عظیم کرکٹر…جو کبھی عالمی چیمپئن نہ بن سکے
دنیائے کرکٹ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کے پَنّوں پر ایسے نام ثبت ہیں جو کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہیں
کرکٹ کی معروف کہاوت ''Cricket By Chance'' کی صداقت صرف کھیل ہی نہیں بلکہ کھلاڑیوں سے بھی عیاں ہے۔ دنیائے کرکٹ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کے پَنّوں پر ایسے ایسے نام ثبت ہیں جو کروڑوں دلوں کی دھڑکن سمجھے جاتے ہیں۔
یہ عظیم کھلاڑی نہ ہوتے تو شائد کرکٹ کو وہ عروج نہ ملتا، جو آج اسے حاصل ہے۔ لیکن ان کھلاڑیوں میں سے چند ایسے بھی ہیں، جو تمام تر کامیابیوں اور صلاحیتوں کے باوجود آئی سی سی ورلڈ کپ ٹرافی نہ اٹھا سکے۔ یہاں ہم آپ کو 10ایسے ہی عظیم کھلاڑیوں سے ملوا رہے ہیں، جو اپنے اپنے وقت میں کرکٹ پر چھائے رہے، لیکن وہ کبھی عالمی چیمپئن نہ بن سکے۔
گراہم گوچ
آئی سی سی ورلڈ کپ ٹرافی سے محروم عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام ماضی کے معروف برطانوی کرکٹر گراہم گوچ کا ہے، جو نہ صرف 3 بار ورلڈ کپ کا فائنل کھیل چکے ہیں بلکہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں تو وہ اپنی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، لیکن قسمت کی دیوی شاہینوں پر مہربان ہوئی اور پاکستان پہلی اور آج تک آخری بار ورلڈ کپ چیمپئن بن گیا۔
1987ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں تو گراہم گوچ نے وہ اننگ کھیلی جو آج تک بھلائی نہ جا سکی، ممبئی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں ان کی زبردست سنیچری کی وجہ سے انگلینڈ نے بھارت کو شکست دی۔ دائیں بازو سے کھیلنے والے عظیم بلے باز نے انٹرنیشنل ون ڈے کرکٹ کا آغاز 26 اگست 1976ء کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جانے والے میچ سے کیا اور ان کا یہ سفر 10 جنوری 1995ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے میچ کے بعد اختتام پذیر ہوا، تاہم ون ڈے سے ایک سال قبل یعنی 10 جولائی 1975ء کو انہیں ٹیسٹ کیپ مل چکی تھی۔ بحیثیت بلے باز لسٹ اے میچز میں 22 ہزار 211 رنز بنا کر گراہم گوچ نے وہ ریکارڈ بنایا، جو آج تک قائم ہے۔
این بوتھم
سر این بوتھم کرکٹ کے وہ عظیم آل راؤنڈر ہیں، جنہیں عالمی سطح پر پذیرائی نصیب ہوئی، لیکن تمام تر کامیابیوں کے باوجود ورلڈ کپ نہ جیتنے والی محرومی ان کا زندگی بھر پیچھا کرتی رہے گی۔ سر این بوتھم کو اپنے کیرئیر میں دنیائے کرکٹ پر بادشاہت کا دو بار موقع ملا، لیکن بدقسمتی سے وہ خالی ہاتھ لوٹ آئے، یعنی انہوں نے انگلینڈ کی جانب سے دو بار آئی سی سی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا، لیکن آل راؤنڈ پرفارمنس کے باوجود انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
1992ء کے ورلڈ کپ میں تو ان کا کیرئیر عروج پر تھا، جہاں اس ایڈیشن میں انہوں نے ایک طرف بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 16 وکٹیں حاصل کیں وہاں دوسری طرف انہوں نے اپنی ٹیم کے لئے رنز کے انبار لگا دیئے، لیکن ان کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔ 16سال پر محیط ون ڈے کیرئیر میں سر این بوتھم نے 116 میچز کھیلے، جن میں انہوں نے 28.54 کی اوسط سے 145 وکٹیں اور 2ہزار 113 رنز بنائے۔
وقار یونس
