الزامات کی سیاست
سیاست دان عوام کے آئیڈیل اور رول ماڈل ہیں انھیں ایسا کرنا زیب نہیں دیتا، انھیں عوام کے غموں کا مداوا کرنا چاہیے۔
ایک وقت تھا جب میاں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو بینظیر بھٹو او رآصف علی زردار ی کے گرد سخت شکنجے کسے گئے۔ بینظیر بھٹو کی ایک پیشی راولپنڈی میں ہوتی تو دوسری صبح انھیں لاہور پہنچنا پڑتا۔ اگلی صبح پیشی کراچی میں ہوتی۔
ایک دن بینظیر بھٹو کے آنسو چھلک پڑے، لیکن قدرت کا کیا کرنا یہ ہوا کہ ایک روز آڈیو ٹیپ منظر عام پہ آگئی جس میں احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمن جنھوں نے احتساب الرحمن کا لقب پایا ملک عبدالقیوم کو کہتے سنے گئے کہ کیسوں کی رفتار تیز ہونی چاہیے اور بڑے میاں صاحب کی یہ خواہش ہے۔
اِس ٹیپ کا سامنے آناتھا کہ یکدم اتنا شورمچا کہ سارا احتساب کا قلعہ دھڑام سے زمین بوس ہوگیا اوربینظیر بھٹو وآصف علی زرداری کے خلاف سارے کیسز دم توڑ گئے۔ اب کی بار مریم صاحبہ کی پریس کانفرنس ہوگئی، طوفان اُٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن بنیادی صورتحال جوں کی توں ہے۔ نوازشریف اندر ہیں اوراُن کے باہر آنے کا کوئی فوری امکان نہیں۔ بات تو تب بنتی کہ پریس کانفرنس کا دھماکا ایسا ہوتا کہ ہر چیز لرز کے رہ جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پریس کانفرنس کی شام ہلکا سا طوفان اُٹھا لیکن جلد ہی تھم گیا۔
دوسرے دن جج صاحب کے انکاری بیان نے بہت حد تک تمام بخار کو ٹھنڈا کردیا، تیسرے دن مریم صاحبہ نے پھر اکا دکا ویڈیو وائرل کیں مگر بے سود۔ ن لیگی رہنماؤں کے نزدیک ردعمل میں دھماکا سخت عوامی ردعمل کی شکل میں آتا۔ عوامی حلقے بے قرار ہوتے اور کم از کم پنجاب کے دو تین بڑے شہروں میں عوامی احتجاج کا کچھ اظہار ہوتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔کیوں نہیں ہوا؟ کیوں کہ شاید عوام جان گئے ہیں کہ مسلم لیگ جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو یاتو اُس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے یا وہ اس قسم کے ہتھکنڈے لازمی استعمال کرتی ہے۔
باقی رہ گئی یہ بات کہ جج ارشد ملک نے دباؤ میں آکر نواز شریف کو سزادی تو ذرا پاناما کہانی ریوائنڈ کریں، سب کو معلوم، نواز شریف نے سب تقریریں اپنی مرضی سے کیں، سپریم کورٹ کو خط میاں صاحب نے خود لکھا، جے آئی ٹی نواز شریف کے وکلاء کی خواہش پر بنی، احتساب عدالت (ٹرائل کورٹ) میں کیس نواز شریف کے وکلاء کے کہنے پر آیا، جج بشیر سے جج ارشد ملک کے پاس کیس ٹرانسفر نواز شریف کی وکیل کی خواہش پر ہوا، اب آپ بتائیے، ایک کیس کی 80سماعتیں ہوں۔
جج پوچھ پوچھ کر تھک جائے کہ حضور ملیں کیسے لگیں، کاروبار کے لیے پیسہ کہاں سے آیا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، لندن پیسہ آتا جاتا رہا، کیوں ایک بینک ٹرانزیکشن، ایک رسید، ایک کاغذ نہیں، کوئی جواب نہ ملے۔مریم نواز کو یہ بات سمجھنے میں دِقت ہو رہی ہے۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اصولوں کی جنگ ہو تو بڑی سے بڑی مصیبت سہی جاسکتی ہے۔
ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی غیر ملکی حکمرانوں سے مدد طلب کی جائے کہ وہ پاکستانی حکمرانوں اور طاقتور شخصیات پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے انھیں رہائی دلائیں،کبھی عدالتوں میں علاج کے بہانے بیرون ملک جانے کی درخواستیں دائر کرتے ہیں اور کبھی گھر کے مرغن کھانے کی فرمائش کے ذریعے مخالف حکمرانوں پر اپنی کمزوری کو عیاں فرماتے۔ پاکستان کی جیلوں میں اس وقت لاکھوں قیدی پڑے ہیں، جن میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو بکری چوری، موبائل چوری، جیب تراشی اور دوسرے معمولی جرم میں ملوث ہیں۔
