اربنائزیشن اور ہماری قومی ذمے داری آخری حصہ
ہماری بنیادی تربیت جتنی اچھی ہوگی اتنے ہی ادارے اور حکومتیں انسانیت پرست ہونگے۔
اس ضمن میں سیکریٹری ریلوے کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کی دس ایکڑ زمین قابضین سے خالی کرا لی گئی ہے۔ فاضل بینچ کے متذکرہ نوٹس پرکمشنر کراچی افتخار شلوانی، ڈی ایس ریلوے مظہرعلی شاہ اور ڈی آئی جی ریلوے اظہرعلی نے سرکلر ریلوے کے ٹریک کا تفصیلی دورہ بھی کیا۔
معزز عدالتی فیصلے سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال سے ٹریک کے اطراف رہائشی مکانات کا فوری انہدام حکومت اور شہری اداروں کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے اور ہدف کی کامیاب تکمیل سندھ پولیس اور رینجرزکے تعاون کے بغیر نا ممکن ہے۔ ان کی غیر قانونی آباد کاری میں سندھ حکومت کے زیر انتظام کرپٹ شہری اور بلدیاتی ادارں کا ہی مکمل ہاتھ ہے۔ یہاں تک کہ ریلوے لائن تین فٹ نیچے دھنس چکی ہے۔
متاثرین کا پر زور مطالبہ ہے کہ انھیں ان کے مکانات کے مسمار ہونے کا غم نہیں مگر وہ اس صورت میں یہ جگہ چھوڑیں گے جب حکومت کی طرف سے ان کی رہائش کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سی پیک منصوبہ کے تحت 11 کھرب 20 ارب مالیت کا منافع بخش ہارٹ لائن پروجیکٹ ہے۔ سرکلر ٹریک کے کئی مقامات پر کراسنگ کے لیے نئے ریلوے ٹریکس بھی بچھائے گئے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پورے ٹریک پر 28 پھاٹک آتے ہیں ، یہ پھاٹک بند ہونے کی صورت میں لامحالہ ٹریفک بدترین جام ہونے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ ٹرین گزرنے سے پانچ منٹ قبل تو پھاٹک لازمی بند کرنا ہو گا۔
ان پانچ منٹوں میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطار لگ جانے کا بھی اندیشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب قابل فکر پہلو یہ ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی بحالی کے سلسلے میں کوئی جامع ، واضح ، موثر اور مستحکم پلان منظر عام پر نہیں آ سکا۔ ہاں البتہ سپریم کورٹ اور وفاق نے تو برسوں سے تعمیر شدہ پختہ مکانات کی توڑ پھوڑ بہت تیزی سے کر دی مگر ان متاثرین کی طرف سے پرزور احتجاجی مہم کے باوجود متبادل جگہ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
قابل غور یہ امر ہے کہ ان انہدام شدہ مکانات کو یوٹیلیٹی سروسز مثلا بجلی،گیس، پانی اور دیگر سہولیات اسی انداز سے فراہم کی گئی تھیں جس طرح رجسٹرڈ شدہ لیگل ریگولرائزڈ رہائشی مکانات کو قانونی حقوق حاصل ہیں۔ایک عرصہ سے یہ مسئلہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان سیاسی اکھاڑہ بنا رہا۔
KCR پاکستان ریلوے کا اثاثہ ہے جو وفاق کا حصہ ہے۔ مگر سندھ حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک عرصہ تک التوا کا شکار رہا۔ شہرکے اطراف گھومتا ہوا کراچی سرکلرکا یہ روٹ وزیر مینشن ، لیاری ، سائٹ ، اورنگ آباد، ناظم آباد، لیاقت آباد،گلشن اقبال ، اردوکالج ،گیلانی، ڈپو ہل سے ہوتا ہوا مین لائن ڈرگ روڈ سے جا ملتا ہے۔ اس پورے روٹ میں لگ بھگ 28 پھاٹک پڑتے تھے۔ لوکل اورکراچی سرکلر سے ریلوے کو ٹکٹوں کی مد میں خاطر خواہ آمدنی کا ذریعہ بھی تھا۔