وقار یونس دنیائے کرکٹ کے وہ عظیم فاسٹ بولر کہلائے ہیں، جن کے بغیر شائد فاسٹ بولنگ کا شعبہ ہی ادھورا تصور کیا جائے۔ بوریوالا ایکسپریس ریورس سوئنگ کے ماہر تھے، جسے کسی بھی بلے باز کی جانب سے کھیلنا ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ بہترین فاسٹ بولر کی بدقسمتی دیکھیں کہ 1992ء کے ورلڈ کپ سے قبل ہر سُو ان کے چرچے تھے، اور پاکستان نے وہ ورلڈ کپ جیت بھی لیا، لیکن وقار یونس زخمی ہونے کے باعث ورلڈ سکواڈ میں شمولیت کے بعد باہر ہو گئے۔
تاہم 1996ء، 1999ء اور 2003ء کے ورلڈ کپ میں انہوں نے شرکت کی، بلکہ 2003ء کے ورلڈ کپ میں تو انہوں نے اپنی ٹیم کی قیادت کا فریضہ بھی سرانجام دیا لیکن پاکستان پھر آج تک ورلڈ چیمپئن نہ بن سکا۔ عظیم فاسٹ بولر نے ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر کے دوران 13 بار ایک میچ میں 5 سے زائد وکٹیں لیں، یوں انہیں کرکٹ کے اس شعبہ کا بے تاج بادشاہ کہنا بھی نامناسب نہ ہو گا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی ان کے ہاتھ تک نہ پہنچ سکی۔
سورو گنگولی
سابق معروف بھارتی کرکٹر سورو گنگولی نے 1999ء سے 2007ء تک مسلسل تین ورلڈ کپ کھیلے اور 2003ء کے ورلڈ کپ میں تو بھارت فائنل میں بھی جا پہنچا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی ان کی پہنچ سے دور ہی رہی۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں جارحانہ مزاج کے حامل بلے باز کی پرفارمنس اپنے عروج کو چھو رہی تھی، اس ٹورنامنٹ کے دوران انہوں نے 3 بار سنیچری سکور کی۔
جس سے بھارت کی جیت کو یقینی تصور کیا جانے لگا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ گنگولی کے بارے میں بھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بحیثیت کپتان انہوں نے ٹیم انڈیا کو نئی جدتوں سے روشناس کروایا۔ معروف بلے باز نے ورلڈ کپ کی 22 اننگز میں 55.88کی اوسط سے 1006 سکور کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ عظیم کھلاڑی نے مجموعی طور پر 311 ون ڈے انٹرنیشنل میں 41.02کی اوسط سے 11ہزار 363 رنز بنا کر دنیائے کرکٹ میں نئے ریکارڈ قائم کئے۔
برائن لارا
ویسٹ انڈین عظیم بلے باز برائن لارا نے مقبولیت کی ان چوٹیوں کو چھوا، جہاں شائد آج تک کوئی ملکی کھلاڑی نہ پہنچ سکا۔ پورٹ آف سپین کے اس شہزادے نے ٹیسٹ کرکٹ میں جہاں 400کی اننگ سمیت متعدد ریکارڈ قائم کئے وہاں ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی اس دور میں ان کا کوئی ثانی تصور نہیں کیا جاتا تھا، اُس دور میں لارا نے 10ہزار رنز کا ہندسہ عبور کیا، جب ایسا خال خال ہی ممکن ہوتا تھا۔
سٹائلش بلے باز نے اپنی ٹیم کے لئے 299 ون ڈے انٹرنیشنل میں 40.48 کی اوسط سے 10ہزار 405 رنز کا انبار لگایا، لیکن ان کی تمام تر کامیابیوں اور مقبولیت کے باوجود وہ ورلڈ کپ ٹرافی کو نہ چھو سکے، وہ 5 بار ویسٹ انڈیز کی جانب سے ورلڈ الیون کا حصہ بنے، مگر اس دوران ویسٹ انڈیز عالمی چیمپئن نہ بن سکا۔
لانس کلوزنر
