اک ذرا کینیڈا سے
پورے ملک میں جشن منایا جا رہا تھا۔ سلطان ناصر صاحب نے ہمیں خوب سیر کرائی۔
30 جون کی صبح 8 بجے قومی ایئر لائن کے جہاز نے اڑان بھری اور ہم میاں بیوی کراچی سے کینیڈا کے شہر ٹورانٹو کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہوائی جہاز میں سوار سبھی عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان اور بچے اپنے پاکستانی تھے۔ ہم دوسری بار کسی غیر ملک جا رہے تھے۔ پہلی بار 2010ء میں ہم میاں بیوی حج کرنے سعودی عرب گئے تھے اور اب دوسری بار کینیڈا جا رہے تھے۔ کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں ہماری اکلوتی بیٹی ردا اپنے میاں اور دو بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اسی سے ملنے ہم جا رہے تھے۔
کراچی ایئرپورٹ پر ہمیں رخصت کرنے میرے تینوں بیٹے، بہوئیں اور پوتیاں آئے ہوئے تھے۔ صبح کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔ بین الاقوامی پرواز کے لیے روانگی سے تین چار گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچنا ہوتا ہے۔ ابھی ہم لاؤنج سے باہر ہی تھے کہ ہمیں فہیم مل گیا، جو ہمارے ساتھ والے اعجاز صاحب مرحوم کا بیٹا ہے اور پچھلے 30 سال سے کینیڈا میں رہ رہا ہے۔ ہم لاؤنج میں داخل ہوئے ہی تھے کہ سامنے سے میرے پیارے دوست شاعر صابر ظفرکا بیٹا نظر آیا، وہ ہماری طرف ہی آ رہا تھا۔
''السلام علیکم! کہاں جا رہے ہیں انکل!'' میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا، وہ قومی ایئرلائن کی یونیفارم پہنے ہوئے تھے، میں نے اسے بتایا کہ ہم کینیڈا جا رہے ہیں۔ اس نے ہمارا اور فہیم کا سامان لیا سامان کی ٹرالی لیے لوڈر کو ساتھ لیا اور سامان جہاز میں لوڈ کروا دیا۔
ہم میاں بیوی لاؤنج میں بیٹھے تھے، صابر ظفر کے بیٹے نے سامان کی رسیدیں جو ہمارے بورڈنگ کارڈ کے ساتھ چسپاں تھیں ہمارے حوالے کیں اور ہم جہاز میں جانے والے گیٹ نمبر 17 کی انتظار گاہ میں پہنچ گئے۔ فہیم ہمارے ساتھ تھا۔ وہاں ہم نے چائے پی اور ٹھیک سات بجے جہاز میں داخلے کے لیے لائن میں لگ گئے۔ ایک ٹنل کے ذریعے ہم جہاز کے دروازے پر پہنچے جہاں جہاز کی میزبان لڑکی نے ہماری سیٹ تک ہمیں پہنچایا اور پھر ٹھیک آٹھ بجے صبح جہاز نے اڑان بھری اور ہمارے پندرہ گھنٹے مسلسل پرواز کے سفر کا آغاز ہو گیا۔ راستے بھر ہمارے پڑوسی بچے فہیم نے ہمارا بڑا خیال کیا، وہ بار بار اپنی سیٹ سے اٹھ کر ہماری خیریت معلوم کرنے آتا رہا۔ سفر بہت اچھا گزرا، پاکستانی کھانا، چائے، کافی، ٹھنڈے مشروب، اسنیک سبھی کچھ بہت اچھا تھا۔
آخر کار وہ گھڑی آن پہنچی، پائلٹ اعلان کر رہا تھا ''سیٹ بیلٹ باندھ لیں، ہم تھوڑی دیر بعد ٹورانٹو ایئرپورٹ پر لینڈ کریں گے'' اور پھر ہوائی جہاز کے پہیوں نے زمین کو چھو لیا۔ اب جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا، پھر آہستہ ہوا اور ایک جگہ رک گیا۔ اس وقت ٹورانٹو میں دوپہرکا ایک بج رہا تھا۔ ہم جہاز سے باہر آ رہے تھے، فہیم کینیڈا کا مستقل رہائشی ہے، اس نے ایئرپورٹ کے تمام مراحل خود ہی طے کیے۔ فہیم کی چھوٹی بہن افشین اپنے شوہر نوید کے ساتھ ہمیں لینے آئی ہوئی تھی۔ ٹورانٹو ایئرپورٹ پر موجود اہلکار لڑکے لڑکیاں، عورتیں مرد (گورے کالے) سبھی اپنے فرائض نہایت خوبی سے ادا کر رہے تھے اور مسافروں کی سہولتوں کے لیے ہر دم ہر لمحہ حاضر تھے۔ ٹورانٹو ایئرپورٹ پر ایمیگریشن کا تمام کام مشینیں کرتی ہیں۔ پاسپورٹ کی اسکیننگ، مسافر کی کیمرے سے تصویر وغیرہ سب کام مشینیں کرتی ہیں۔
فہیم ہمارا مددگار تھا، اس نے تمام کام کیے اور ہم سامان کی ٹرالی لیے ایئرپورٹ سے باہر آ گئے۔ جہاں افشین اور اس کا شوہر نوید اپنی بڑی سی گاڑی لیے موجود تھے۔ ہم ان کی گاڑی میں بیٹھ کر ''مسز ساگا'' کے لیے روانہ ہو گئے۔ مسز ساگا ٹورانٹو شہرکا ایک حصہ ہے۔ وہیں فہیم کا بھی بہت بڑا گھر ہے، مگر ہم افشین کے گھر جا رہے تھے۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیوکے بعد ہم گھر پہنچے، ابھی ہمارا سفر ختم نہیں ہوا تھا۔ ہمیں چھ گھنٹے بعد ٹورانٹو سے بذریعہ ایئر کینیڈا اوٹاوا کے لیے اڑان بھرنا تھی۔