یہاںہم آ پ کو بتاتے چلیں کہ کراچی سے اندرون ملک مین ریلوے ٹریک کے دونوں طرف سو سو فٹ جگہ خالی رکھنی پڑتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں ریلوے ٹریک کے ان حصوں پر لوگ قبضہ کر کے رہ رہے ہیں اور ان کی آبادی ریلوے ٹریک سے لگ بھگ دس یا بیس فٹ کے فاصلہ تک رہ گئی ہے۔کراچی سرکلر ٹریک آبادی سے کم از کم پچاس پچاس فٹ دور ہونا چاہیے جو یقینا ایک خطرناک صورتحال ظاہرکرتی ہے۔
یاد رہے کہ 2013ء میں جاپان کی عالمی کارپوریشن کے ایک ادارے (Japan International Corporation Agency - JICA) نے اپنی سروے رپورٹ میں اعادہ کیا تھا کہ اس پروجیکٹ کی ابتدا کے لیے وہا ں پر برسوں سے آباد تقریبا 4,653 خاندانوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کی ذمے داری چین کی ایک فرم کو سونپی گئی جو ان آباد خاندانوں کی عدم منتقلی کی وجہ سے اپنا کام شروع نہ کرسکے اور واپس اپنے ملک چلے گئے۔
ٹریفک کے دباؤکوکم کرنے کے لیے سابقہ حکومتوں نے اربوں روپے کی لاگت سے سگنل فری فلائی اوورز اور زیر زمین گزرگاہیں (انڈر پاس) کی تعمیرکا عملی تجربہ کیا جو سود مند ثابت نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجہ ہمارے اداروں کی ناقص پلاننگ اور اداروں میں کرپشن کا ہوناہے بہرحال لیاری ایکسپریس وے ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے ہر روز لاکھوں مکین مستفید ہو رہے ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ایک روڈ سے دوسری روڈ تک جانے کے لیے طویل فاصلہ پر محیط یو ٹرن کی وجہ سے تمام ارد گرد کا ٹریفک ایک جگہ جمع ہو جانے سے لوگوں کے وقت کا ضیاع اور دوسرے پٹرول کی مد میں آنے والی خطیر رقم کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ان یو ٹرن کا مقصد حادثات کی روک تھام تھی مگر اس میں قابل قدر کمی نظر نہ آ سکی۔
ان لمبے لمبے یوٹر ن پر اکثرگاڑیوں کا بے پناہ رش رہتا ہے، جس سے لوگوں کے مزاج میں چڑچڑا پن آگیا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے ہمسفرکو نقصان پہنچا کر اپنی منزل مقصود تک پہنچا جائے۔ ویسے بھی ہم گھر سے نکلتے وقت کے مارجن کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے بے شمار مسائل سے ہم خود ہی دوچار ہوجاتے ہیں۔آبادی میں جس تیزی سے گزشتہ دور میں اضافہ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے ، ہمارے پاس ان سے نبرد آزمائی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بس ہمارے اداروں اور حکومتوں کے نمایندوں کی خود غرضی اور دولت کی ہوس پرستی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان کی تکمیل کے لیے ایسے ہی پروجیکٹ پرکام کرتے ہیں جن میں اپنے جیبوں میں جانے کا زیادہ مارجن ہو۔ شہروں کے ابھرتے ہوئے مسائل پر ہم جب بھی بات کرتے ہیں تو لا محالہ حکومت اور شہری اداروں پر الزامات لگاتے ہوئے نہیں تھکتے۔
ہم صرف آئینے کا ایک رخ دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی کا اسی فیصد عام شہری اپنی بنیادی ذمے داریوں کو سمجھنے سے قاصر ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں عوام کو شہر میں رہنے کے آداب سکھائے جاتے ہوں ۔پوری کی پوری قوم جاہل اور سیوک سینس سے قطعا عاری ہے۔ حکومتوں اور ان شہری اداروں میں چونکہ الیکٹیڈ اور منتخب ہو کر لوگ ہم ہی میں سے جاتے ہیں کوئی با ہر سے امپورٹ نہیں کیے جاتے۔