جنوبی افریقہ کے بہترین آل راؤنڈر لانس کلوزنر نے جب تک کرکٹ کھیلی، وہ باؤلرز کے لئے ایک دہشت کی علامت تھے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں ان کا سفر 1996ء میں شروع اور 2004ء میں اختتام پذیر ہوا، لیکن اس دوران انہوں نے 171 ون ڈے میچز میں 41.10 کی اوسط سے 3ہزار 576 رنز بنائے جبکہ 29 کی اوسط سے 192 وکٹیں حاصل کیں۔ جنگی سپاہی کہلانے والے اس عظیم کھلاڑی نے 1999ء میں اپنا پہلا ورلڈ کپ کھیلا، جس میں ان کی شاندار پرفارمنس کے باعث جنوبی افریقہ سیمی فائنل تک پہنچ گیا، تاہم اس سے آگے وہ نہ جا سکے، اس ورلڈ کپ میں کلوزنر کو مین آف ٹورنامنٹ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 2003ء میں کلوزنر نے اپنا دوسرا اور آخری ورلڈ کپ کھیلا، لیکن اس میں بھی محرومی ان کا مقدر بنی۔
جیک کیلس
جیک کیلس صرف جنوبی افریقہ نہیں بلکہ پوری دنیائے کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈر قرار دیئے جاتے ہیں۔ 1996ء میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے عظیم کھلاڑی نے 328 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے، جن میں انہوں نے 44.36 کی اوسط سے 11ہزار579 رنز بنائے جبکہ 31 کی اوسط سے 273 وکٹیں لے کر خود کو اپنے دور کا بہترین آل راؤنڈر ثابت کیا۔ 17سنیچریوں اور 86 ففٹیز کے ساتھ 10ہزار رنز اور 250 سے زائد وکٹیں بہترین آل راؤنڈر کو وہ اعزاز ہے۔
جو معروف لنکن کھلاڑی جے سوریا کے علاوہ ابھی تک کسی اور کے حصے میں نہ آ سکا، تاہم جیک کیلس کرکٹ کے میدان میں اس اعتبار سے جے سوریا کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہوں نے جے سوریا سے 117 میچز کم کھیلے ہیں۔ان تمام ترکامیابیوں اور 18 سالہ طویل کیرئیر کے باوجود جیک کیلس ان بدقسمت کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جو متعدد بار ورلڈ الیون کا حصہ بننے کے باوجود اپنی ٹیم کو عالمی چیمپئن بنتا نہ دیکھ سکے۔
کمار سنگاکارا
عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے عظیم سری لنکن بلے باز کمار سنگاکارا نے ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر کی شروعات جولائی 2000ء میں کی اور مارچ 2015ء یعنی 15 سال تک وہ بلے بازی کے شعبہ پر چھائے رہے۔ ایک روزہ میچز میں رنز بنانے کی مشین تصور کئے جانے والے عظیم بلے باز کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کیرئیر کے اختتام پر کمار سے زیادہ رنز صرف ایک بلے باز لٹل ماسٹر ٹنڈولکر کے تھے، باقی پوری دنیائے کرکٹ ان سے پیچھے تھی۔ 2003ء کے ورلڈ کپ سے 2015ء تک وکٹ کیپر بلے باز سری لنکن ٹیم کا حصہ رہے۔
جس دوران ان کی بہترین پرفارمنس کے باعث دو بار سری لنکا فائنل تک بھی پہنچا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانا شائد کمارا سنگاکارا کی قسمت میں نہیں لکھا تھا۔ ان ورلڈ کپ کے دوران کمارسنگاکارا نے 50سے زائد کی اوسط سے سکور کئے، لیکن ان کی تمام تر محنتیں رائیگاں گئیں۔ مجموعی طور پر 404 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلنے والے بہترین بلے باز نے تقریباً 42کی اوسط سے 14ہزار 234 رنز بنائے۔
اے بی ڈی ویلیئرز
پروٹیز بلے باز اے بی ڈی ویلیئرز کرکٹ کی دنیا کا وہ چمکتا ستارہ ہیں، جن کے بلے نے وہ کارنامے سرانجام دیئے، جن کا کوئی بھی بلے باز خواب دیکھتا ہے۔ شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کرنے والے اے بی نے اپنے پورے کیرئیر میں 53.50کی اوسط اور 100کے سٹرائیک ریٹ سے صرف 228 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں 9 ہزار 577 رنز بنائے۔ اے بی نے ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ میں وہ ریکارڈ قائم کیا، جسے آج تک کوئی نہ توڑ سکا، جارح مزاج بلے باز نے 2015ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے ایک میچ میں صرف 31 گیندوں پر سنیچری سکور کر دی۔
