وزیر اعظم کی سیاسی شبیہ

عوام حکمرانوں سے زیادہ باشعور ہیں اور وہ اپنی غربت کی لکیر مٹانا چاہتے ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

وزیر اعظم عمران خان سے براہ راست میرا کوئی تعلق نہیں رہا اور آج بھی یہی صورتحال ہے مگر ان کے قریبی دوست اکثر میرے رابطے میں رہے ،جن میں ان کے جنرل سیکریٹری معراج محمد خان اور ان کے بعد ان کے دوست بھی جو امریکا اور لندن میں ہیں وہ بھی میرے دوست ہیں۔اس کے باوجود ان کی سیاسی زندگی ہر وقت پیش نظر رہی ہے۔ خصوصاً وہ ایام بھی آنکھوں میں بسے ہیں ، جب انھوں نے نواز حکومت کے خلاف احتجاجی مارچ کیے اور یخ ہواؤں میں اسلام آباد میں دھرنے دیے۔

وہ ایام بھی خوب تھے جب ان کے رفیق خاص ڈاکٹر طاہر القادری بحیثیت ایک سیاسی لیڈر اور مدبرکی طرح مارکس، لینن کے علاوہ مزدور کسانوں کی بات کر رہے تھے، مگر انھی دنوں عمران خان جو تقریریں کر رہے تھے، ان میں اس وقت کے حکمرانوں اور ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں واضح طور پر پیش کر رہے تھے۔اس سے حکومت کی صفوں میں دراڑیں تو ضرور پڑگئیں اور ملک میں کرپشن کے مکالمے شروع ہوگئے، مگر حکومت فوراً نہ گری لیکن انتخابات کے لیے یہ دھرنے عوام کے دلوں میں گھر کر گئے۔

البتہ علامہ طاہر القادری اس انتخاب میں کوئی اہم رول ادا نہ کرسکے کیونکہ نظریاتی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے وہ متفق نظر نہیں آتے تھے بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ حضرت ابو ذر غفاری کے اسلامی سوشل ازم کے قریب تھے۔ لہٰذا عمران خان کو اپنی تقریر کے فوائد کے ساتھ ساتھ علامہ کے نظریاتی اورکسی حد تک بین بین سوشلسٹ عناصر کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔

اور یہ دھرنا کلیتاً عمران خان کی سیاسی زندگی کا روشن ستارہ ثابت ہوا۔ کیونکہ اس کے فوراً بعد لوگ عمران خان کی پارٹی میں جمع ہونا شروع ہوگئے اور بیرون ملک بھی ازخود امریکا اور برطانیہ کے شہروں میں ان کے خودساختہ یونٹ تیار ہوگئے جو معاشی معاونت کا سہارا بنے کیونکہ اس سے پہلے شوکت خانم میموریل اسپتال کے علاوہ ان کے دامن میں کچھ نہ تھا، البتہ کرکٹ کی زندگی ان کے لیے ایک شہرہ آفاق سپر اسٹار بن گئی خاص طور پر جاوید میانداد کا وہ چھکا جو شارجہ میں لگایا گیا ، جس کے کپتان عمران خان تھے اور اس کے علاوہ وہ پاکستان کے لیے ورلڈ کپ لاکر کرکٹ کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔

اس کے علاوہ ان کی نیک نامی اور بلندی جمائما سے شادی کے بعد مسلم ہوگئی کیونکہ جمائما کے تعلقات برطانیہ کے شاہی خاندان سے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کی لابی نہ صرف برطانیہ میں ہے بلکہ امریکا تک ان کی لابی مضبوط ہے۔ امریکا تک ان کے تعلقات کا یہ عنصر پاکستان کے بااثر حلقوں کو پسند ہے اور انھوں نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان کی بہتری کے لیے عمران خان جیسی شخصیت کی حکمرانی بہتر ہوگی کیونکہ ان کا اثر مغرب میں تو خاصا مضبوط ہے اور سیاسی طور پر مغربی کلچر میں پسندیدہ ہیں۔

جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے مغرب کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان کی کمائی کی دولت ایسی ہے جیسی کسی سپر اسٹارکی ہو اور عمران خان نے اس بات کا پورا فائدہ اٹھایا کہ ان کی سچائی اور دست و بازوکی کمائی ہوئی دولت سے اپنے مخالفین پر وارکریں جو بیس بیس تیس تیس سال سے پاکستان کی حکومت کے آقا بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ معاشی طور پر پاکستان گرداب میں ہے تو اس گرداب کا طوق عمران خان نے نہایت خوبصورتی سے اپنے مخالفین کے گلے میں ڈال دیا۔ آئی ایم ایف نے بھی عمران خان کی صاف ستھری کمائی کو پورے طور سے پسند کیا اور سوچا کہ اگر عمران خان پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو ہوجاتے ہیں تو اس کی رقم بخوبی واپس مل جائے گی، ورنہ پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا اور ایسی صورت میں ایک خوفناک خلا کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا۔


لہٰذا نہ صرف یہ پاکستان کے لیے بلکہ پاکستان نے جن ممالک سے قرض لیا ہے ان کی نظر میں بھی عمران خان کی موجودگی ان کے لیے دردمند تھی اور عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ سو سو فیصد قیمتوں کے بڑھ جانے کے باوجود لوگ سڑکوں پر نہ آئے۔ میں نے ذاتی طور پر متوسط طبقے کے لوگوں، ملازمین، مختلف طبقے کے لوگوں اور ماضی کے کامریڈوں سے بات کی تو ان کا کہنا ہے کہ عوام سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں ہیں وہ اچھے وقتوں کے لیے حکومت کو وقت دے رہے ہیں۔ اس لیے اپوزیشن پارٹیاں بھی ہڑتال کی کال دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ ان لیڈروں پر عوام کو اعتماد نہیں ہے بلکہ یہ لیڈر تو اسمبلی ہال میں بھی نوراکشتی کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ البتہ عمران خان نے سال بھر کے اس قلیل وقت میں بڑی خوبی سے اپنی سچائی کا جھنڈا گاڑھ دیا۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے سعودی عرب کے حکمرانوں کو تو اپنے ملک میں مدعوکیا مگر ایران سے سفارتی الجھی ہوئی ڈورکو سلجھانے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں کے تجارتی وفود کی آمد بھی بند نہ ہوئی۔ عمران خان نے اپنی سچائی کو اس طرح پیش کردیا کہ جیسے ان سے سچا اور اچھا پاکستان کا کوئی حاکم نہیں گزرا۔ یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں سفارتی محاذ پرکسی لیڈرکو نمایاں ہونے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی اس کے سفارتی منصب کو باقاعدگی سے چلنے دیا گیا بلکہ سفارتی عمل میں مخصوص لوگ نمایاں رہے۔ مگر عمران خان نے بڑی خوبصورتی سے وزارت خارجہ کے امور سنبھال لیے۔

انھوں نے کئی مرتبہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے تعلقات کی بہتری پر زور دیا مگر نریندر مودی نے کبھی بھی مثبت جواب نہیں دیا۔ بلکہ وہ ہندوتوا کی رجعت پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ یہاں تک کہ ان کی سرکاری حلف برداری کی تقریب میں بھی کسی بڑے ملک کا حاکم شریک نہ ہوا۔ گوکہ انھوں نے بشمول پوتن کے تمام بڑے ممالک کے حکمرانوں کو دعوت نامے جاری کیے تھے کیونکہ مودی نے انسان پر گائے کو فوقیت دی جب کہ مسلمانوں نے کبھی گائے کے فوائد سے انکار نہیں کیا بقول اسمٰعیل میرٹھی کے:

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ایسی گائے بنائی

اس کے برعکس گوکہ مودی ایک بڑے ملک کے وزیر اعظم ہیں اس کے باوجود ان کو ایسی سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی تقریب میں کسی بڑے ملک کا نمایندہ شریک نہیں ہوا جب کہ عمران خان نے ایسی کوئی سیاسی ہلچل نہیں مچائی کہ ان کو روس اور امریکا مدعو کریں پھر بھی ان کو مدعو کیا گیا، اس سے عمران خان کی سیاسی شبیہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جوں ہی حالات بہتر ہوتے ہیں عوام کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کیے جائیں اور غیر ضروری بیانات سے اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ عوام حکمرانوں سے زیادہ باشعور ہیں اور وہ اپنی غربت کی لکیر مٹانا چاہتے ہیں اور اگر یہ جلد نہ ہوا تو عمران خان کی تمام اچھائیوں پر عوام پانی پھیر دیں گے۔
Load Next Story