ظاہر ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ ہماری بنیادی تربیت جتنی اچھی ہوگی اتنے ہی ادارے اور حکومتیں انسانیت پرست ہونگے۔ ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہم خود ٹھیک ہوجائیں گے یہ مسائل خود بخود ہی حل ہوتے چلے جائیں گے۔ ہماری سوچ بذا ت خود کرپٹ ہے۔ ہم اچھی باتیں سیکھنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ہمارے پاس بیکارکاموں کے لیے زیا دہ وقت ہے۔ ہم تنقید توکرتے ہیں لیکن اصلاح نہیں۔ آپ یورپ کی طرف کیوں دیکھتے ہو ؟ اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ا ن متذکرہ شہروں میں عوام کا سیوک سینس ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہم یا ہماری حکومتیں جتنے بھی پروجیکٹس پر کام کرلیں سب بیکار ہیں اس وقت تک جب ہم خود اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کر لیتے۔
یاد رکھیے یہ ملک اللہ کی طرف سے دیے ہوئے قدرتی وسائل سے مالا مال نعمت سے کم نہیںاور دوسرے ہمارے بزرگوں نے اس کے قیام کے لیے اپنے قیمتی لہو سے اس کی آبیاری کی ہے، اگر ہم ان نعمتوں کا کفران اور ناشکری کے مرتکب ہونگے تو سمجھ لیں ہمارا اور ہمارے آنے والی نسلوں کا مستقبل بھیانک ہوگا جیسا قرآن پاک میں سورہ رحمن میں ان نعمتوں کی قدرومنزلت کا واضح ذکرکیا گیا ہے۔ دنیا میںآج مسلم امہ کے مقابلے میں غیر مسلم قوموں کا عروج کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے زندگی گزارنے کے اصول وضوابط قرآن ناطق ہی سے اخذ کیے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہمارا گلشن ہے ہمارے ثقافت کی پہچان ہے، ہمیں اس کی گوشہ گوشہ سے پیار ہونا چاہیے اور خود کو بدل کر ایک اچھے معاشرے کی بنیاد ر کھنا ، ہمارا مطمع نظر ہونا چاہیے ۔ اچھا معاشرہ ہوگا اچھی اور معیاری ، عالمی مثالی اربنائیزیشن جنم دے گی۔ یہی ہمارا تعمیری پیغام ہے جہاں تک پہنچے ۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے۔
معزز عدالتی فیصلے سے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال سے ٹریک کے اطراف رہائشی مکانات کا فوری انہدام حکومت اور شہری اداروں کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے اور ہدف کی کامیاب تکمیل سندھ پولیس اور رینجرزکے تعاون کے بغیر نا ممکن ہے۔ ان کی غیر قانونی آباد کاری میں سندھ حکومت کے زیر انتظام کرپٹ شہری اور بلدیاتی ادارں کا ہی مکمل ہاتھ ہے۔ یہاں تک کہ ریلوے لائن تین فٹ نیچے دھنس چکی ہے۔
متاثرین کا پر زور مطالبہ ہے کہ انھیں ان کے مکانات کے مسمار ہونے کا غم نہیں مگر وہ اس صورت میں یہ جگہ چھوڑیں گے جب حکومت کی طرف سے ان کی رہائش کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سی پیک منصوبہ کے تحت 11 کھرب 20 ارب مالیت کا منافع بخش ہارٹ لائن پروجیکٹ ہے۔ سرکلر ٹریک کے کئی مقامات پر کراسنگ کے لیے نئے ریلوے ٹریکس بھی بچھائے گئے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پورے ٹریک پر 28 پھاٹک آتے ہیں ، یہ پھاٹک بند ہونے کی صورت میں لامحالہ ٹریفک بدترین جام ہونے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ ٹرین گزرنے سے پانچ منٹ قبل تو پھاٹک لازمی بند کرنا ہو گا۔