اے بی نے متعدد بار ون مین شو اننگز کھیلیں، جن کی بدولت جنوبی افریقہ کو کامیابیاں حاصل ہوئیں، لیکن ان تمام تر صلاحیتوں اور کامیابیوں کے باوجود اے بی ڈی ویلیئرز بھی ان بدقسمت عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہیں، جو ورلڈ چیمپئن نہ بن سکے۔ عظیم بلے باز نے 2005 میں ون ڈے کیرئیر کا آغاز کرتے ہوئے 2018ء میں بھارت کے خلاف اپنا آخری میچ کھیلا، جس دوران انہوں نے تین ورلڈ کپ (2007،2011 ء اور 2015ء) کھیلے، جن میں 2015ء کے ورلڈ کپ میں تو وہ اپنی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔
شاہد آفریدی
بوم بوم آفریدی پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے وہ سٹار ہیں، جن کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ وہ خوش قسمت کھلاڑی ہیں، جن کے طویل المدت کیرئیر میں کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا، جب ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہو۔ آفریدی نے پاکستانی ٹیم میں بلے بازی کے شعبہ کو نئی جدتوں سے روشناس کروایا۔ 1996ء میں 37گیندوں پر ان کی تیز رفتار سنیچری کا ریکارڈ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک قائم رہا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آفریدی کی وجہ سے عالمی سطح پر بلے بازی کا رجحان ہی بدل گیا۔ آج بھی سب سے طویل چھکے (158میٹر) کا ریکارڈ آفریدی کے پاس ہے۔
بلے بازی کیساتھ آفریدی ایک بہترین لیگ اسپنر تھے۔ ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر پر نظر دوڑائی جائے تو آفریدی نے 398 میچز میں 114.53 کے سٹرائیک ریٹ کیساتھ 8 ہزار سے زائد رنز بنائے جبکہ 395وکٹیں حاصل کیں، یوں عظیم کھلاڑی پاکستانی کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈر قرار پاتے ہیں، تاہم مسلسل 5 ورلڈ کپ کھیلنے کے باوجود وہ عالمی ٹرافی کو نہ پا سکے۔
یہ عظیم کھلاڑی نہ ہوتے تو شائد کرکٹ کو وہ عروج نہ ملتا، جو آج اسے حاصل ہے۔ لیکن ان کھلاڑیوں میں سے چند ایسے بھی ہیں، جو تمام تر کامیابیوں اور صلاحیتوں کے باوجود آئی سی سی ورلڈ کپ ٹرافی نہ اٹھا سکے۔ یہاں ہم آپ کو 10ایسے ہی عظیم کھلاڑیوں سے ملوا رہے ہیں، جو اپنے اپنے وقت میں کرکٹ پر چھائے رہے، لیکن وہ کبھی عالمی چیمپئن نہ بن سکے۔
گراہم گوچ
آئی سی سی ورلڈ کپ ٹرافی سے محروم عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام ماضی کے معروف برطانوی کرکٹر گراہم گوچ کا ہے، جو نہ صرف 3 بار ورلڈ کپ کا فائنل کھیل چکے ہیں بلکہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں تو وہ اپنی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، لیکن قسمت کی دیوی شاہینوں پر مہربان ہوئی اور پاکستان پہلی اور آج تک آخری بار ورلڈ کپ چیمپئن بن گیا۔
1987ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں تو گراہم گوچ نے وہ اننگ کھیلی جو آج تک بھلائی نہ جا سکی، ممبئی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں ان کی زبردست سنیچری کی وجہ سے انگلینڈ نے بھارت کو شکست دی۔ دائیں بازو سے کھیلنے والے عظیم بلے باز نے انٹرنیشنل ون ڈے کرکٹ کا آغاز 26 اگست 1976ء کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جانے والے میچ سے کیا اور ان کا یہ سفر 10 جنوری 1995ء میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے جانے والے میچ کے بعد اختتام پذیر ہوا، تاہم ون ڈے سے ایک سال قبل یعنی 10 جولائی 1975ء کو انہیں ٹیسٹ کیپ مل چکی تھی۔ بحیثیت بلے باز لسٹ اے میچز میں 22 ہزار 211 رنز بنا کر گراہم گوچ نے وہ ریکارڈ بنایا، جو آج تک قائم ہے۔
