صوبوں کا تیارکردہ نصاب مثبت پہلو
صوبوں نے اپنے تیارکردہ نصاب میں اپنی ثقافتی اقدار پر مبنی باب شامل کیے ہیں۔
ایک سیاسی رہنما کو صوبوں کے تیارکردہ نصاب میں خطرناک مواد نظر آگیا۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت نصاب کی تیاری صوبوں کے پاس جانے سے نصاب میں اسلام، پاکستان دشمن مواد شامل ہوگیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نصاب میں چند اہم تہوار خون کا بدلہ ، شہری دفاع، پاکستان کے موسم، ادب کی اہمیت، تشریح اور ریل کہانی جیسے باب شامل کیے گئے ہیں۔ ان صاحب کا مطالبہ ہے کہ نصاب کی تیاری کا معاملہ وفاق کے پاس ہونا چاہیے تاکہ سچے مسلمان اور سچے پاکستان نوجوان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں ۔
صوبوں کو نصاب کی تیاری کا حق چند سال قبل ملا۔ صوبے صرف اسکول اورکالج کی سطح کا نصاب تیار کرتے ہیں۔ ملک کی یونیورسٹیاں خود مختار ادارہ ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق نصاب تیار کرتی ہیں۔ نصاب کی تبدیلی کے سلسلے میں زیادہ کام سندھ اور پنجاب میں ہوا اور ان صوبوں میں اسکول کی سطح پر ایسا نصاب تیار ہوا جو بین الاقوامی معیار کے قریب تر ہے اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری اس نصاب سے ایک حد تک مطمئن ہیں۔
ماہرین نے آئین کے آرٹیکل 22کی پاسداری کرتے ہوئے تاریخ، سماجی علوم اور زبانوں کے نصاب میں ایسے باب شامل کیے ہیں، جن سے مذہبی اور لسانی ہم آہنگی کو تقویت ملے گی اور ہر شہری اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کر سکے گا۔
پنجاب کے نصاب کی تیاری میں شریک ایک سینئر استاد ڈاکٹر پال تھے۔ نصاب کے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نصاب کی بنیاد احترام انسانیت، انسانی حقوق کا شعور، صنفی برابری، مذہبی ہم آہنگی اور احترام مذہب پر ہے۔ اس نصاب کی تیاری میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ بچوں کو یکطرفہ حقائق نہ بتائے جائیں اور مذہبی جنونیت کسی طور پر بچوں کے دماغوں کے نزدیک نہ آئے۔
ڈاکٹر پال مزید بیان کرتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں اقلیتوں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح 1965 اور 1971 کے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران اور جوان شہید ہوئے تھے۔ پاک فضائیہ کے افسر گروپ کیپٹن سیسل چوہدری نے 1965 کی جنگ میں ایک ہی حملے میں دشمن کے چار کے قریب طیارے مار گرائے تھے، یوں جسٹس اے آر کارلینس ، جسٹس بھگوان داس نے انصاف اور آئین کی بالادستی کے لیے تاریخی کردار ادا کیا تھا۔
جذام کے مریضوں کے لیے ڈاکٹر روتھ فاؤ نے زندگی وقف کی تھی۔ ان نمایاں شخصیات کا اس نصاب میں ذکر ملتا ہے۔ پاکستان کے فزکس کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں بھی ایک باب موجود ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں احترام انسانیت اور انسانی حقوق کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس نصاب میں پہلی دفعہ بچوں کو یہ بات بتائی گئی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق مثلاً زندہ رہنے کے حق، تعلیم حاصل کرنے ، عقیدہ کی آزادی اور آزادئ اظہار جیسے حقوق کے تحفظ سے ہی اچھا معاشرہ قائم ہوسکتا ہے اور غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے تیار کردہ پالیسیاں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ جماعتوں کے طلبہ کو صنفی مساوات کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ بچوں کے ذہنوں میں ابتدائی عمر سے ہی لڑکے اور لڑکی میں فرق کا تصور قائم نہ ہوسکے اور لڑکے ابتدائی عمر سے ہی اس حقیقت کو اپنے دماغ میں بٹھائیںکہ لڑکی کی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی لڑکے کی تعلیم اور بہن کے اتنے ہی حقوق ہیں جتنے بھائی کے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے اسکولو ںکے نصاب میں مثبت تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ابتدائی جماعتوں کے نصاب میں انسانیت کی عظمت ، ہر فرد کا احترام ، پڑوسیوں کے حقوق، مذہبی برابری اور صنفی مساوات اور انسانی حقوق کے احترام کے باب شامل کیے گئے ہیں۔ پھر ان سیاست دانوں کا ذکر شامل ہے جنھوں نے تحریک آزادی میں قربانیاں دیں مگر طالع آزما قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ان کا ذکر ممنوع قرار دیا۔
صوبوں نے اپنے تیارکردہ نصاب میں اپنی ثقافتی اقدار پر مبنی باب شامل کیے ہیں۔ سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر خضر جو سندھ میں نصاب کی تیاری کی کمپنی میں شامل تھے کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ڈاکٹر خضرکا کہنا ہے کہ بچوں کے سامنے رول ماڈل بیان کیے گئے ہیں۔ ان رول ماڈل میں پنجاب سے عارفہ کریم، پختون خواہ سے ملالہ یوسفزئی اور سندھ سے تعلق رکھنے والی بلقیس ایدھی شامل ہیں۔ کسی مذہب کے بارے میں منفی ریمارکس سے گریزکیا گیا ہے اور دنیا بھر کے ممالک سے دوستی کا درس دیا گیا ہے۔
نصاب کا معاملہ انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کا ذہن ابتدائی جماعتوں میں پڑھائے جانے والے سبق سے فوری طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور افغان جہاد کا اسٹیک ہولڈر بن گیا تو امریکا نے سوویت یونین اور عوامی جمہوریت افغانستان کی حکومتوں کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو جہاد کو نصاب کا حصہ بنایا گیا اور مذہبی جنونیت پر مبنی مواد نصاب میں شامل کیا گیا۔
اس وقت مسلمان شہریوں کے علاوہ ریاستی شہریوں کے مذاہب کی تضحیک کو نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ غیر مسلم شہریوں اور پڑوسی ممالک کوکافر قرار دے کر ان کو نیست و نابود کرنے کی تلقین کی گئی۔ یہ مواد اردو، اسلامیات، سماجی علوم اور تاریخ کے مضامین میں شامل کیا گیا۔ یوں طالب علموں حتیٰ کہ اساتذہ کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ کون سا مضمون پڑھ رہے ہیں اور ہر مضمون میں ایک جیسا مذہبی مواد شامل کیا گیا۔ یہ معاملہ صرف اردو اور سماجی علوم کی کتابوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سائنس کی کتابوں میں بھی مذہبی جنونیت پر مبنی مواد شامل ہوا۔
فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کی ہر کتاب کے ہر باب کا آغاز مذہبی مواد سے ہونے لگا۔ یوں سائنسی ذہن بننے کے بجائے مخصوص ذہن تعلیمی اداروں سے نکلنے لگے جس سے معاشرے کی ساخت کو شدید نقصان ہوا۔کراچی یونیورسٹی کی استاد کہتی ہیں کہ اس صورتحال سے فرقہ وارانہ خلیج بڑھ گئی۔ ہر یونیورسٹی کی اسلامیات کی فیکلٹی میں فقہ کی بنیاد پر تعلیمی شعبے قائم ہوئے۔ اسلامیات ، تجارت ، معاشیات اور نظمیات کاروبار کے شعبوں میں ہونے والی تحقیق اسلامیات کے موضوع تک محدود ہوگئی۔ جب افغانستان کا جہاد ختم ہوا تو افغانستان میں متحرک کچھ مسلح گروہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کیا۔ پاکستان کے ہر شہرکے تعلیمی اداروں سے نوجوان جہاد کے لیے جانے لگے۔ ان ہی گروہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ شروع کردی جس سے شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، سرکاری افسر اور پولیس افسران نشانہ بنے، پھر دیگر فرقوں کے پروفیشنل افراد کو نشانہ بنایا جانے لگا۔
