ریونیو ریکارڈ لال کپڑے میں کیوں رکھا جاتا ہے
سب اس نکتے پر متفق ہیں کہ لال رنگ کاغذات یا ریکارڈ کے زیادہ اہم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے
ملک بھرکے ریونیو دفاتر میں زمینوں سے متعلق ریکارڈ کو عام طور پر لال رنگ کے کپڑے میں رکھے جانے کے پیچھے کوئی قانونی یا سائنسی منطق تو معلوم نہیں ہوسکی ہے، اسے ایک روایت ہی کہا گیا جو انگریزکے دور سے برصغیر میں چلی آرہی ہے اور آج تک ریونیو دفاتر میں لال رنگ کے کپڑے میں لپٹا ریکارڈ پایا جاتا ہے۔
ریونیو دفاتر میں لال رنگ کے استعمال کے بارے میں متعلقہ سرکاری ملازمین میں مختلف آرا پائی گئیں لیکن سب اس نکتے پر متفق نظر آئے کہ لال رنگ ان کاغذات یا ریکارڈ کے زیادہ اہم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ برصغیر میں زمین کو سب سے زیادہ قیمتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے چاہے وہ سرکاری زمین ہو یا کسی فرد کی ذاتی ملکیت ہو، وہ ہر لحاظ سے سب سے زیادہ قیمتی ملکیت ہوتی ہے جبکہ پٹواری سسٹم جسے ریونیو سسٹم کہا جاتا ہے اس کا زیادہ تر تعلق کیونکہ زمینوں کے معاملات سے رہتا ہے اس لیے ریونیو کا ریکارڈ لال کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جاتا رہا۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ریونیو ریکارڈ رکھنے میں لال رنگ کا کپڑا استعمال کرنے کی بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اس سے ان کاغذات کی زیادہ اہمیت کا پتہ چلتا ہے، حکومت سندھ کے رٹائرڈ افسر آفتاب میمن کا کہناہے کہ برصغیر میں ریونیو ریکارڈ کو لال رنگ کے کپڑے میں رکھنے کی ابتدا تب سے ہوئی جب سے پٹواری سسٹم متعارف کرایا گیا، برصغیر میں پٹواری سسٹم کی شروعات سن 1793 میں ہوئی جب انگریزوں نے پہلی مرتبہ زمینوں کی ناپ تول شروع کی یا زمینوں کا ریکارڈ بنانا شروع کیا، گویا ریونیو ریکارڈ کو لال رنگ کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھنے کی روایت تقریباً 125 سال پرانی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ برصغیر میں زمینوں کا ریکارڈ بننے کی شروعات بنگال اور بہار سے ہوئی، اس وقت سے ریونیو یا زمینوں کا ریکارڈ لال رنگ کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھنے کی روایت کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے۔
آفتاب میمن کا کہنا تھا کہ عام خیال یہ ہی ہے کہ زمینوں کی اہمیت کے پیش نظر لال رنگ کا استعمال ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ لال رنگ کے کپڑے میں لپیٹے ہوئے کاغذات صرف متعلقہ آدمی ہی دیکھ سکتا ہے یا مذکورہ ریکارڈ انتہائی قیمتی ریکارڈ ہے اس کی حد سے زیادہ حفاظت کرنی ہے اور اسے غیر متعلقہ لوگ ہاتھ نہیں لگاسکتے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لال رنگ کیونکہ خطرے کیعلامت ہوتا ہے اس لیے کہ کہا جاسکتا ہے کہ ریونیو ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کے لیے لال رنگ کے کپڑے کے استعمال سے مذکورہ ریکارڈ کے ممنوعہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
بورڈ آف ریونیو کے ایک ملازم محمد آصف کا کہنا ہے کہ لال کپڑے میں لپٹے ہوئے ریکارڈ کا تعلق کیونکہ زمینوں سے ہوتا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ اسے ممنوعہ ظاہر کرنے کے لیے لال رنگ کا کپڑا استعمال کیا گیا ہوتاکہ دوسرے لوگ اسے ہاتھ نہ لگاسکیں۔