این بوتھم
سر این بوتھم کرکٹ کے وہ عظیم آل راؤنڈر ہیں، جنہیں عالمی سطح پر پذیرائی نصیب ہوئی، لیکن تمام تر کامیابیوں کے باوجود ورلڈ کپ نہ جیتنے والی محرومی ان کا زندگی بھر پیچھا کرتی رہے گی۔ سر این بوتھم کو اپنے کیرئیر میں دنیائے کرکٹ پر بادشاہت کا دو بار موقع ملا، لیکن بدقسمتی سے وہ خالی ہاتھ لوٹ آئے، یعنی انہوں نے انگلینڈ کی جانب سے دو بار آئی سی سی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا، لیکن آل راؤنڈ پرفارمنس کے باوجود انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
1992ء کے ورلڈ کپ میں تو ان کا کیرئیر عروج پر تھا، جہاں اس ایڈیشن میں انہوں نے ایک طرف بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 16 وکٹیں حاصل کیں وہاں دوسری طرف انہوں نے اپنی ٹیم کے لئے رنز کے انبار لگا دیئے، لیکن ان کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔ 16سال پر محیط ون ڈے کیرئیر میں سر این بوتھم نے 116 میچز کھیلے، جن میں انہوں نے 28.54 کی اوسط سے 145 وکٹیں اور 2ہزار 113 رنز بنائے۔
وقار یونس
وقار یونس دنیائے کرکٹ کے وہ عظیم فاسٹ بولر کہلائے ہیں، جن کے بغیر شائد فاسٹ بولنگ کا شعبہ ہی ادھورا تصور کیا جائے۔ بوریوالا ایکسپریس ریورس سوئنگ کے ماہر تھے، جسے کسی بھی بلے باز کی جانب سے کھیلنا ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ بہترین فاسٹ بولر کی بدقسمتی دیکھیں کہ 1992ء کے ورلڈ کپ سے قبل ہر سُو ان کے چرچے تھے، اور پاکستان نے وہ ورلڈ کپ جیت بھی لیا، لیکن وقار یونس زخمی ہونے کے باعث ورلڈ سکواڈ میں شمولیت کے بعد باہر ہو گئے۔
تاہم 1996ء، 1999ء اور 2003ء کے ورلڈ کپ میں انہوں نے شرکت کی، بلکہ 2003ء کے ورلڈ کپ میں تو انہوں نے اپنی ٹیم کی قیادت کا فریضہ بھی سرانجام دیا لیکن پاکستان پھر آج تک ورلڈ چیمپئن نہ بن سکا۔ عظیم فاسٹ بولر نے ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر کے دوران 13 بار ایک میچ میں 5 سے زائد وکٹیں لیں، یوں انہیں کرکٹ کے اس شعبہ کا بے تاج بادشاہ کہنا بھی نامناسب نہ ہو گا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی ان کے ہاتھ تک نہ پہنچ سکی۔
سورو گنگولی
سابق معروف بھارتی کرکٹر سورو گنگولی نے 1999ء سے 2007ء تک مسلسل تین ورلڈ کپ کھیلے اور 2003ء کے ورلڈ کپ میں تو بھارت فائنل میں بھی جا پہنچا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی ان کی پہنچ سے دور ہی رہی۔ 2003ء کے ورلڈ کپ میں جارحانہ مزاج کے حامل بلے باز کی پرفارمنس اپنے عروج کو چھو رہی تھی، اس ٹورنامنٹ کے دوران انہوں نے 3 بار سنیچری سکور کی۔
جس سے بھارت کی جیت کو یقینی تصور کیا جانے لگا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ گنگولی کے بارے میں بھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بحیثیت کپتان انہوں نے ٹیم انڈیا کو نئی جدتوں سے روشناس کروایا۔ معروف بلے باز نے ورلڈ کپ کی 22 اننگز میں 55.88کی اوسط سے 1006 سکور کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ عظیم کھلاڑی نے مجموعی طور پر 311 ون ڈے انٹرنیشنل میں 41.02کی اوسط سے 11ہزار 363 رنز بنا کر دنیائے کرکٹ میں نئے ریکارڈ قائم کئے۔
