شامِ زندگی

ایک شام اور بھی ہوتی ہے اور شام کی تمام جہتوں میں یہ سب سے اہم جہت ہے اور یہ جہت ہے عمر کی شام۔

قدیم یونانی فلسفی یہ سمجھتے تھے کہ ارواح دو مختلف عالموں یا دنیاؤں میں بستی ہیں۔ ایک عالم آئیڈیاز (World of Ideas) ہے اور دوسرا عالم یہ دنیا یعنی عالم ِحقیقی ہے(Real World)، ارواح کی ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقلی( عملِ تناسخ )کے بارے میں فیثا غورث کے نظریہ (Pythagorian Principle of Transmigration of Souls)میں کہا گیا ہے کہ ارواح آئیڈیاز کی دنیا میں جوڑے بن کر رہتی ہیں،حقیقی دنیا میں منتقلی پر انھیں جدا کر دیا جاتا ہے،یہاں ہر ایک اپنے جوڑے کی تلاش میں سرگرداں ہے یعنی دنیاوی زندگی اپنے پارٹنر کی تلاش سے عبارت ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وصل نہ ہو۔یہی وصل،شامِ زندگی کاانتہائی لمحہ ہے۔ شام فارسی زبان کا لفظ ہے۔عربی زبان میں اس کے لیے سات الفاظ ہیں جو اِس کی مختلف حالتوں کا اظہار ہیں۔

قرآنِ کریم میں اصیل کا لفظ پسند کیا گیا ہے۔ اصیل ،اصل سے ہے۔اصل جڑ کو کہتے ہیں۔امام جا حظ کہتے ہیں کہ اسم کو جب فعل کے وزن پر لاکر صفتِ مشبہ بناتے ہیں تو اس میں فیض رسانی کا مفہوم خود بخود پیدا ہو جاتا ہے جیسے نخل سے نخیل ، تو نخیل کہتے ہیں مادہ کھجور کے درخت کو۔پھل چونکہ مادہ کھجور کے درخت کو ہی لگتا ہے اس لیے نخیل میں فیض رسانی آ گئی۔اس طرح جب اصل سے اصیل بنتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ثمردار درخت کی جڑ اور اس کے مجازی معنی ہوتے ہیں مرادوں بھری شام۔ سید نصیر شاہ کے مطابق اصیل کے متضاد کے طور پر صبح کا عربی لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ بکرۃ استعمال ہوتا ہے۔ بکرۃ کے معنی ہیںکنواری یا دوشیزہ جس کی آنکھیں پیار کی لا متناہی بلندیوں اور حسین خوابوں سے بھری ہوں۔ایک مزدور جب صبح اٹھتا ہے تو اس کی آنکھیں تازہ خوابوں سے مخمور ہوتی ہیںاور شام کو مزدوری کا معاوضہ ملنے پرمرادوں بھری شام بن جاتی ہے۔

شام کا لفظ بہت سی جہتوں کو سموئے ہوئے ہے۔ہم برصغیر کے مسلمانوں کے ہاں شام کا لفظ زبان پر آتے ہی سب سے پہلے شامِ غریباں کا پاک لیکن غم و اندوہ بھرا منظر سامنے آ جاتا ہے اور آنکھوں میںکرب و بلا کا بے آب و گیاہ خارِزار ، تپتا بیابان ،ا س میں پڑے بے گورو کفن لاشے،ان عظیم ہستیوں کے لاشے جو کائنات میں سب سے پاک اور سب سے اعلیٰ و ارفع ہستیاں تھیں۔ان جلتے خیموںکو جن کے اندر رسولِ امین و مکرم کے گھر کی بہو بیٹیاں تھیںجن کی عصمت مآبی کے سبب چاند اور سورج بھی انھیں دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو گنہگار سمجھتا ہو گا۔ ہاں آنکھیں دیکھنے لگتی ہیں کہ دشتِ شام کے مسافروں کا زنجیروں بوجھل پاؤں جب زمین پر پڑتا ہے تو زمین کی چھاتی پر ایمان و ایقان سے لبریز سچ کی فتوحات کی داستانیں رقم ہونے لگتیں ہیںاور تاریخ ان نقوش کو چوم چوم کر اٹھاتی اور مردانِ حراپنے ماتھے پر سجاتے ہیں۔سلام ہو مسافرانِ شا م پر۔

