حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالا جائے وزیر قانون
جب تک ہائی کورٹ شخصانے کا کوئی فیصلہ نہیں کرتی جج کے خلاف سزا جزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا، فروغ نسیم
وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ حکومت قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے جب کہ اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالا جائے۔
اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار کا خط ملا ہے جس میں ارشدملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی ساتھ منسلک ہیں، خط میں ارشدملک کو سبکدوش کرنے کی بات کی گئی ہے جس کے بعد وزارت قانون نے جج ارشدملک کو کسی بھی قسم کے کام سے روک دیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ بیان حلفی کی رو سے جج صاحب نے فیصلہ میرٹ پر کیا، جج نے اپنی دانست میں ایک کیس میں بری، دوسرے میں سزا سنائی، بیان حلفی میں جج نے کہا کہ انہیں رشوت کی پیشکش ہوئی، جج کو رشوت یا دھمکی دینے پرسزائیں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے، نہ تو کسی کو رعایت دے رہے ہیں اور نہ ہی زیادتی کررہےہیں تاہم حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے گی عدلیہ پر دباؤ ڈالا جائے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ نیب قانون میں جج کو دھمکانے پر بھی سزا موجود ہے، جب تک ہائی کورٹ شاخسانے کا کوئی فیصلہ نہیں کرتی سزا جزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا تاہم دیکھنا پڑے گا کہ کیا فیصلہ دباؤ میں دیا گیا کہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو دباؤ اور ٹمپر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر ثابت ہوا کہ جج کو دھمکیاں دی گئیں تو سیکشن 31 موجود ہے۔
معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ بیان حلفی کے بعد تمام باتیں عوام کے سامنے رکھنا ضروری تھا، بیان حلفی صرف پاناما کیس کے مافیا کی طرف اشارہ کرتا ہے، جج کو کام سے روکنے پر ان کے دیے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بیان حلفی میں کہا گیا کہ جج صاحب کی تقرری کرائی گئی، بیان حلفی کے مطابق جج ارشد ملک کو 10 کروڑ کی پیشکش ہوئی۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پہلے یہ کیس جج بشیر کی عدالت میں تھا جسے منتقل کرایا گیا، مرضی کا فیصلہ لینے کے لیے کیس جج ارشد ملک کی عدالت میں منتقل کرایا گیا، بیان حلفی کے مطابق جج صاحب کو ملتان میں بنی ایک ویڈیو دکھائی گئی اور مرضی کا فیصلہ نہ دینے پر ویڈیو لیک کرنے کی دھمکی دی گئی، بیان حلفی کے مطابق جج کو کہا گیا کہ وہ استعفیٰ دیں اور کہیں فیصلہ دباؤ میں دیا۔
اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار کا خط ملا ہے جس میں ارشدملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی ساتھ منسلک ہیں، خط میں ارشدملک کو سبکدوش کرنے کی بات کی گئی ہے جس کے بعد وزارت قانون نے جج ارشدملک کو کسی بھی قسم کے کام سے روک دیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ بیان حلفی کی رو سے جج صاحب نے فیصلہ میرٹ پر کیا، جج نے اپنی دانست میں ایک کیس میں بری، دوسرے میں سزا سنائی، بیان حلفی میں جج نے کہا کہ انہیں رشوت کی پیشکش ہوئی، جج کو رشوت یا دھمکی دینے پرسزائیں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے، نہ تو کسی کو رعایت دے رہے ہیں اور نہ ہی زیادتی کررہےہیں تاہم حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے گی عدلیہ پر دباؤ ڈالا جائے۔
وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ نیب قانون میں جج کو دھمکانے پر بھی سزا موجود ہے، جب تک ہائی کورٹ شاخسانے کا کوئی فیصلہ نہیں کرتی سزا جزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا تاہم دیکھنا پڑے گا کہ کیا فیصلہ دباؤ میں دیا گیا کہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو دباؤ اور ٹمپر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر ثابت ہوا کہ جج کو دھمکیاں دی گئیں تو سیکشن 31 موجود ہے۔
معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ بیان حلفی کے بعد تمام باتیں عوام کے سامنے رکھنا ضروری تھا، بیان حلفی صرف پاناما کیس کے مافیا کی طرف اشارہ کرتا ہے، جج کو کام سے روکنے پر ان کے دیے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بیان حلفی میں کہا گیا کہ جج صاحب کی تقرری کرائی گئی، بیان حلفی کے مطابق جج ارشد ملک کو 10 کروڑ کی پیشکش ہوئی۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ پہلے یہ کیس جج بشیر کی عدالت میں تھا جسے منتقل کرایا گیا، مرضی کا فیصلہ لینے کے لیے کیس جج ارشد ملک کی عدالت میں منتقل کرایا گیا، بیان حلفی کے مطابق جج صاحب کو ملتان میں بنی ایک ویڈیو دکھائی گئی اور مرضی کا فیصلہ نہ دینے پر ویڈیو لیک کرنے کی دھمکی دی گئی، بیان حلفی کے مطابق جج کو کہا گیا کہ وہ استعفیٰ دیں اور کہیں فیصلہ دباؤ میں دیا۔