برائن لارا
ویسٹ انڈین عظیم بلے باز برائن لارا نے مقبولیت کی ان چوٹیوں کو چھوا، جہاں شائد آج تک کوئی ملکی کھلاڑی نہ پہنچ سکا۔ پورٹ آف سپین کے اس شہزادے نے ٹیسٹ کرکٹ میں جہاں 400کی اننگ سمیت متعدد ریکارڈ قائم کئے وہاں ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی اس دور میں ان کا کوئی ثانی تصور نہیں کیا جاتا تھا، اُس دور میں لارا نے 10ہزار رنز کا ہندسہ عبور کیا، جب ایسا خال خال ہی ممکن ہوتا تھا۔
سٹائلش بلے باز نے اپنی ٹیم کے لئے 299 ون ڈے انٹرنیشنل میں 40.48 کی اوسط سے 10ہزار 405 رنز کا انبار لگایا، لیکن ان کی تمام تر کامیابیوں اور مقبولیت کے باوجود وہ ورلڈ کپ ٹرافی کو نہ چھو سکے، وہ 5 بار ویسٹ انڈیز کی جانب سے ورلڈ الیون کا حصہ بنے، مگر اس دوران ویسٹ انڈیز عالمی چیمپئن نہ بن سکا۔
لانس کلوزنر
جنوبی افریقہ کے بہترین آل راؤنڈر لانس کلوزنر نے جب تک کرکٹ کھیلی، وہ باؤلرز کے لئے ایک دہشت کی علامت تھے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں ان کا سفر 1996ء میں شروع اور 2004ء میں اختتام پذیر ہوا، لیکن اس دوران انہوں نے 171 ون ڈے میچز میں 41.10 کی اوسط سے 3ہزار 576 رنز بنائے جبکہ 29 کی اوسط سے 192 وکٹیں حاصل کیں۔ جنگی سپاہی کہلانے والے اس عظیم کھلاڑی نے 1999ء میں اپنا پہلا ورلڈ کپ کھیلا، جس میں ان کی شاندار پرفارمنس کے باعث جنوبی افریقہ سیمی فائنل تک پہنچ گیا، تاہم اس سے آگے وہ نہ جا سکے، اس ورلڈ کپ میں کلوزنر کو مین آف ٹورنامنٹ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ 2003ء میں کلوزنر نے اپنا دوسرا اور آخری ورلڈ کپ کھیلا، لیکن اس میں بھی محرومی ان کا مقدر بنی۔
جیک کیلس
جیک کیلس صرف جنوبی افریقہ نہیں بلکہ پوری دنیائے کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈر قرار دیئے جاتے ہیں۔ 1996ء میں اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے عظیم کھلاڑی نے 328 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلے، جن میں انہوں نے 44.36 کی اوسط سے 11ہزار579 رنز بنائے جبکہ 31 کی اوسط سے 273 وکٹیں لے کر خود کو اپنے دور کا بہترین آل راؤنڈر ثابت کیا۔ 17سنیچریوں اور 86 ففٹیز کے ساتھ 10ہزار رنز اور 250 سے زائد وکٹیں بہترین آل راؤنڈر کو وہ اعزاز ہے۔
جو معروف لنکن کھلاڑی جے سوریا کے علاوہ ابھی تک کسی اور کے حصے میں نہ آ سکا، تاہم جیک کیلس کرکٹ کے میدان میں اس اعتبار سے جے سوریا کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہوں نے جے سوریا سے 117 میچز کم کھیلے ہیں۔ان تمام ترکامیابیوں اور 18 سالہ طویل کیرئیر کے باوجود جیک کیلس ان بدقسمت کھلاڑیوں میں شامل ہیں، جو متعدد بار ورلڈ الیون کا حصہ بننے کے باوجود اپنی ٹیم کو عالمی چیمپئن بنتا نہ دیکھ سکے۔
کمار سنگاکارا
عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے عظیم سری لنکن بلے باز کمار سنگاکارا نے ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر کی شروعات جولائی 2000ء میں کی اور مارچ 2015ء یعنی 15 سال تک وہ بلے بازی کے شعبہ پر چھائے رہے۔ ایک روزہ میچز میں رنز بنانے کی مشین تصور کئے جانے والے عظیم بلے باز کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کیرئیر کے اختتام پر کمار سے زیادہ رنز صرف ایک بلے باز لٹل ماسٹر ٹنڈولکر کے تھے، باقی پوری دنیائے کرکٹ ان سے پیچھے تھی۔ 2003ء کے ورلڈ کپ سے 2015ء تک وکٹ کیپر بلے باز سری لنکن ٹیم کا حصہ رہے۔
