد ہی کبھی ماما جی کو تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال جانا پڑا ہو۔ وہ اگر کبھی بیمار بھی ہوئے تو علاج کےلیے نجی اسپتال کا رخ کیا۔ مگر جب ان کا آخری وقت آیا تو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ انہیں لاہور یا اسلام آباد کے کسی نجی اسپتال میں منتقل کیا جاتا۔
ایسا ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ جی ہاں ہم جو اعلیٰ عہدوں پر ہونے کے باوجود اپنے مقامی شہر کی حالت زار پر یہ سوچ کر توجہ نہیں دیتے کہ ''ہم نہ کون سا اب وہاں جانا ہے''۔ اگر ہم سب مل کر اپنے اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ اور اگر کل کو ہم بھی کسی اچانک ناگہانی صورت حال کا شکار ہوکر واپسی کا سفر اختیار کریں تو ہم بھی مستفید ہوسکیں۔
میں نے بڑوں سے یہ سنا ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا یا برا سلوک ہمارا وہ عمل ہے جس کا صلہ آخرت کے ساتھ دنیا میں بہت جلد مل جاتا ہے۔ اپنی زندگی میں ماما جی نے اپنے والدین کی بھرپور خدمت کی، جس کا صلہ یہ ملا کہ 16 جولائی کی صبح موسم بے حد گرم تھا، مگر جیسے ہی ماما جی کو آخری آرام گاہ کی طرف لے کر چلے، اچانک موسم بے حد خوشگوار ہوگیا۔ اور پھر جب لحد میں اتارا گیا تو ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ جیسے ہی تدفین کا عمل مکمل ہوا موسم دوبارہ سے اپنی ڈگر پر لوٹ آیا۔ بے اختیار ''زبان خلق سے نقارہ خدا بجا'' کہ جاوید پرنس کا خاتمہ اچھا ہوا ہے۔
آئیں ہم بھی عزم کریں کہ ہم بھی اپنے والدین کی بھرپور خدمت کریں گے۔ امید ہے کہ یہ نیک عمل ہمارے اچھے خاتمے کا ذریعہ بن جائے۔
آخر میں میری خان صاحب سے گزارش ہے کہ سر مجھے بھی آپ کی طرح یقین ہے کہ آپ جب بیمار ہوں گے، آپ کسی اچھے نجی اسپتال میں ہی علاج کےلیے جائیں گے۔ آپ بہرحال سیاستدان ہیں اور ملک گیر دورے کرتے رہتے ہیں۔ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کسی چھوٹے شہر کے دورے کے موقع پر آپ کو بھی ایمرجنسی میں ناکافی سہولیات والے سرکاری اسپتال میں جانا پڑے، اور خدانخواستہ آپ کے ساتھ بھی ماموں والی صورتحال پیش آئے۔ اس سے پہلے کہ ایسا وقت آئے آپ براہِ کرم چھوٹے شہروں، قصبوں اور گاؤں کے اسپتالوں کی حالت زار درست کرنے کےلیے نیک نام لوگوں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس قائم کردیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے اس نیک کام کا آپ کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