نائن الیون کی دہشت گردی اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ نوجوان دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بن گئے۔ ان مذہبی جنونی گروہوں نے جی ایچ کیو ، شاہراہ فیصل بیس سمیت فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید کیا گیا اور ہزاروں افراد ان جنونیوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اعلیٰ سطح پر یہ بات محسوس کی گئی کہ مذہبی جنونیت کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدرسوں میں جدید دور کے مطابق اصلاحات کی گئیں۔ جدید تعلیمی اداروں کا نصاب تبدیل کیا جائے۔
اس دور میں نصاب کی تبدیلی پر کام شروع ہوا تو شورو غوغا کیا جانے لگا، یوں مذہبی جنونیت پھیلانے والوں کے حوصلے بڑھے۔ پشاور سے کراچی تک فوجی تنصیبات سے لے کر تعلیمی ادارے اور مذہبی عبادت گاہیں ان جنونیوں کے حملوں کا نشانہ بنیں۔ معاملہ صرف ملک کے اندر تک محدود نہیں رہا بلکہ برطانیہ، امریکا، مصر، انڈونیشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں۔ پشاور پبلک اسکول پر خودکش حملہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا۔ اس پلان کے تحت مدرسوں میں اصلاحات اور جدید تعلیمی اداروں کے نصاب کی تبدیلی کو لازمی قرار دیا گیا۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے پہلی دفعہ 2015 میں نصاب کی تیاری کا کام شروع کیا۔
دونوں صوبوں کے ماہرین نے مسلسل کوشش کی اور ایسا نصاب تیار ہوا جو پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ ابھی کچھ ابتدائی کام ہوا ہے ،اس سلسلے میں خاصا کام ابھی باقی ہے ۔ پاکستان مذہبی دہشت گردی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے گرے ایریا میں شامل ہے۔ ایشیا اورمشرق بعید کی فنانشل ٹیررازم کے خاتمے کی ٹاسک فورس نے اکتوبر تک فنانشل ٹیررازم کے خاتمے کا ٹاسک دیا ہے۔ حکومت کالعدم جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ ایسے وقت میں شور مچانے کا فائدہ مذہبی جنونی قوتوں کو ہوگا۔ اگر نصاب کی تبدیلی کاکام روک دیا گیا اور رجعت پسند مواد کو دوبارہ نصاب کا حصہ بنایا گیا تو مذہبی جنونیت کو تقویت ملے گی اور پاکستان عالمی برادری میں تنہا رہ جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نصاب میں چند اہم تہوار خون کا بدلہ ، شہری دفاع، پاکستان کے موسم، ادب کی اہمیت، تشریح اور ریل کہانی جیسے باب شامل کیے گئے ہیں۔ ان صاحب کا مطالبہ ہے کہ نصاب کی تیاری کا معاملہ وفاق کے پاس ہونا چاہیے تاکہ سچے مسلمان اور سچے پاکستان نوجوان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں ۔
صوبوں کو نصاب کی تیاری کا حق چند سال قبل ملا۔ صوبے صرف اسکول اورکالج کی سطح کا نصاب تیار کرتے ہیں۔ ملک کی یونیورسٹیاں خود مختار ادارہ ہیں جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق نصاب تیار کرتی ہیں۔ نصاب کی تبدیلی کے سلسلے میں زیادہ کام سندھ اور پنجاب میں ہوا اور ان صوبوں میں اسکول کی سطح پر ایسا نصاب تیار ہوا جو بین الاقوامی معیار کے قریب تر ہے اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری اس نصاب سے ایک حد تک مطمئن ہیں۔
ماہرین نے آئین کے آرٹیکل 22کی پاسداری کرتے ہوئے تاریخ، سماجی علوم اور زبانوں کے نصاب میں ایسے باب شامل کیے ہیں، جن سے مذہبی اور لسانی ہم آہنگی کو تقویت ملے گی اور ہر شہری اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کر سکے گا۔
پنجاب کے نصاب کی تیاری میں شریک ایک سینئر استاد ڈاکٹر پال تھے۔ نصاب کے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نصاب کی بنیاد احترام انسانیت، انسانی حقوق کا شعور، صنفی برابری، مذہبی ہم آہنگی اور احترام مذہب پر ہے۔ اس نصاب کی تیاری میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ بچوں کو یکطرفہ حقائق نہ بتائے جائیں اور مذہبی جنونیت کسی طور پر بچوں کے دماغوں کے نزدیک نہ آئے۔