جس دوران ان کی بہترین پرفارمنس کے باعث دو بار سری لنکا فائنل تک بھی پہنچا، لیکن ورلڈ کپ ٹرافی اٹھانا شائد کمارا سنگاکارا کی قسمت میں نہیں لکھا تھا۔ ان ورلڈ کپ کے دوران کمارسنگاکارا نے 50سے زائد کی اوسط سے سکور کئے، لیکن ان کی تمام تر محنتیں رائیگاں گئیں۔ مجموعی طور پر 404 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلنے والے بہترین بلے باز نے تقریباً 42کی اوسط سے 14ہزار 234 رنز بنائے۔
اے بی ڈی ویلیئرز
پروٹیز بلے باز اے بی ڈی ویلیئرز کرکٹ کی دنیا کا وہ چمکتا ستارہ ہیں، جن کے بلے نے وہ کارنامے سرانجام دیئے، جن کا کوئی بھی بلے باز خواب دیکھتا ہے۔ شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کرنے والے اے بی نے اپنے پورے کیرئیر میں 53.50کی اوسط اور 100کے سٹرائیک ریٹ سے صرف 228 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں 9 ہزار 577 رنز بنائے۔ اے بی نے ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ میں وہ ریکارڈ قائم کیا، جسے آج تک کوئی نہ توڑ سکا، جارح مزاج بلے باز نے 2015ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے ایک میچ میں صرف 31 گیندوں پر سنیچری سکور کر دی۔
اے بی نے متعدد بار ون مین شو اننگز کھیلیں، جن کی بدولت جنوبی افریقہ کو کامیابیاں حاصل ہوئیں، لیکن ان تمام تر صلاحیتوں اور کامیابیوں کے باوجود اے بی ڈی ویلیئرز بھی ان بدقسمت عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہیں، جو ورلڈ چیمپئن نہ بن سکے۔ عظیم بلے باز نے 2005 میں ون ڈے کیرئیر کا آغاز کرتے ہوئے 2018ء میں بھارت کے خلاف اپنا آخری میچ کھیلا، جس دوران انہوں نے تین ورلڈ کپ (2007،2011 ء اور 2015ء) کھیلے، جن میں 2015ء کے ورلڈ کپ میں تو وہ اپنی ٹیم کی قیادت بھی کر رہے تھے، لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔
شاہد آفریدی
بوم بوم آفریدی پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کے وہ سٹار ہیں، جن کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ وہ خوش قسمت کھلاڑی ہیں، جن کے طویل المدت کیرئیر میں کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا، جب ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہو۔ آفریدی نے پاکستانی ٹیم میں بلے بازی کے شعبہ کو نئی جدتوں سے روشناس کروایا۔ 1996ء میں 37گیندوں پر ان کی تیز رفتار سنیچری کا ریکارڈ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک قائم رہا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آفریدی کی وجہ سے عالمی سطح پر بلے بازی کا رجحان ہی بدل گیا۔ آج بھی سب سے طویل چھکے (158میٹر) کا ریکارڈ آفریدی کے پاس ہے۔
بلے بازی کیساتھ آفریدی ایک بہترین لیگ اسپنر تھے۔ ون ڈے انٹرنیشنل کیرئیر پر نظر دوڑائی جائے تو آفریدی نے 398 میچز میں 114.53 کے سٹرائیک ریٹ کیساتھ 8 ہزار سے زائد رنز بنائے جبکہ 395وکٹیں حاصل کیں، یوں عظیم کھلاڑی پاکستانی کرکٹ کے بہترین آل راؤنڈر قرار پاتے ہیں، تاہم مسلسل 5 ورلڈ کپ کھیلنے کے باوجود وہ عالمی ٹرافی کو نہ پا سکے۔