راجاؤں بادشاہوں اور سامراجیوں کی کہانی
حال ہی میں ہمارے حکمرانوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا ہے۔
بیرونی حملہ آور ہوں یا راجہ اور بادشاہوں کا جبر دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ ہسپانوی، ڈچ، پرتگیزی اور برطانوی سامراجیوں کا جنوبی امریکا پر قبضہ اور لوٹ مار سب کو معلوم ہے۔
میں صرف ایک مثال دوں گا جب کہ ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔1573 ء میں '' کے مین آئی لینڈ '' سے ہسپانوی کارواں بیس ٹن سونا چا ندی لے کرگزر رہا تھا، اس پر برطانیہ کا فرانسس ڈریک جوکہ غلا موں کا تاجر اور قذاق تھا، ملکہ الزبتھ کے حکم پر حملہ آور ہوا اور ہسپانوی لٹیروں سے برطانوی لٹیروں نے قبضہ کیا۔ بعد میں ملکہ نے اس کا نام سر فرانسس ڈریک رکھ دیا۔
ہسپانیہ نے جنوبی امریکا کی لاکھوں مقامی آبادی کا قتل کیا اور ان کا مذہب، زبان اور تہذیب کو ان سے چھین لیا ۔ لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا یہ حال تھا کہ سابق لیما (پیرو) اور بیونس آئرس (موجودہ ارجنٹائن) پر قابض سربراہ ریسیگوئن 17 اکتوبر1781ء کو ارجینٹائن بلکہ جنوبی امریکا کے عظیم انقلابی ہیرو ''ٹوپک کتاری'' کوگرفتارکرلیا اور انھیں 15 نومبر1781ء کو اذیت دے کر مار دیا گیا۔
ان کے مر نے سے قبل ان کے ہاتھ پاؤںکو چار مختلف سمتوں سے رسوں کے ذریعے باندھ کرگھوڑوں سے کھینچا گیا، تا کہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، جب کہ ٹوپک کتاری آٓخری سانس تک ہسپانوی حملہ آوروں کو یہ کہہ کر للکارتے رہے کہ ''آج میں فرد واحد کے طور پر مر سکتا ہوں مگر میں کل لاکھوں کی شکل میں واپس آؤںگا '' اس وقت ''ان کا سلطنت'' کے ماتحت بولیویا ہوا کرتا تھا۔ اس علاقے میں آج کے ارجینٹینا ، چلی، ایکوا ڈور، پیرو، پیرا گوئے، جنوبی کولمبیا اور بولیویا شامل تھے۔ یہی جبر برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور ڈچ سامراجیوں نے افریقہ کے ساتھ کیا۔ لاکھوں، کروڑوں، افریقیوں کو غلام بنا کر امریکا لے جایا گیا اور ان سے جبراً خصوصاً گنے کی کاشت کروائی گئی۔ آج بھی کیرابین سر زمین پر افریقی بستے ہیں۔ یہاں مقامی آبادی ''کیریب'' ایک بھی نہیں ہے، اسی طرح جنوبی اور شمالی امریکا میں صرف 2 فیصد مقامی لاطینی رہ گئے ہیں۔
ادھر ایشیا میں برصغیر اور چین پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ ہمارے برصغیر پر ہن، کیانی، منگول، مغل ، سلاطین، سکندر، برطانیہ، پرتگیزی وغیرہ صدیوں قابض رہے اور ظلم وجبر کرتے رہے ۔ جہانگیر بادشاہ کے دور میں لارڈ کلائیو سات جہازوں میں سونا چاندی ا ور قیمتی جواہرات لاد کر برطانیہ لے گیا ۔
حال ہی میں ہمارے حکمرانوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا ہے۔ رنجیت سنگھ شمال مغربی بھارت میں پیدا ہو ئے۔ اکیس سال کی عمر میں حکمران بن گئے۔ ان کا افغان حکمرانوں سے مسلسل ٹاکرا ہوا کرتا تھا، رنجیت سنگھ کے برطانوی سامراج سے اچھے تعلقات تھے۔ وہ مودی سرکارکی طرح مسلم مخالف سوچ رکھتے تھے اور عمل کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے لاہورکی شاہی مسجدکوگھوڑوں کا ا صطبل بنایا تھا ۔ موجودہ حکمرانوں نے ہیرو بنا کے ان کا مجسمہ نصب کیا ہے ۔ جب کہ برصغیرکی آزادی کی جنگ لڑنے والے بھگت سنگھ جنھیں انگریزوں نے پھانسی دی تھی ان کا مجسمہ نصب نہیں کیا گیا ۔
