عظیم چھلانگ لگ سکتی ہے
اس دنیا میں ہرکامیابی 20 سالہ محنت مانگتی ہے اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی
''کولمبس نے امریکا کو دریافت کیا ''چھ لفظ کے اس جملے کو آج ایک شخص چھ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اپنی زبان سے ادا کر سکتا ہے مگر اس واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے کولمبس کو 20 سال صرف کرنے پڑے یہ ہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے اس دنیا میں ہرکامیابی 20 سالہ محنت مانگتی ہے اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
نیل آرم اسٹرانگ پہلے شخص ہیں جنہوں نے چاند کا سفر کیا21 جولائی 1969 کو انھوں نے ایگل نامی چاند گاڑی سے اترکر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا۔اس وقت زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی رابطہ قائم تھا ، چاند پر اترنے کے بعد اس نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ''ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے، مگر انسانیت کے لیے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے'' آرم اسٹرانگ کا مطلب یہ تھا کہ میرا اس وقت چاند پر اترنا بظاہر صرف ایک شخص کا چاند پر اترنا ہے مگر وہ ایک نئے کائناتی دورکا آغاز ہے۔
ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ وقت آئے گا، جب کہ عام لوگ ایک سیارہ سے دوسرے سیارے تک اسی طرح سفرکرنے لگیں گے، جس طرح وہ زمین پرکرتے ہیں، ہر بڑا کام اسی طرح ہوتا ہے۔ ابتداء میں ایک فرد یا چند افراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسروں انسانوں کے لیے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں، یہ ابتدائی کام بلاشبہ انتہائی مشکل ہے وہ پہاڑکو اپنی جگہ سے کھسکانے کے ہم معنیٰ ہیں مگر جب یہ ابتدائی کام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔ بس اس کے لیے زیادہ ہمت ، جرأت ، حوصلے، لگن، ولولہ کی ضرورت ہوتی ہے،کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ بس نا ممکن اور ممکن کے درمیانی فاصلے کو طے کرنے کے لیے آپ کو اپنے اندر دوسروں سے زیادہ ہمت اورجرأت پیدا کرنا ہوتی ہے۔
قیصر ولیم دوم 1888 سے لے کر 1918 تک جرمنی کا بادشاہ تھا ، اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر ناقص اور چھوٹا تھا۔ قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم چھڑی، اس میںایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی۔ آخرکار جرمنی کو شکست ہوئی اس کے ساتھ ہی قیصر ولیم کی حکومت بھی ختم ہوگئی قید اور قتل سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا ، وہ نیدر لینڈ چلا گیا وہ دوم میں خاموشی سے زندگی کے بقیہ دن گذارتا رہا، یہاں تک کہ وہ 1941 کی عمر میں مرگیا پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے۔ قیصر ولیم ایک سرکاری دورے پر سو ئٹزر لینڈ گیا ، وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئٹزر لینڈ اگرچہ چھوٹا ملک ہے مگراس کی فوج بہت منظم ہے۔
اس نے ملاقات کے دوران سوئٹزر لینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہے، اگر تمہارے ملک پر حملہ کردے تو تم کیاکروگے اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا '' سر ہمیں ایک کے بجائے دو فائرکرنے پڑیں گے'' سوئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے، وسائل اگرکم ہوں توکارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کرسکتے ہیں ،آپ کی تعداد اگر فریق کی تعداد کا نصف ہے تو آپ دگنی محنت کرکے زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہوسکتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے عام طور پر وہ ان کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا ہے ''جوکچھ ہمیں بننا چاہیے وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں'' ولیم جیمس کی کہی ہوئی بات سو فیصد ہم پر پوری اترتی ہے، خدا نے ہم کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہم ہیں کہ ناشکری پر نا شکری کرتے جا رہے ہیں۔ ہم سے زیادہ بد ترین مسائل کا شکار لوگوں نے اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں بدل ڈالے،انھوں نے سب سے پہلے اپنے مسائل اور ان کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیا، ان کا حل ڈھونڈا اور ہمت ، حوصلے کو اپنی ذاتوں میں جمع کیا اور ترقی اور خوشحالی کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا۔
اس راستے پر انھیں بے پنا ہ مسائل، پریشانیوں اورمصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ اپنے حوصلہ کو پست ہونے دیا۔ اور آخرکار پریشانیوں ، مسائل ، مصیبتوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور ان کے راستے سے ہٹ گئیں کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا لازمی ہوتا ہے، صرف برا بھلا کہنے سے اپنی قسمت اور نصیب کوکوستے رہنے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے قسمت اور نصیب کبھی بدلا نہیں کرتے صرف خواہشات کافی نہیں ہوتیں اگر صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوسکتے تو ہمارے حالات نجانے کب کے بدل چکے ہوتے، دوسروں کو الزام دینا بزدلی کم ہمتی اوراعترا ف شکست ہوتا ہے۔
دعائیں بھی اس وقت اثرکرتی ہیں جب دوا بھی ساتھ ساتھ جاری ہو، اگر آپ یہ سمجھیں بیٹھے ہیں کہ صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوجائیں گے تو بیٹھے رہیے انتظارکرتے رہیے، آخر وہ وقت آہی جائے گا جب آپ کے پیارے آپ کی ابدی زندگی کے لیے دعاگو ہو رہے ہونگے ۔ یہ آپ پر خود منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی کن حالات میں گذارنا چاہتے ہیں اگر آپ اپنی بد حالی ، غربت، افلاس، بے اختیاری، ذلت میں خوش وخرم ہیں توکوئی بھی آپ کو اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے اصرار نہیں کرے گا۔ آپ اپنے ان ہی حالات میں مزے کیجیے خوش وخرم رہیے، ذلت برداشت کرتے رہیے ،کڑھتے رہیے، دوسروں کو برا بھلا کہتے رہیے اور دعا کرتے رہیے کہ جو خوشیاں عیش وآرام ، نعمتیں ، سکون آپ کو دنیا میں نصیب نہ ہوسکا وہ خدا آپ کو جنت الفردوس میں نوازے، لیکن اگر مرکے بھی چین نہ آیا تو پھرکیا کیجیے گا۔
ایک دوسرا راستہ اور ہے جو آپ کی موجودہ اور ابدی زندگی دونوں کو سنوارسکتا ہے اور وہ راستہ ہے ہمت، جرأت ، حوصلے کا آئیں کم ہمتی، بزدلی، ڈرپوکی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں اور غاصبوں ، ظالموں ، لٹیروں ، سے اپنے حقوق ، خوشحالی ، چین ، سکون اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے دوسرے مظلوموں کے لیے چھین لیں۔ اپنے بھی نصیب بدل ڈالیں اور ملک کے تمام بے کسوں ، مجبوروں، مظلوموں کے نصیب بھی بدل ڈالیں کم ہمتی اور بزدلی جرم ہیں اگر آپ مجرم بن کے جینا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی مر ضی۔ اور اگر نہیں تو پھر دیر نہ کریں اور اٹھ کھڑے ہوں اوراٹھ کھڑے ہوں۔