ڈاکٹر پال مزید بیان کرتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں اقلیتوں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح 1965 اور 1971 کے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران اور جوان شہید ہوئے تھے۔ پاک فضائیہ کے افسر گروپ کیپٹن سیسل چوہدری نے 1965 کی جنگ میں ایک ہی حملے میں دشمن کے چار کے قریب طیارے مار گرائے تھے، یوں جسٹس اے آر کارلینس ، جسٹس بھگوان داس نے انصاف اور آئین کی بالادستی کے لیے تاریخی کردار ادا کیا تھا۔
جذام کے مریضوں کے لیے ڈاکٹر روتھ فاؤ نے زندگی وقف کی تھی۔ ان نمایاں شخصیات کا اس نصاب میں ذکر ملتا ہے۔ پاکستان کے فزکس کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں بھی ایک باب موجود ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں احترام انسانیت اور انسانی حقوق کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس نصاب میں پہلی دفعہ بچوں کو یہ بات بتائی گئی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق مثلاً زندہ رہنے کے حق، تعلیم حاصل کرنے ، عقیدہ کی آزادی اور آزادئ اظہار جیسے حقوق کے تحفظ سے ہی اچھا معاشرہ قائم ہوسکتا ہے اور غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے تیار کردہ پالیسیاں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح ابتدائی جماعتوں سے لے کر اعلیٰ جماعتوں کے طلبہ کو صنفی مساوات کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ بچوں کے ذہنوں میں ابتدائی عمر سے ہی لڑکے اور لڑکی میں فرق کا تصور قائم نہ ہوسکے اور لڑکے ابتدائی عمر سے ہی اس حقیقت کو اپنے دماغ میں بٹھائیںکہ لڑکی کی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی لڑکے کی تعلیم اور بہن کے اتنے ہی حقوق ہیں جتنے بھائی کے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے اسکولو ںکے نصاب میں مثبت تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ابتدائی جماعتوں کے نصاب میں انسانیت کی عظمت ، ہر فرد کا احترام ، پڑوسیوں کے حقوق، مذہبی برابری اور صنفی مساوات اور انسانی حقوق کے احترام کے باب شامل کیے گئے ہیں۔ پھر ان سیاست دانوں کا ذکر شامل ہے جنھوں نے تحریک آزادی میں قربانیاں دیں مگر طالع آزما قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ان کا ذکر ممنوع قرار دیا۔
صوبوں نے اپنے تیارکردہ نصاب میں اپنی ثقافتی اقدار پر مبنی باب شامل کیے ہیں۔ سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر خضر جو سندھ میں نصاب کی تیاری کی کمپنی میں شامل تھے کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کے تصور کو اجاگر کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ڈاکٹر خضرکا کہنا ہے کہ بچوں کے سامنے رول ماڈل بیان کیے گئے ہیں۔ ان رول ماڈل میں پنجاب سے عارفہ کریم، پختون خواہ سے ملالہ یوسفزئی اور سندھ سے تعلق رکھنے والی بلقیس ایدھی شامل ہیں۔ کسی مذہب کے بارے میں منفی ریمارکس سے گریزکیا گیا ہے اور دنیا بھر کے ممالک سے دوستی کا درس دیا گیا ہے۔
نصاب کا معاملہ انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کا ذہن ابتدائی جماعتوں میں پڑھائے جانے والے سبق سے فوری طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور افغان جہاد کا اسٹیک ہولڈر بن گیا تو امریکا نے سوویت یونین اور عوامی جمہوریت افغانستان کی حکومتوں کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو جہاد کو نصاب کا حصہ بنایا گیا اور مذہبی جنونیت پر مبنی مواد نصاب میں شامل کیا گیا۔