بھگت سنگھ28 ستمبر1907ء بانگہ، فیصل آباد موجودہ پاکستان اور سابقہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ لاہور گورنمنٹ کالج کے طالب علم رہنما تھے اور سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے۔ انھوں نے باکونن اور لینن کی کتابیں بھی پڑھی ہوئی تھیں۔ لاہور اسمبلی ہاؤس پر بم پھینکنے کے الزام میں انھیں گرفتارکیا گیا تھا۔ لاہور کی تین رکنی ایک عدالت نے بھگت سنگھ، راج گورواور سُکھ دیوکو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ان کے مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح دو بار عدالت میں پیش ہوئے۔
قائد اعظم نے 4 ستمبر اور 12ستمبر1929ء میں سینٹرل اسمبلی دہلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''بھگت سنگھ جیسا بہادر اور جرات مند شخص برصغیرمیں پیدا نہیں ہوا۔'' 23 مارچ1931ء لاہور سینٹرل جیل میں انھیں راج گورو اور سکھ دیو سمیت انگریزوں نے پھانسی دے دی۔ پھانسی کی تاریخ عدالت نے 24 مارچ مقررکی تھی مگر انھیں 23 مارچ کو ہی شام سات بجے پھانسی دے دی گئی۔ بھگت سنگھ کے ڈیتھ وارنٹ پر برصغیرکا کوئی بھی جج دستخط کرنے کو تیار نہ تھا، آخرکار نواب احمد رضا قصوری نے پروانہ موت پر دستخط کر دیے۔ اتفاق کی بات ہے اسی شادمان ٹاؤن چوک میں کسی نے نواب احمد رضا قصوری کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔ اس قتل کے الزام میں ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔
جو آج بھی عدالتی قتل کہلاتا ہے۔ خیر تو ذکر ہو رہا تھا بھگت سنگھ کی پھانسی کا ۔ جیل مٹی کی دیوارکی بنی ہوئی تھی اور مین گیٹ پر بھگت سنگھ کی میت وصول کرنے کے لیے انسانوں کا سمندر جمع تھا ۔ اس خوف سے انگریزسرکار نے جیل کی پیچھے کی دیوار کو توڑ دیا اور ان کے جسد خاکی کو گنڈا سنگھ، ضلع قصور لے جایا گیا ۔ پھر ان کی میت کو انگریز سپاہی ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگے، اسی دوران قصورکے ہزاروں عوام کا سمندر امنڈ آیا ، جنھیں دیکھ کر انگریزسپاہی وہاں سے بھاگ گئے۔ لاہور میں بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کے روح رواں امتیاز قریشی ، بھگت سنگھ کے جوڈیشل مر ڈرکے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
جنگ آزادی کے 16 ہیروز جنھیں ایمپریس مارکیٹ کراچی میں پھانسی دیکر اور توپوں سے اڑا کر ان کے جسد خاکی کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے تھے۔ ان کی رہنمائی کرنے میں رام دین پانڈے اور سو راج بلی تیواری پیش پیش تھے۔
