الزامات کی سیاست کب تک
حکومت جانتی ہے کہ اس کی کارکردگی سے عوام پریشان، مہنگائی عروج پر، کاروبار بری طرح متاثر اور ملک میں بے یقینی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھرکہا ہے کہ ''جس بادشاہ سے بھی سفارش کرا لو، این آر او نہیں دوں گا'' چند روز قبل وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ باہر کے کسی حکمران نے این آر او دینے کی کوئی بات نہیں کی۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکمرانوں پر بعض غیر ملکی اثرانداز ہوتے رہے ہیں اور جنرل پرویز مشرف جیسا بااختیار فوجی حکمران بھی غیر ملکی حکمرانوں کی سفارش ماننے پر مجبور ہوا تھا کیونکہ انھیں بھی اپنا اقتدار برقرار رکھنا تھا۔
اس لیے انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے تھے اور ایک طرف غیر ملکی حکمرانوں کی بات مان کر ان پر احسان کیا گیا اور دوسری طرف اپنے مخالفین سے جان چھڑا کر انھیں ملک سے جلاوطن کیا گیا تا کہ وہ نہ ملک کی جیلوں میں ہوتے نہ ان کے لیے کوئی آواز اٹھتی کہ انھیں رہا کرو اور معاہدے کے تحت انھیں بیرون ملک بھی سیاست کی اجازت نہیں تھی جس پر کچھ عمل بھی ہوا اور جنرل مشرف نے تقریباً آٹھ سال اپنے دو بڑے مخالفین کی جلا وطنی میں آرام سے حکومت کی تھی۔
چالیس سال قبل ملک پر جنرل ضیا الحق کی مضبوط حکومت تھی اور مارشل لا کے باعث آئین معطل اور عدلیہ مجبور تھی اور اس عدلیہ کے دور میں ایک سابق وزیر اعظم بھٹوکو پنجاب ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا ملی تھی جس کی توثیق سپریم کورٹ نے کی تھی ، جو آج کی طرح مضبوط نہیں تھی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غیر ملکی حکمرانوں کی سفارش مسترد کر کے پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ وہ بھی فوجی دور تھا اور بااختیار فوجی جنرل معزول وزیر اعظم کو باہر بھیجنے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ جنرل ضیا الحق کے نزدیک بھٹو کا زندہ رہنا ان کے لیے خطرناک ہوتا، اس لیے سابق وزیر اعظم سے جان بھی چھڑا لی گئی اور یہ بھی ثابت کردیا گیا کہ بااختیار فوجی جنرل واقعی بااختیار ہوتا ہے۔
کسی منتخب یا نامزد سیاسی وزیر اعظم کی طرح بے اختیار نہیں ہوتا جو کسی کو این آر او دے یا نہ دے ۔ کسی فوجی جنرل نے کبھی یہ نہیں کہا کہ این آر او نہیں دوں گا۔ جب کہ این آر او کون مانگ رہا ہے یہ بتانے کو تیار نہیں مگر ہر جگہ کہا یہی جا رہا ہے کہ این آر او نہیں دوں گا جب کہ عدالتوں اور نیب کی موجودگی میں کوئی بااختیار وزیر اعظم بھی این آر او دینے کا اختیار نہیں رکھتا ۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ این آر او مانگنے اور دینے والے پر لعنت اور جو مانگے اس کا نام کیوں نہیں بتایا جا رہا۔
وزیر اعظم نے لگتا ہے کہ این آر او نہیں دوں گا کی بات اپوزیشن کو چھیڑنے کے لیے شروع کر رکھی ہے حالانکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں کھلے عام کہہ رہی ہیں کہ کسی نے بھی این آر او نہیں مانگا اور وہ جب قیدیں اور سزائیں بھگت ہی رہے ہیں، دن رات ان کی حکومت کردار کشی اور الزام تراشی ہو رہی ہے تو اس حکومت سے اپوزیشن کیوں این آر او مانگے گی۔ اپوزیشن کے بقول وزیر اعظم تو خود این آر او کر کے آئے ہیں ان سے این آر او کون مانگے گا۔