اس وقت مسلمان شہریوں کے علاوہ ریاستی شہریوں کے مذاہب کی تضحیک کو نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ غیر مسلم شہریوں اور پڑوسی ممالک کوکافر قرار دے کر ان کو نیست و نابود کرنے کی تلقین کی گئی۔ یہ مواد اردو، اسلامیات، سماجی علوم اور تاریخ کے مضامین میں شامل کیا گیا۔ یوں طالب علموں حتیٰ کہ اساتذہ کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ کون سا مضمون پڑھ رہے ہیں اور ہر مضمون میں ایک جیسا مذہبی مواد شامل کیا گیا۔ یہ معاملہ صرف اردو اور سماجی علوم کی کتابوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سائنس کی کتابوں میں بھی مذہبی جنونیت پر مبنی مواد شامل ہوا۔
فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کی ہر کتاب کے ہر باب کا آغاز مذہبی مواد سے ہونے لگا۔ یوں سائنسی ذہن بننے کے بجائے مخصوص ذہن تعلیمی اداروں سے نکلنے لگے جس سے معاشرے کی ساخت کو شدید نقصان ہوا۔کراچی یونیورسٹی کی استاد کہتی ہیں کہ اس صورتحال سے فرقہ وارانہ خلیج بڑھ گئی۔ ہر یونیورسٹی کی اسلامیات کی فیکلٹی میں فقہ کی بنیاد پر تعلیمی شعبے قائم ہوئے۔ اسلامیات ، تجارت ، معاشیات اور نظمیات کاروبار کے شعبوں میں ہونے والی تحقیق اسلامیات کے موضوع تک محدود ہوگئی۔ جب افغانستان کا جہاد ختم ہوا تو افغانستان میں متحرک کچھ مسلح گروہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کیا۔ پاکستان کے ہر شہرکے تعلیمی اداروں سے نوجوان جہاد کے لیے جانے لگے۔ ان ہی گروہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ شروع کردی جس سے شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ، سرکاری افسر اور پولیس افسران نشانہ بنے، پھر دیگر فرقوں کے پروفیشنل افراد کو نشانہ بنایا جانے لگا۔
نائن الیون کی دہشت گردی اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ نوجوان دہشت گرد تنظیموں کا حصہ بن گئے۔ ان مذہبی جنونی گروہوں نے جی ایچ کیو ، شاہراہ فیصل بیس سمیت فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو شہید کیا گیا اور ہزاروں افراد ان جنونیوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اعلیٰ سطح پر یہ بات محسوس کی گئی کہ مذہبی جنونیت کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدرسوں میں جدید دور کے مطابق اصلاحات کی گئیں۔ جدید تعلیمی اداروں کا نصاب تبدیل کیا جائے۔
اس دور میں نصاب کی تبدیلی پر کام شروع ہوا تو شورو غوغا کیا جانے لگا، یوں مذہبی جنونیت پھیلانے والوں کے حوصلے بڑھے۔ پشاور سے کراچی تک فوجی تنصیبات سے لے کر تعلیمی ادارے اور مذہبی عبادت گاہیں ان جنونیوں کے حملوں کا نشانہ بنیں۔ معاملہ صرف ملک کے اندر تک محدود نہیں رہا بلکہ برطانیہ، امریکا، مصر، انڈونیشیا اور سعودی عرب وغیرہ میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں۔ پشاور پبلک اسکول پر خودکش حملہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا۔ اس پلان کے تحت مدرسوں میں اصلاحات اور جدید تعلیمی اداروں کے نصاب کی تبدیلی کو لازمی قرار دیا گیا۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے پہلی دفعہ 2015 میں نصاب کی تیاری کا کام شروع کیا۔
دونوں صوبوں کے ماہرین نے مسلسل کوشش کی اور ایسا نصاب تیار ہوا جو پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ ابھی کچھ ابتدائی کام ہوا ہے ،اس سلسلے میں خاصا کام ابھی باقی ہے ۔ پاکستان مذہبی دہشت گردی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے گرے ایریا میں شامل ہے۔ ایشیا اورمشرق بعید کی فنانشل ٹیررازم کے خاتمے کی ٹاسک فورس نے اکتوبر تک فنانشل ٹیررازم کے خاتمے کا ٹاسک دیا ہے۔ حکومت کالعدم جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ ایسے وقت میں شور مچانے کا فائدہ مذہبی جنونی قوتوں کو ہوگا۔ اگر نصاب کی تبدیلی کاکام روک دیا گیا اور رجعت پسند مواد کو دوبارہ نصاب کا حصہ بنایا گیا تو مذہبی جنونیت کو تقویت ملے گی اور پاکستان عالمی برادری میں تنہا رہ جائے گا۔