برٹش لائبریری میں رکھی گئی کتاب میں کلماتی کہتے ہیں کہ 13 ستمبر 10.30 pm رات کو 1857ء میں میجر میکروگون کو اطلاع ملی کہ فوج میں بغاوت ہونے والی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ پانڈے اور تیواری کا دہلی کی فوج سے رابطہ تھا۔ میجر میگریگون فوری طور پر سندھ کے کمشنر پارٹل فریئر، کیپٹین گولڈ اسمتھ اور جان آرتھرکو حکم دینے پر انھوں نے رجمنٹ میں کرفیو نا فذ کر دیا۔ رام دین اور تیواری نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ 44 فوجی جوان ، جو ان کے حا می تھے میں سے 21 فوجی تیواری کے ساتھ روپوش ہو جائیں اور باقی وہیں رہیں۔21 فوجی وہاں سے چلے گئے، 3 کو میٹھا در میں پکڑ لیا گیا ، انھیں مارکر ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور سمندر میں پھینک دیا گیا۔ دوسرے 15 ہمارے بہادر ہیروز کو 16 مئی کوگرفتارکر لیا گیا۔
ان میں سے 11 کو ایمپریس مارکیٹ ( جوکہ اس وقت میدان تھا) پر پھانسی پر لٹکایا گیا اور بعد میں لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور پھر ان کی نعش کو صدر ملا نزد برنس روڈ میں پھینک دیا گیا۔ 23 ستمبر کو ''حب'' سے رام دین پانڈے کوگرفتارکر لیا گیا اور 27 ستمبر 1857ء میں 5 اور ساتھیوں سمیت رام دین پانڈے کو توپ میں باندھ کر اڑایا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رنجیت سنگھ ہیرو ہیں یا عوام دشمن، اگر رام دین پانڈے ، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے جان کی قربانی دے کر برصغیرکو آزاد کرایا اور ان کے وکیل قائداعظم محمدعلی جناح تھے توکیا ہمیں رنجیت سنگھ کی جگہ بھگت سنگھ ، رام دین پانڈے اور ان کے ساتھیوںکو بھی ہیروز ہونے کا اعلان نہیں کرنا چاہیے، اگرکوئی سازش درپردہ ہے تو اسے بے نقاب کرتے ہوئے شادمان چوک پر بھگت سنگھ کا مجسمہ اور ایمپریس مارکیٹ کراچی میں رام دین پانڈے کا مجسمہ نصب کرنا چاہیے۔
میں صرف ایک مثال دوں گا جب کہ ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔1573 ء میں '' کے مین آئی لینڈ '' سے ہسپانوی کارواں بیس ٹن سونا چا ندی لے کرگزر رہا تھا، اس پر برطانیہ کا فرانسس ڈریک جوکہ غلا موں کا تاجر اور قذاق تھا، ملکہ الزبتھ کے حکم پر حملہ آور ہوا اور ہسپانوی لٹیروں سے برطانوی لٹیروں نے قبضہ کیا۔ بعد میں ملکہ نے اس کا نام سر فرانسس ڈریک رکھ دیا۔
ہسپانیہ نے جنوبی امریکا کی لاکھوں مقامی آبادی کا قتل کیا اور ان کا مذہب، زبان اور تہذیب کو ان سے چھین لیا ۔ لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا یہ حال تھا کہ سابق لیما (پیرو) اور بیونس آئرس (موجودہ ارجنٹائن) پر قابض سربراہ ریسیگوئن 17 اکتوبر1781ء کو ارجینٹائن بلکہ جنوبی امریکا کے عظیم انقلابی ہیرو ''ٹوپک کتاری'' کوگرفتارکرلیا اور انھیں 15 نومبر1781ء کو اذیت دے کر مار دیا گیا۔
ان کے مر نے سے قبل ان کے ہاتھ پاؤںکو چار مختلف سمتوں سے رسوں کے ذریعے باندھ کرگھوڑوں سے کھینچا گیا، تا کہ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، جب کہ ٹوپک کتاری آٓخری سانس تک ہسپانوی حملہ آوروں کو یہ کہہ کر للکارتے رہے کہ ''آج میں فرد واحد کے طور پر مر سکتا ہوں مگر میں کل لاکھوں کی شکل میں واپس آؤںگا '' اس وقت ''ان کا سلطنت'' کے ماتحت بولیویا ہوا کرتا تھا۔ اس علاقے میں آج کے ارجینٹینا ، چلی، ایکوا ڈور، پیرو، پیرا گوئے، جنوبی کولمبیا اور بولیویا شامل تھے۔ یہی جبر برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور ڈچ سامراجیوں نے افریقہ کے ساتھ کیا۔ لاکھوں، کروڑوں، افریقیوں کو غلام بنا کر امریکا لے جایا گیا اور ان سے جبراً خصوصاً گنے کی کاشت کروائی گئی۔ آج بھی کیرابین سر زمین پر افریقی بستے ہیں۔ یہاں مقامی آبادی ''کیریب'' ایک بھی نہیں ہے، اسی طرح جنوبی اور شمالی امریکا میں صرف 2 فیصد مقامی لاطینی رہ گئے ہیں۔
ادھر ایشیا میں برصغیر اور چین پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ ہمارے برصغیر پر ہن، کیانی، منگول، مغل ، سلاطین، سکندر، برطانیہ، پرتگیزی وغیرہ صدیوں قابض رہے اور ظلم وجبر کرتے رہے ۔ جہانگیر بادشاہ کے دور میں لارڈ کلائیو سات جہازوں میں سونا چاندی ا ور قیمتی جواہرات لاد کر برطانیہ لے گیا ۔
حال ہی میں ہمارے حکمرانوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا ہے۔ رنجیت سنگھ شمال مغربی بھارت میں پیدا ہو ئے۔ اکیس سال کی عمر میں حکمران بن گئے۔ ان کا افغان حکمرانوں سے مسلسل ٹاکرا ہوا کرتا تھا، رنجیت سنگھ کے برطانوی سامراج سے اچھے تعلقات تھے۔ وہ مودی سرکارکی طرح مسلم مخالف سوچ رکھتے تھے اور عمل کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے لاہورکی شاہی مسجدکوگھوڑوں کا ا صطبل بنایا تھا ۔ موجودہ حکمرانوں نے ہیرو بنا کے ان کا مجسمہ نصب کیا ہے ۔ جب کہ برصغیرکی آزادی کی جنگ لڑنے والے بھگت سنگھ جنھیں انگریزوں نے پھانسی دی تھی ان کا مجسمہ نصب نہیں کیا گیا ۔
بھگت سنگھ28 ستمبر1907ء بانگہ، فیصل آباد موجودہ پاکستان اور سابقہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ لاہور گورنمنٹ کالج کے طالب علم رہنما تھے اور سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے۔ انھوں نے باکونن اور لینن کی کتابیں بھی پڑھی ہوئی تھیں۔ لاہور اسمبلی ہاؤس پر بم پھینکنے کے الزام میں انھیں گرفتارکیا گیا تھا۔ لاہور کی تین رکنی ایک عدالت نے بھگت سنگھ، راج گورواور سُکھ دیوکو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ ان کے مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح دو بار عدالت میں پیش ہوئے۔
قائد اعظم نے 4 ستمبر اور 12ستمبر1929ء میں سینٹرل اسمبلی دہلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''بھگت سنگھ جیسا بہادر اور جرات مند شخص برصغیرمیں پیدا نہیں ہوا۔'' 23 مارچ1931ء لاہور سینٹرل جیل میں انھیں راج گورو اور سکھ دیو سمیت انگریزوں نے پھانسی دے دی۔ پھانسی کی تاریخ عدالت نے 24 مارچ مقررکی تھی مگر انھیں 23 مارچ کو ہی شام سات بجے پھانسی دے دی گئی۔ بھگت سنگھ کے ڈیتھ وارنٹ پر برصغیرکا کوئی بھی جج دستخط کرنے کو تیار نہ تھا، آخرکار نواب احمد رضا قصوری نے پروانہ موت پر دستخط کر دیے۔ اتفاق کی بات ہے اسی شادمان ٹاؤن چوک میں کسی نے نواب احمد رضا قصوری کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔ اس قتل کے الزام میں ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔
جو آج بھی عدالتی قتل کہلاتا ہے۔ خیر تو ذکر ہو رہا تھا بھگت سنگھ کی پھانسی کا ۔ جیل مٹی کی دیوارکی بنی ہوئی تھی اور مین گیٹ پر بھگت سنگھ کی میت وصول کرنے کے لیے انسانوں کا سمندر جمع تھا ۔ اس خوف سے انگریزسرکار نے جیل کی پیچھے کی دیوار کو توڑ دیا اور ان کے جسد خاکی کو گنڈا سنگھ، ضلع قصور لے جایا گیا ۔ پھر ان کی میت کو انگریز سپاہی ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگے، اسی دوران قصورکے ہزاروں عوام کا سمندر امنڈ آیا ، جنھیں دیکھ کر انگریزسپاہی وہاں سے بھاگ گئے۔ لاہور میں بھگت سنگھ میموریل فاؤنڈیشن کے روح رواں امتیاز قریشی ، بھگت سنگھ کے جوڈیشل مر ڈرکے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
جنگ آزادی کے 16 ہیروز جنھیں ایمپریس مارکیٹ کراچی میں پھانسی دیکر اور توپوں سے اڑا کر ان کے جسد خاکی کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے تھے۔ ان کی رہنمائی کرنے میں رام دین پانڈے اور سو راج بلی تیواری پیش پیش تھے۔
برٹش لائبریری میں رکھی گئی کتاب میں کلماتی کہتے ہیں کہ 13 ستمبر 10.30 pm رات کو 1857ء میں میجر میکروگون کو اطلاع ملی کہ فوج میں بغاوت ہونے والی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ پانڈے اور تیواری کا دہلی کی فوج سے رابطہ تھا۔ میجر میگریگون فوری طور پر سندھ کے کمشنر پارٹل فریئر، کیپٹین گولڈ اسمتھ اور جان آرتھرکو حکم دینے پر انھوں نے رجمنٹ میں کرفیو نا فذ کر دیا۔ رام دین اور تیواری نے فوری طور پر فیصلہ کیا کہ 44 فوجی جوان ، جو ان کے حا می تھے میں سے 21 فوجی تیواری کے ساتھ روپوش ہو جائیں اور باقی وہیں رہیں۔21 فوجی وہاں سے چلے گئے، 3 کو میٹھا در میں پکڑ لیا گیا ، انھیں مارکر ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور سمندر میں پھینک دیا گیا۔ دوسرے 15 ہمارے بہادر ہیروز کو 16 مئی کوگرفتارکر لیا گیا۔
ان میں سے 11 کو ایمپریس مارکیٹ ( جوکہ اس وقت میدان تھا) پر پھانسی پر لٹکایا گیا اور بعد میں لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور پھر ان کی نعش کو صدر ملا نزد برنس روڈ میں پھینک دیا گیا۔ 23 ستمبر کو ''حب'' سے رام دین پانڈے کوگرفتارکر لیا گیا اور 27 ستمبر 1857ء میں 5 اور ساتھیوں سمیت رام دین پانڈے کو توپ میں باندھ کر اڑایا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رنجیت سنگھ ہیرو ہیں یا عوام دشمن، اگر رام دین پانڈے ، بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے جان کی قربانی دے کر برصغیرکو آزاد کرایا اور ان کے وکیل قائداعظم محمدعلی جناح تھے توکیا ہمیں رنجیت سنگھ کی جگہ بھگت سنگھ ، رام دین پانڈے اور ان کے ساتھیوںکو بھی ہیروز ہونے کا اعلان نہیں کرنا چاہیے، اگرکوئی سازش درپردہ ہے تو اسے بے نقاب کرتے ہوئے شادمان چوک پر بھگت سنگھ کا مجسمہ اور ایمپریس مارکیٹ کراچی میں رام دین پانڈے کا مجسمہ نصب کرنا چاہیے۔