جو تجربے یادوں خاص کر بچپن کی یادوں کا حصہ بنتے ہیں وہ ذہن اور فکر کو ایک خاص رنگ میں رنگنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ ایک ایسا سانچہ بنا دیتے ہیں جو عمر بھر ساتھ چلتا ہے۔میں اپنی ابتدائی زندگی کے ایک دو واقعات آپکے سامنے رکھتا ہوں۔میں غالباً دوسری کلاس میں پڑھتا تھا۔اسکول سے واپس آیا تو والدہ نے پیسے دے کر دکان سے کچھ سودا لینے بھیجا۔ میں دکان پر گیا سودا لیا پیسے دیے۔دکاندار نے اپنی رقم کاٹ کر باقی رقم مجھے تھما دی اور میں واپس گھر آ گیا۔گھر آکر سودا اور بچے ہوئے پیسے والدہ کو دیے۔اس زمانے میں چاندی کے روپے ہوتے تھے اور دکاندار نے ریزگاری واپس کرتے ہوئے غلطی سے ایک روپیہ زائد دے دیا تھا۔والدہ نے جونہی دیکھا کہ ایک روپیہ زائد ہے فوراً مجھے دو تھپڑ رسید کیے اور کہا بھاگ کر جاؤ،دکاندار کو روپیہ واپس کرو اور اس سے معافی مانگو۔والدہ نے جیسا حکم دیا میں نے ویسا ہی کیا لیکن اس وقت سمجھ نہ آئی کہ مجھے کیوں پیٹا گیا ہے شاید اس لیے کہ میری والدہ نے یہ سمجھا ہو کہ میں ایک روپیہ اٹھا لایا ہوں لیکن ساری زندگی کے لیے ایک سبق مل گیا۔


اسی طرح ایک بعد دوپہرہم تین چار لڑکے کھیلتے کھیلتے گاؤں کے ساتھ ملحقہ کھیت میں سے چھولیا توڑ لائے۔چنے کے پودے پر جب پھل لگتا ہے تو ابتدا میں بہت نرم ہونے کے سبب کافی مزیدار ہوتا ہے۔گاؤں میں یہ کوئی گناہ یا جرم نہیں بنتا کیونکہ ساری آبادی یا تو ایک دوسرے کی رشتہ دار ہوتی ہے یا کم از کم ایک دوسرے کے جاننے والے ہوتے ہیں۔ہم تینوں چاروں بچے وہ چھولیا اٹھا کر اپنے اپنے گھروں کو آ گئے۔والدہ نے جونہی دیکھا تو پہلا سوال یہ کیا کہ کیا تم اپنے کھیتوں میں گئے تھے اور وہاںسے یہ چھولیا لے کر آئے ہو،میں نے بتایا کہ نہیں۔ والدہ نے یہ سنتے ہی کہ یہ کسی اور کے کھیت سے ہے مجھے ایک دو لگا بھی دیں اور بہت غصے بھی ہو ئیں۔

والد صاحب گھر پر تھے لیکن ایک مخصوص عرصے کے لیے کسی خاص عبادت کے سبب کمرے سے باہر نہیں آتے تھے،والدہ کے شور اور غصے کی آواز ان تک بھی پہنچ گئی۔انھوں نے کھڑکی کے پٹ کھولے مجھے کہا کہ مچھر دانی کا ڈنڈا کھڑکی کے راستے ان کو پکڑاؤں اور خود کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جاؤں۔میں نے حکم کی تعمیل کی کیونکہ حکم عدولی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، یوں والد صاحب نے ڈنڈے سے میری تواضح کرنے کے بعد حکم دیا کہ چنے کے ان پودوں کو اسی کھیت میں چھوڑ آؤں،اس سے ساری عمر یہ یاد رہا کہ کسی کے ہاں سے کوئی بھی چیز بغیر مالک کی اجازت اٹھانا غلط ہے۔ خدا ہم سب کے والدین کو عظمتیں،عزتیں اوربلند مراتب عطا فرمائے جنھوں نے بعض اوقات بہت کم ہوتے ہوئے بھی اخلاق و ایمان کے بہترین اسباق سے نوازا۔