ان پانچ منٹوں میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطار لگ جانے کا بھی اندیشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب قابل فکر پہلو یہ ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی بحالی کے سلسلے میں کوئی جامع ، واضح ، موثر اور مستحکم پلان منظر عام پر نہیں آ سکا۔ ہاں البتہ سپریم کورٹ اور وفاق نے تو برسوں سے تعمیر شدہ پختہ مکانات کی توڑ پھوڑ بہت تیزی سے کر دی مگر ان متاثرین کی طرف سے پرزور احتجاجی مہم کے باوجود متبادل جگہ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
قابل غور یہ امر ہے کہ ان انہدام شدہ مکانات کو یوٹیلیٹی سروسز مثلا بجلی،گیس، پانی اور دیگر سہولیات اسی انداز سے فراہم کی گئی تھیں جس طرح رجسٹرڈ شدہ لیگل ریگولرائزڈ رہائشی مکانات کو قانونی حقوق حاصل ہیں۔ایک عرصہ سے یہ مسئلہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان سیاسی اکھاڑہ بنا رہا۔
KCR پاکستان ریلوے کا اثاثہ ہے جو وفاق کا حصہ ہے۔ مگر سندھ حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک عرصہ تک التوا کا شکار رہا۔ شہرکے اطراف گھومتا ہوا کراچی سرکلرکا یہ روٹ وزیر مینشن ، لیاری ، سائٹ ، اورنگ آباد، ناظم آباد، لیاقت آباد،گلشن اقبال ، اردوکالج ،گیلانی، ڈپو ہل سے ہوتا ہوا مین لائن ڈرگ روڈ سے جا ملتا ہے۔ اس پورے روٹ میں لگ بھگ 28 پھاٹک پڑتے تھے۔ لوکل اورکراچی سرکلر سے ریلوے کو ٹکٹوں کی مد میں خاطر خواہ آمدنی کا ذریعہ بھی تھا۔
یہاںہم آ پ کو بتاتے چلیں کہ کراچی سے اندرون ملک مین ریلوے ٹریک کے دونوں طرف سو سو فٹ جگہ خالی رکھنی پڑتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں ریلوے ٹریک کے ان حصوں پر لوگ قبضہ کر کے رہ رہے ہیں اور ان کی آبادی ریلوے ٹریک سے لگ بھگ دس یا بیس فٹ کے فاصلہ تک رہ گئی ہے۔کراچی سرکلر ٹریک آبادی سے کم از کم پچاس پچاس فٹ دور ہونا چاہیے جو یقینا ایک خطرناک صورتحال ظاہرکرتی ہے۔
یاد رہے کہ 2013ء میں جاپان کی عالمی کارپوریشن کے ایک ادارے (Japan International Corporation Agency - JICA) نے اپنی سروے رپورٹ میں اعادہ کیا تھا کہ اس پروجیکٹ کی ابتدا کے لیے وہا ں پر برسوں سے آباد تقریبا 4,653 خاندانوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل کی ذمے داری چین کی ایک فرم کو سونپی گئی جو ان آباد خاندانوں کی عدم منتقلی کی وجہ سے اپنا کام شروع نہ کرسکے اور واپس اپنے ملک چلے گئے۔
ٹریفک کے دباؤکوکم کرنے کے لیے سابقہ حکومتوں نے اربوں روپے کی لاگت سے سگنل فری فلائی اوورز اور زیر زمین گزرگاہیں (انڈر پاس) کی تعمیرکا عملی تجربہ کیا جو سود مند ثابت نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجہ ہمارے اداروں کی ناقص پلاننگ اور اداروں میں کرپشن کا ہوناہے بہرحال لیاری ایکسپریس وے ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے ہر روز لاکھوں مکین مستفید ہو رہے ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ایک روڈ سے دوسری روڈ تک جانے کے لیے طویل فاصلہ پر محیط یو ٹرن کی وجہ سے تمام ارد گرد کا ٹریفک ایک جگہ جمع ہو جانے سے لوگوں کے وقت کا ضیاع اور دوسرے پٹرول کی مد میں آنے والی خطیر رقم کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ان یو ٹرن کا مقصد حادثات کی روک تھام تھی مگر اس میں قابل قدر کمی نظر نہ آ سکی۔