اپوزیشن نے وزیر اعظم کے بار بارکے اظہار کہ این آر او نہیں دوں گا کے جواب میں قومی اسمبلی میں سلیکٹڈ، سلیکٹڈ کا شور مچانا شروع کر رکھا ہے جس سے تنگ آ کر وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں آنا کم کر رکھا ہے اور وہ اسی صورت میں کبھی قومی اسمبلی آتے ہیں جب انھیں سلیکٹڈ کا لفظ نہ سننا پڑے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن وزیر اعظم کو سننے کو تیار نہیں جس کے جواب میں منصوبہ بندی کے تحت بجٹ اجلاس میں وزیروں اور حکومتی ارکان نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بجٹ پر چار پانچ روز بولنے نہیں دیا۔ ایوان کی اس صورتحال کو پاکستان کے چیف جسٹس نے بھی محسوس کیا اور انھیں بھی بولنا پڑا کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کو تقریر نہیں کرنے دی جاتی جو تشویشناک بات ہے۔
موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے وہ مسلسل کہہ رہی ہے کہ حکومت سابق حکومتوں کے لیے گئے قرضے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور ملک کی معاشی حالت بہت خراب ہے جس کی ذمے دار سابقہ حکمران جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہے ، جنھوں نے کرپشن کر کے ملک کو اس حال پر پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو مجبوری میں مشکل اور نامقبول فیصلے کرنے پڑے اور ملک میں ڈالر مہنگا اور روپیہ سستا ہونے سے مہنگائی بڑھی ہے۔
حکومت گیارہ ماہ سے وہی پرانی باتیں دہرا رہی ہے جو سن سن کر عوام کے بھی کان پک گئے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پانچ سالوں میں کیوں نہیں ہوا ، جو کہا کرتی تھی کہ پیپلز پارٹی اس کے لیے مشکلات چھوڑ گئی تھی۔
اب تک ملک میں ہر آنے والی فوجی حکومت اور سیاسی حکومت یہی رونا روتی آئی ہے جو حقیقت کے برعکس ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گزشتہ سال نومبر میں سرکاری طور پر ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کر چکی تھی مگر موجودہ حکومت اس کا کریڈٹ بھی خود لیتی آ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مصنوعی طور پر ڈالر کوکنٹرول میں رکھا ہوا تھا ۔ حکومت بڑے دعوے کرکے جس اسد عمر کو وزیر خزانہ بنا کر لائی تھی تو انھوں نے اسحاق ڈار جیسی صلاحیت کیوں نہیں دکھائی کہ ڈالر کنٹرول میں رہتا۔ آٹھ ماہ بعد وزیر اعظم نے اپنے وزیر خزانہ کو ہٹا کر اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ کو اپنا مشیر خزانہ بنا کر خود ثابت کر دیا ہے کہ اسد عمر میں اسحاق ڈار جیسی صلاحیت نہیں تھی کہ جس نے ملک میں مہنگائی اور ڈالر پر بھی کنٹرول رکھا تھا۔
موجودہ حکومت کو 18 جولائی کو گیارہ ماہ مکمل ہو جائیں گے اور اس کی خراب کارکردگی کو بنیاد بنا کر اپوزیشن 25 جولائی کو ملک میں یوم سیاہ منائے گی۔ حکومت جانتی ہے کہ اس کی کارکردگی سے عوام پریشان، مہنگائی عروج پر، کاروبار بری طرح متاثر اور ملک میں بے یقینی ہے مگر 11 ماہ بعد بھی حکومت سابقہ حکومتوں کو ہی موجودہ صورتحال کا ذمے دار قرار دیتی آ رہی ہے جب کہ (ن) لیگی حکومت گزشتہ سال 31 مئی کو ختم ہو گئی تھی۔ حکومت کو چاہیے کہ اب ماضی کی حکومتوں پر الزامات کی سیاست ختم کرے اور اپنی کارکردگی دکھا کر عوام کو مطمئن کرے۔