محکمہ ریونیو کے ایک اور ملازم نذیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے ریونیو ریکارڈ رکھنے کے لیے لال رنگ کا کپڑا استعمال ہوتے دیکھ رہے ہیں، ان کا بھی یہ ہی خیال ہے کہ لال رنگ کے کپڑے کا استعمال ایک روایت کے طور پر ابھی تک جاری ہے۔
ریونیو دفاتر میں لال رنگ کے استعمال کے بارے میں متعلقہ سرکاری ملازمین میں مختلف آرا پائی گئیں لیکن سب اس نکتے پر متفق نظر آئے کہ لال رنگ ان کاغذات یا ریکارڈ کے زیادہ اہم ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ برصغیر میں زمین کو سب سے زیادہ قیمتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے چاہے وہ سرکاری زمین ہو یا کسی فرد کی ذاتی ملکیت ہو، وہ ہر لحاظ سے سب سے زیادہ قیمتی ملکیت ہوتی ہے جبکہ پٹواری سسٹم جسے ریونیو سسٹم کہا جاتا ہے اس کا زیادہ تر تعلق کیونکہ زمینوں کے معاملات سے رہتا ہے اس لیے ریونیو کا ریکارڈ لال کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جاتا رہا۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ریونیو ریکارڈ رکھنے میں لال رنگ کا کپڑا استعمال کرنے کی بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اس سے ان کاغذات کی زیادہ اہمیت کا پتہ چلتا ہے، حکومت سندھ کے رٹائرڈ افسر آفتاب میمن کا کہناہے کہ برصغیر میں ریونیو ریکارڈ کو لال رنگ کے کپڑے میں رکھنے کی ابتدا تب سے ہوئی جب سے پٹواری سسٹم متعارف کرایا گیا، برصغیر میں پٹواری سسٹم کی شروعات سن 1793 میں ہوئی جب انگریزوں نے پہلی مرتبہ زمینوں کی ناپ تول شروع کی یا زمینوں کا ریکارڈ بنانا شروع کیا، گویا ریونیو ریکارڈ کو لال رنگ کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھنے کی روایت تقریباً 125 سال پرانی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ برصغیر میں زمینوں کا ریکارڈ بننے کی شروعات بنگال اور بہار سے ہوئی، اس وقت سے ریونیو یا زمینوں کا ریکارڈ لال رنگ کے کپڑے میں لپیٹ کر رکھنے کی روایت کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے۔
آفتاب میمن کا کہنا تھا کہ عام خیال یہ ہی ہے کہ زمینوں کی اہمیت کے پیش نظر لال رنگ کا استعمال ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ لال رنگ کے کپڑے میں لپیٹے ہوئے کاغذات صرف متعلقہ آدمی ہی دیکھ سکتا ہے یا مذکورہ ریکارڈ انتہائی قیمتی ریکارڈ ہے اس کی حد سے زیادہ حفاظت کرنی ہے اور اسے غیر متعلقہ لوگ ہاتھ نہیں لگاسکتے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لال رنگ کیونکہ خطرے کیعلامت ہوتا ہے اس لیے کہ کہا جاسکتا ہے کہ ریونیو ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کے لیے لال رنگ کے کپڑے کے استعمال سے مذکورہ ریکارڈ کے ممنوعہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
بورڈ آف ریونیو کے ایک ملازم محمد آصف کا کہنا ہے کہ لال کپڑے میں لپٹے ہوئے ریکارڈ کا تعلق کیونکہ زمینوں سے ہوتا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ اسے ممنوعہ ظاہر کرنے کے لیے لال رنگ کا کپڑا استعمال کیا گیا ہوتاکہ دوسرے لوگ اسے ہاتھ نہ لگاسکیں۔
محکمہ ریونیو کے ایک اور ملازم نذیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے ریونیو ریکارڈ رکھنے کے لیے لال رنگ کا کپڑا استعمال ہوتے دیکھ رہے ہیں، ان کا بھی یہ ہی خیال ہے کہ لال رنگ کے کپڑے کا استعمال ایک روایت کے طور پر ابھی تک جاری ہے۔