آپ گزشتہ 30سالوں کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ ان جماعتوں نے ملکی اداروں کے ساتھ کیسی کیسی حرکتیں کی ہیں۔ کبھی سپریم کورٹ پر حملہ تو کبھی سیکیورٹی اداروںپر، مخالفین کی کردار کشی ۔یہ سیاسی خاندان کبھی اُس چیز کا ذکر نہیں کریں گے جس جگہ ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں یا جن شخصیات سے انھوں نے سیاسی فوائد حاصل کیے جیسے جج ارشد ملک صاحب والی پریس کانفرنس میں ایک مرحلے پر مریم نواز نے ذوالفقار علی بھٹو کا حوالہ دیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی سزائے موت کو جوڈیشل قتل کہا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ میاں نوازشریف کی سزا کو بھی اِنہی نظروں سے دیکھا جائے گا۔
بھٹو کا تو حوالہ دیا لیکن جنرل ضیاء الحق کو بیچ میں وہ بھول گئیں۔ بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء الحق تھا اور ضیاء الحق کے وفادار ساتھی اور جانشین نواز شریف تھے۔ بھٹو کے ساتھ جو ظلم یا ناانصافی ہوئی اس کو تو انھوں نے یاد کیا لیکن ظلم روا رکھنے والوں کو بھول گئیں۔ سیاست میں بہرحال ایسا ہوتا ہے۔ چبھنے والی یادیں یاد نہیں رکھی جاتیں۔
اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی ہمدرد شریف فیملی ہے۔ بہرکیف رحم تو اس قوم کی قسمت پہ آنا چاہیے کہ کیسے کیسے ہیرو اس کو ملے۔ پہلے کم از کم جب گھوڑوں پہ شاہسوار آتے تھے تو جمہوریت اور آزادی کی شمعیں جلائی جاتی تھیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ان دونوں نے مل کے ایک رومانوی ملک سے جمہوریت کے رومانس کو نقصان پہنچایا۔ ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ اقتدار گیا لیکن مرسیڈیز کاریں بدستور دبائی گئی ہوں۔ ایسے کاموں کے لیے دل گردہ چاہیے ہوتا ہے۔
ایک مرسیڈیز جاتی امرا سے برآمد ہوئی اوردوسری خاقان عباسی کو دینی پڑی۔ سیاست دان عوام کے آئیڈیل اور رول ماڈل ہیں انھیں ایسا کرنا زیب نہیں دیتا، انھیں عوام کے غموں کا مداوا کرنا چاہیے ناکہ الزامات کی سیاست کرکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ آخر میں حالیہ ''پیش رفت '' کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جس کے مطابق آصف زرداری کا کہنا ہے کہ مستقبل بلاول بھٹو اور مریم کا ہے جس پر میرا خیال ہے کہ اگر ان کا مستقبل ہے تو پھر اس ملک کے کروڑوں بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اس ملک کے مقروضوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، خط ِ غربت پر رینگتے ہوئے انسان نما حشرات الارض کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے ۔
ایک دن بینظیر بھٹو کے آنسو چھلک پڑے، لیکن قدرت کا کیا کرنا یہ ہوا کہ ایک روز آڈیو ٹیپ منظر عام پہ آگئی جس میں احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمن جنھوں نے احتساب الرحمن کا لقب پایا ملک عبدالقیوم کو کہتے سنے گئے کہ کیسوں کی رفتار تیز ہونی چاہیے اور بڑے میاں صاحب کی یہ خواہش ہے۔
اِس ٹیپ کا سامنے آناتھا کہ یکدم اتنا شورمچا کہ سارا احتساب کا قلعہ دھڑام سے زمین بوس ہوگیا اوربینظیر بھٹو وآصف علی زرداری کے خلاف سارے کیسز دم توڑ گئے۔ اب کی بار مریم صاحبہ کی پریس کانفرنس ہوگئی، طوفان اُٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن بنیادی صورتحال جوں کی توں ہے۔ نوازشریف اندر ہیں اوراُن کے باہر آنے کا کوئی فوری امکان نہیں۔ بات تو تب بنتی کہ پریس کانفرنس کا دھماکا ایسا ہوتا کہ ہر چیز لرز کے رہ جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پریس کانفرنس کی شام ہلکا سا طوفان اُٹھا لیکن جلد ہی تھم گیا۔
دوسرے دن جج صاحب کے انکاری بیان نے بہت حد تک تمام بخار کو ٹھنڈا کردیا، تیسرے دن مریم صاحبہ نے پھر اکا دکا ویڈیو وائرل کیں مگر بے سود۔ ن لیگی رہنماؤں کے نزدیک ردعمل میں دھماکا سخت عوامی ردعمل کی شکل میں آتا۔ عوامی حلقے بے قرار ہوتے اور کم از کم پنجاب کے دو تین بڑے شہروں میں عوامی احتجاج کا کچھ اظہار ہوتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔کیوں نہیں ہوا؟ کیوں کہ شاید عوام جان گئے ہیں کہ مسلم لیگ جب اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو یاتو اُس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے یا وہ اس قسم کے ہتھکنڈے لازمی استعمال کرتی ہے۔