ان لمبے لمبے یوٹر ن پر اکثرگاڑیوں کا بے پناہ رش رہتا ہے، جس سے لوگوں کے مزاج میں چڑچڑا پن آگیا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے ہمسفرکو نقصان پہنچا کر اپنی منزل مقصود تک پہنچا جائے۔ ویسے بھی ہم گھر سے نکلتے وقت کے مارجن کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے بے شمار مسائل سے ہم خود ہی دوچار ہوجاتے ہیں۔آبادی میں جس تیزی سے گزشتہ دور میں اضافہ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے ، ہمارے پاس ان سے نبرد آزمائی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بس ہمارے اداروں اور حکومتوں کے نمایندوں کی خود غرضی اور دولت کی ہوس پرستی کا یہ عالم ہے کہ وہ ان کی تکمیل کے لیے ایسے ہی پروجیکٹ پرکام کرتے ہیں جن میں اپنے جیبوں میں جانے کا زیادہ مارجن ہو۔ شہروں کے ابھرتے ہوئے مسائل پر ہم جب بھی بات کرتے ہیں تو لا محالہ حکومت اور شہری اداروں پر الزامات لگاتے ہوئے نہیں تھکتے۔
ہم صرف آئینے کا ایک رخ دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی کا اسی فیصد عام شہری اپنی بنیادی ذمے داریوں کو سمجھنے سے قاصر ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں عوام کو شہر میں رہنے کے آداب سکھائے جاتے ہوں ۔پوری کی پوری قوم جاہل اور سیوک سینس سے قطعا عاری ہے۔ حکومتوں اور ان شہری اداروں میں چونکہ الیکٹیڈ اور منتخب ہو کر لوگ ہم ہی میں سے جاتے ہیں کوئی با ہر سے امپورٹ نہیں کیے جاتے۔
ظاہر ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ ہماری بنیادی تربیت جتنی اچھی ہوگی اتنے ہی ادارے اور حکومتیں انسانیت پرست ہونگے۔ ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہم خود ٹھیک ہوجائیں گے یہ مسائل خود بخود ہی حل ہوتے چلے جائیں گے۔ ہماری سوچ بذا ت خود کرپٹ ہے۔ ہم اچھی باتیں سیکھنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ہمارے پاس بیکارکاموں کے لیے زیا دہ وقت ہے۔ ہم تنقید توکرتے ہیں لیکن اصلاح نہیں۔ آپ یورپ کی طرف کیوں دیکھتے ہو ؟ اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ا ن متذکرہ شہروں میں عوام کا سیوک سینس ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہم یا ہماری حکومتیں جتنے بھی پروجیکٹس پر کام کرلیں سب بیکار ہیں اس وقت تک جب ہم خود اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کر لیتے۔
یاد رکھیے یہ ملک اللہ کی طرف سے دیے ہوئے قدرتی وسائل سے مالا مال نعمت سے کم نہیںاور دوسرے ہمارے بزرگوں نے اس کے قیام کے لیے اپنے قیمتی لہو سے اس کی آبیاری کی ہے، اگر ہم ان نعمتوں کا کفران اور ناشکری کے مرتکب ہونگے تو سمجھ لیں ہمارا اور ہمارے آنے والی نسلوں کا مستقبل بھیانک ہوگا جیسا قرآن پاک میں سورہ رحمن میں ان نعمتوں کی قدرومنزلت کا واضح ذکرکیا گیا ہے۔ دنیا میںآج مسلم امہ کے مقابلے میں غیر مسلم قوموں کا عروج کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے زندگی گزارنے کے اصول وضوابط قرآن ناطق ہی سے اخذ کیے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ہمارا گلشن ہے ہمارے ثقافت کی پہچان ہے، ہمیں اس کی گوشہ گوشہ سے پیار ہونا چاہیے اور خود کو بدل کر ایک اچھے معاشرے کی بنیاد ر کھنا ، ہمارا مطمع نظر ہونا چاہیے ۔ اچھا معاشرہ ہوگا اچھی اور معیاری ، عالمی مثالی اربنائیزیشن جنم دے گی۔ یہی ہمارا تعمیری پیغام ہے جہاں تک پہنچے ۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے۔