شام کی ایک جہت یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی صاحبِ کمال،کسی بڑے نامور آدمی،علم و فن میں اوجِ کمال پر پہنچے ہوئے کسی صاحبِ فضل کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے۔ ہماری علمی اور ادبی تہذیب میں چونکہ یہ کام عمومی طور پر شام کو کیا جاتاہے اس لیے اس تہذیبی روایت کو کسی کے ساتھ شام منانا کہا جاتا ہے۔پاکستان اکیڈمی ادبیات میں رہتے ہوئے ایسی کئی منائی گئی شاموں میںشرکت کا موقع ملااور چند ایک ناموروں کے تجربا ت سے استفادہ کرنے یا ان کی بیان کی ہوئی داستانیں سننے سے زندگی کے وہ زاوئے وا ہوئے جن سے عقل و خرد کو جلا ملی۔

ایک شام اور بھی ہوتی ہے اور شام کی تمام جہتوں میں یہ سب سے اہم جہت ہے اور یہ جہت ہے عمر کی شام۔جس طرح دن کے اختتام کو شام کہا جاتا ہے اسی طرح عمر کا ختم ہونے والا حصہ شامِ زندگی کہلاتا ہے۔عمر کے اس حصے میں پہنچ کر آدمی سوچنے لگتا ہے کہ جیسے اب زندگی تھم سی گئی ہے،جیسے اس کی حرکت رک سی گئی ہے،ہر طرف سکوت ہے،جمود کا غلبہ ہے،لمحے پتھر ہو گئے ہیں، کوئی ہنگامہ نہیں حالانکہ بقولِ شاعر ہنگامہ ضروری ہے سرِجادہ ہستی میں، ایسے لگتا ہے کوئی تغیر نہیںحالانکہ ایک تغیر کو ہی دوام حاصل ہے۔ہر روز وہی زمین وہی آسمان، ساری گردشیں تھمی ہوئیں، سارے موسموں سے بے پرواہ،غیر متحرک،رکے ہوئے،صدائیں بے سوز، سماعتیں غیر مانوس، سب کچھ ایسا کہ کہیں کوئی تلاطم نہیں، نیندیں خوابوں سے عاری، منصوبے، آرزوئیں،تڑپ، تحرک غیر موجود،وہ قافلے جنھیں گزرناتھا گزرگئے اپنے پیچھے دھول اور گرد چھوڑ گئے،اس مقام پر پہنچ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم ایک مردہ منظر کا چھوٹا سا جزو ہوں،ایک ایسی سسکی جو سمندر نے ساحل کو بھیجی ہو اور وہ موج کی ٹوٹتی دھڑکن بن کر ریت میں جذب ہو گئی ہو۔

ہر ایک کو اپنی شا م ِزندگی کے آخری لمحے سے دوچار ہونا ہے۔کسی کو نہیں پتہ کہ وہ کب،کہاں اور کیسے اپنی شامِ زندگی کے اس لمحے سے دوچار ہو،کیا وہ لمحہ خوبصورت ہو گا یا بھیانک اور بد صورت،کیا یہ مادی وجود بکھر جائے گا یا پھر ایک اور سفر پر نکل کھڑا ہو گا بقولِ شاعر میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا۔کہ ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی۔خدا کرے شام زندگی کاوہ لمحہ جب ہماری زندگی میں آئے توہمارے لبوں پر وہ تبسم مچل رہا ہو جو بقولِ اقبال، نشانِ مردِ مومن من با تو گویم۔ مرگ آید ، تبسم بر لبِ او ست۔
Load Next Story