باقی رہ گئی یہ بات کہ جج ارشد ملک نے دباؤ میں آکر نواز شریف کو سزادی تو ذرا پاناما کہانی ریوائنڈ کریں، سب کو معلوم، نواز شریف نے سب تقریریں اپنی مرضی سے کیں، سپریم کورٹ کو خط میاں صاحب نے خود لکھا، جے آئی ٹی نواز شریف کے وکلاء کی خواہش پر بنی، احتساب عدالت (ٹرائل کورٹ) میں کیس نواز شریف کے وکلاء کے کہنے پر آیا، جج بشیر سے جج ارشد ملک کے پاس کیس ٹرانسفر نواز شریف کی وکیل کی خواہش پر ہوا، اب آپ بتائیے، ایک کیس کی 80سماعتیں ہوں۔
جج پوچھ پوچھ کر تھک جائے کہ حضور ملیں کیسے لگیں، کاروبار کے لیے پیسہ کہاں سے آیا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، لندن پیسہ آتا جاتا رہا، کیوں ایک بینک ٹرانزیکشن، ایک رسید، ایک کاغذ نہیں، کوئی جواب نہ ملے۔مریم نواز کو یہ بات سمجھنے میں دِقت ہو رہی ہے۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اصولوں کی جنگ ہو تو بڑی سے بڑی مصیبت سہی جاسکتی ہے۔
ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی غیر ملکی حکمرانوں سے مدد طلب کی جائے کہ وہ پاکستانی حکمرانوں اور طاقتور شخصیات پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے انھیں رہائی دلائیں،کبھی عدالتوں میں علاج کے بہانے بیرون ملک جانے کی درخواستیں دائر کرتے ہیں اور کبھی گھر کے مرغن کھانے کی فرمائش کے ذریعے مخالف حکمرانوں پر اپنی کمزوری کو عیاں فرماتے۔ پاکستان کی جیلوں میں اس وقت لاکھوں قیدی پڑے ہیں، جن میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جو بکری چوری، موبائل چوری، جیب تراشی اور دوسرے معمولی جرم میں ملوث ہیں۔
آپ گزشتہ 30سالوں کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ ان جماعتوں نے ملکی اداروں کے ساتھ کیسی کیسی حرکتیں کی ہیں۔ کبھی سپریم کورٹ پر حملہ تو کبھی سیکیورٹی اداروںپر، مخالفین کی کردار کشی ۔یہ سیاسی خاندان کبھی اُس چیز کا ذکر نہیں کریں گے جس جگہ ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں یا جن شخصیات سے انھوں نے سیاسی فوائد حاصل کیے جیسے جج ارشد ملک صاحب والی پریس کانفرنس میں ایک مرحلے پر مریم نواز نے ذوالفقار علی بھٹو کا حوالہ دیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی سزائے موت کو جوڈیشل قتل کہا گیا۔اُن کا کہنا تھا کہ میاں نوازشریف کی سزا کو بھی اِنہی نظروں سے دیکھا جائے گا۔
بھٹو کا تو حوالہ دیا لیکن جنرل ضیاء الحق کو بیچ میں وہ بھول گئیں۔ بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء الحق تھا اور ضیاء الحق کے وفادار ساتھی اور جانشین نواز شریف تھے۔ بھٹو کے ساتھ جو ظلم یا ناانصافی ہوئی اس کو تو انھوں نے یاد کیا لیکن ظلم روا رکھنے والوں کو بھول گئیں۔ سیاست میں بہرحال ایسا ہوتا ہے۔ چبھنے والی یادیں یاد نہیں رکھی جاتیں۔
اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی ہمدرد شریف فیملی ہے۔ بہرکیف رحم تو اس قوم کی قسمت پہ آنا چاہیے کہ کیسے کیسے ہیرو اس کو ملے۔ پہلے کم از کم جب گھوڑوں پہ شاہسوار آتے تھے تو جمہوریت اور آزادی کی شمعیں جلائی جاتی تھیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ان دونوں نے مل کے ایک رومانوی ملک سے جمہوریت کے رومانس کو نقصان پہنچایا۔ ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ اقتدار گیا لیکن مرسیڈیز کاریں بدستور دبائی گئی ہوں۔ ایسے کاموں کے لیے دل گردہ چاہیے ہوتا ہے۔
ایک مرسیڈیز جاتی امرا سے برآمد ہوئی اوردوسری خاقان عباسی کو دینی پڑی۔ سیاست دان عوام کے آئیڈیل اور رول ماڈل ہیں انھیں ایسا کرنا زیب نہیں دیتا، انھیں عوام کے غموں کا مداوا کرنا چاہیے ناکہ الزامات کی سیاست کرکے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ آخر میں حالیہ ''پیش رفت '' کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جس کے مطابق آصف زرداری کا کہنا ہے کہ مستقبل بلاول بھٹو اور مریم کا ہے جس پر میرا خیال ہے کہ اگر ان کا مستقبل ہے تو پھر اس ملک کے کروڑوں بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اس ملک کے مقروضوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، خط ِ غربت پر رینگتے ہوئے انسان نما حشرات الارض کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے ۔