روز چیخ رہے ہیں بلدیاتی الیکشن کرائیں کوئی مانتا ہی نہیں چیف جسٹس
تیل و گیس تلاش کرنے والی ہر کمپنی متعلقہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی پابند ہے مگرعمل نہیں ہوتا ،عدالت
چیف جسٹس افتخار محمد چودہدری نے کہا ہے عام آدمی کے مسائل اس وقت حل ہوں گے جب ملک میں بلدیاتی الیکشن ہوں گے اور نچلی سطح پر عوام کے نمائندے معاملات کی نگرانی کریں گے۔
ہم روز چیخ رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں تاکہ عام لوگوں کے مسائل حل ہو سکیں لیکن کوئی عمل کے لیے تیار نہیں، تیل وگیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تیل و گیس تلاش کرنے والی ہر کمپنی معاہدے کے تحت متعلقہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی پابند ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کے دوران وزارت پٹرولیم کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ملک بھرمیں تیل و گیس نکالنے والی کمپنیوں کی جانب سے متعلقہ علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کی مکمل تفصیلات طلب کر لیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ جن کمپنیوں نے رقوم خرچ کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں وہ آج ہی رقم جمع کرائیں۔ ڈی جی پٹرولیم سعداللہ شاہ نے بتایا کہ متعلقہ علاقوں میں فلاحی کام نہ کرنے کا الزام درست نہیں، کمپنیاں معاہدے کے مطابق تعلیم، صحت، پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیراوردیگر کاموں کیلئے فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ ضلع سانگھڑمیں4کمپنیوں کو9لائسنس جاری کیے گئے اور ہرکمپنی سالانہ 30 ہزار ڈالر دینے کی پابند ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ یہ رقم سالانہ ڈھائی کروڑ روپے بنتی ہے، اس کوصحیح طور پرخرچ کیاجائے توسانگھڑ کے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے صرف ایک ضلع کے فنڈز کاجائزہ نہیں لینا بلکہ ملک بھر میں فنڈز کے موثر استعمال کویقینی بنایاجائے گا، کس ضلع میں کتنی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، کس ضلع کوکتنے فنڈز ملے اور کونسا کونسا فلاحی منصوبہ مکمل ہوا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہر جگہ بگاڑ ہے، کوئی نہیں سوچتاکہ سدھا رلانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے، عدالت پوچھ رہی ہے کہ عام لوگوں کے حقوق غصب کیوں ہورہے ہیں؟ نوٹس نہ لیتے تویہ رقم ویسے ہی پڑی رہتی، جہاں ہاتھ لگاتے ہیں بے پروائی ہی نظرآتی ہے۔ سماعت آج پھر ہوگی۔
ہم روز چیخ رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں تاکہ عام لوگوں کے مسائل حل ہو سکیں لیکن کوئی عمل کے لیے تیار نہیں، تیل وگیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تیل و گیس تلاش کرنے والی ہر کمپنی معاہدے کے تحت متعلقہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی پابند ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کے دوران وزارت پٹرولیم کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ملک بھرمیں تیل و گیس نکالنے والی کمپنیوں کی جانب سے متعلقہ علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کی مکمل تفصیلات طلب کر لیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ جن کمپنیوں نے رقوم خرچ کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں وہ آج ہی رقم جمع کرائیں۔ ڈی جی پٹرولیم سعداللہ شاہ نے بتایا کہ متعلقہ علاقوں میں فلاحی کام نہ کرنے کا الزام درست نہیں، کمپنیاں معاہدے کے مطابق تعلیم، صحت، پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیراوردیگر کاموں کیلئے فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ ضلع سانگھڑمیں4کمپنیوں کو9لائسنس جاری کیے گئے اور ہرکمپنی سالانہ 30 ہزار ڈالر دینے کی پابند ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ یہ رقم سالانہ ڈھائی کروڑ روپے بنتی ہے، اس کوصحیح طور پرخرچ کیاجائے توسانگھڑ کے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے صرف ایک ضلع کے فنڈز کاجائزہ نہیں لینا بلکہ ملک بھر میں فنڈز کے موثر استعمال کویقینی بنایاجائے گا، کس ضلع میں کتنی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، کس ضلع کوکتنے فنڈز ملے اور کونسا کونسا فلاحی منصوبہ مکمل ہوا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہر جگہ بگاڑ ہے، کوئی نہیں سوچتاکہ سدھا رلانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے، عدالت پوچھ رہی ہے کہ عام لوگوں کے حقوق غصب کیوں ہورہے ہیں؟ نوٹس نہ لیتے تویہ رقم ویسے ہی پڑی رہتی، جہاں ہاتھ لگاتے ہیں بے پروائی ہی نظرآتی ہے۔ سماعت آج پھر ہوگی۔