سو ہم نے دوگھنٹے افشین کے گھر آرام کیا اور ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے کے لیے فہیم اور نوید اپنی گاڑی میں روانہ ہوئے۔ ٹورانٹو ایئرپورٹ کا یہ ٹرمنل ون تھا، جہاں ہم پی آئی اے سے اترے تھے۔ وہ ٹرمنل یہاں سے ایک میل فاصلے پر تھا۔ ٹورانٹو بہت بڑا ایئرپورٹ ہے، خیر اوٹاوا روانگی کے لیے میں نے ایئرپورٹ پر بڑے خوش کن منظر دیکھے۔ مسافروں کی رہنمائی کے لیے اہلکار ''بڑی توجہ'' کے ساتھ مسکراہٹ چہرے پر سجائے موجود۔ ہم لائن میں کھڑے ہو گئے، سامنے آٹھ کاؤنٹر تھے اور ہر کاؤنٹر پر اپنی باری آنے پر ایک ہی مسافر موجود تھا، باقی سارے مسافر اپنی باری کے انتظار میں کاؤنٹر سے ذرا فاصلے پر، کوئی ہڑبونگ نہیں۔
ٹورانٹو سے اوٹاوا کے لیے ہمیں 45 منٹ کی اڑان بھرنا تھی۔ ایئرکینیڈا کے جہاز میں سبھی کینیڈین تھے، چپس اورکولڈ ڈرنکس سے مسافروں کی تواضح کی گئی اور جہاز اوٹاوا اتر گیا۔ ایئرپورٹ پر ہماری بیٹی ردا اپنے میاں منصور اور اپنے دو بچوں کے ساتھ موجود تھے۔
اوٹاوا شہر پاکستان کا اسلام آباد ہے۔ کینیڈا کا دارالحکومت ہے۔ اس شہر میں صاف ظاہر ہے زیادہ لوگ سرکاری ملازم ہیں۔ چھوٹا سا کم آبادی والا شہر ہے آٹھ لاکھ 95 ہزار لوگوں کا شہر۔ جب سے یہاں آیا ہوں آج آٹھ روز ہو گئے اب تک جو دیکھا وہ یہ کہ چیزیں خالص ہیں ، وزن پورا ہے اور سچا سُچا ہے۔
ہم پیدل چل رہے تھے زیبرا کراسنگ سے پہلے میاں بیوی کار سواروں نے گاڑی روک دی، ہم نے سڑک پار کی، میں نے بطور شکریہ ہاتھ ہلایا۔ ان دونوں میاں بیوی نے مسکرا کے ہاتھ ہلایا۔ بیٹی بتا رہی تھی ''اگر یہ نہ رکتے تو پانچ سو ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا، جو ہمارے تقریباً ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں۔'' یہاں قانون کی بڑی عملداری ہے۔ میں روزانہ صبح یہاں بھی واک کے لیے نکلتا ہوں۔ راستے میں سبھی لوگ مجھے کہتے ہیں "Good Morning Sir! ۔ چار دن پہلے ہفتے کے دن میری بیٹی کے سسر سلطان ناصر ان کی بیگم رعنا اور بیٹا مصور اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں بٹھا کر ہمیں ''ڈاؤن ٹاؤن سٹی'' لے گئے۔ اوٹاوا کے اس علاقے میں کینیڈا کی پارلیمنٹ (قومی اسمبلی) کی عمارت ہے، وزیر اعظم ہاؤس ہے، سپریم کورٹ ہے، ملکہ برطانیہ کے نمایندے گورنر کا گھر ہے، اس کا دروازہ بھی فٹ پاتھ پرکھلتا ہے ۔ سفید دروازے پر سنہری دھات سے نمبر 10 لکھا ہے۔ اسی جگہ ''پارلیمنٹ ہاؤس'' کے سامنے یکم جولائی کے دن کینیڈا کا یوم آزادی تھا۔ ہم وہیں تھے، رات گئے ہم بھی آتش بازی دیکھنے گئے۔
پورے ملک میں جشن منایا جا رہا تھا۔ سلطان ناصر صاحب نے ہمیں خوب سیر کرائی۔ ہم Ottava River بھی گئے ۔ شہر کے بہت سے لوگ اس روز دریا کنارے جمع تھے، خوب ''موج میلہ'' ہو رہا تھا۔ ہم نے کینیڈا کی مشہور کالٹن یونیورسٹی بھی دیکھی، سلطان ناصر کی اکلوتی بیٹی آمنہ نے اسی یونیورسٹی سے CA کیا ہے۔ اگلے روز اتوار کے دن شام ان کے گھر میرے لیے عصرانے کا اہتمام تھا۔ ''مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے'' ہوئے تھے میرے کالم لوگوں نے پڑھ رکھے تھے، اور پھر حبیب جالبؔ کا ذکر محفل کے اختتام تک ہوتا رہا۔ امین لاکھانی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ، خلیق احمد چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ اور میزبان سلطان کے منجھلے صاحبزادے مسرور ناصر چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ شریک محفل تھے۔ ڈاکٹر سہیل، محمد سعید علی، علی زیدی سافٹ ویئر انجینئر اور آئی بی اے پاکستان کے سابق ڈائریکٹر عقیل حسین کے صاحبزادے مدثر حسین جو بینکار ہیں۔ یہ سب احباب صاحب علم اور صاحب مطالعہ ہیں۔ ان سے باتیں کر کے بڑا اچھا لگا۔ میری پہلی نشست ہو چکی، دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا، بقول احمد راہی:
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے