عوامی تحریک کی ضرورت اور فرسودہ نظام
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’کفرکا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم اور ناانصافی کا نہیں ‘‘۔
پاکستان کیوں بنا؟ کس لیے بنا ؟ اور کس کے لیے بنا؟ یہ وہ تین بنیادی سوال ہیں جن کے غیر جانب داری اور ایمان داری سے دیے گئے جوابات ہی اس ملک میں 70 سال سے جاری پرماریت ، لوٹ مار ، قبضہ گیری ، دہشت گردی ، حق تلفی اور عوامی استحصال سے پردہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن یہ وہ سوالات ہیں جن سے ہمیشہ کترایا گیا ہے۔
جس کی وجہ اِس ملک پر اجارہ داری قائم کرنا رہی ہے ، ورنہ تو ان سوالات کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ یہ ملک برصغیر کے اقلیتی عوام کے آزادانہ تشخص و حقوق کے تحفظ اور ترقی کے لیے قائم کیا گیا ۔لیکن یہ ملک اپنے قیام کے اول روز سے ہی پرماری قوتوں کی سازشوں کا شکار ہوگیا ۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ان ''پرماری'' قوتوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اس ملک کے ہر فرد اور ادارے کو اپنا ماتحت بنانے کے لیے دھونس سے کام لیا ہے ۔
ملک کی سیاسی قوتیں ہوں یا پارلیمنٹ اُن کو ہمیشہ سائیڈ کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ملکی عدلیہ بھی دباؤ میں رہی۔ اِس کے لیے اداروں میں ٹکراؤاور سیاسی عدم استحکام کے ماحول کوپروان چڑھانا اُن کا بہترین ہتھیار رہا ہے ۔پھر یہاں صرف کردار بدلتے ہیں لیکن کہانی و تماشہ وہی پرانا ہی چلتا رہتا ہے۔
ویسے کہتے تو یہ بھی ہیں کہ دنیا مکافات ِ عمل ہے ،جس کا مظہر نواز شریف و شہباز شریف ہیں۔حالیہ ن لیگ نے نواز شریف کو العزیزٍٍیہ ریفرنس میں ملنے والی سزاسے متعلق جج کے بارے میں ویڈیو لیک کرکے شور برپا کیا ہوا ہے وہ در اصل اُن کے1993 کی حکومت کے دوران بے نظیر بھٹو کے خلاف جسٹس قیوم پر دباؤ ڈال کر لیے گئے فیصلے کی اپنی لیک ہونے والی ٹیلیفونک ریکارڈنگ کا خمیازہ ہے ۔پھر یہ ویڈیو پاکستانی عدالتوں پر دباؤ کی اُس تاریخ کو بھی دہرا رہی ہے جو 1954سے شروع ہوتی ہے ، جب جسٹس منیر نے ''نظریہ ضرورت'' کی بنیاد رکھی۔ یہ ''نظریہ ضرورت'' تو جیسے اس ملک کے لیے لازمی ہوگیا۔
نہ صرف اُس وقت بلکہ آیندہ تمام عرصہ میں بھی اس ''نظریہ ضرورت ''کی بنیاد پر جب ،جس کا، جی چاہا، وہ اس ملک کا مالک بن بیٹھا ۔ یہ گروہی آمریت کے دباؤ کے تحت مصنوعی طور پر پیدا کیے گئے اُسی'' نظریہ ضرورت ''والے قانون کے کرشمے ہیں کہ ملک کے ایک فالج زدہ آدمی کے مفلوج دماغ کے اشاروں پر چلنا بھی درست قرار پایا، تو ملک کو ون یونٹ جیسے ظالمانہ تجربوں میں دھکیلنے والا پہلاآمر بھی ہیرو بن گیا ، اور تو اور ملک کے دو ٹکڑے بھی ہوئے ۔ پھر ضیائی مارشل لا کا کالا سیاہ دور بھی اسی ''نظریہ ضرورت '' کی بدولت شروع ہوا ، جس دور میں دنیا کے ایک سامراج کے خلاف دوسرے سامراج کا آلہ کار بننا عین اسلامی قرار پایا ۔ اور پھر منشیات اور کلاشنکوف سے لیس افغان باشندوں کو اس ملک کا ستیا ناس کرنے کے لیے کھلا چھوڑدینا بھی ''نظریہ ضرورت '' کے ثمرات میں سے ٹھہرا۔
ملک کے سینئر تجزیہ کار اور علم سیاسیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے موجودہ تمام تر مسائل کی بنیاد ضیائی آمریت اور اُس کی پالیسیاں ہیں ، جب کہ اُس کا سنگ میل وہ '' نظریہ ضرورت ''کو قرار دیتے ہیں ۔ یو ںہر آمر اور آمرانہ دور کو اس ملک کے عوام پر ملسط رہنے کا موقع مل گیا ۔
ہر دور میں اگر ایک طرف نظریہ ضرورت کی حامی قوتیں رہی ہیں تودوسری طرف قانون و انصاف کی سربلندی کو قائم رکھنے والے جسٹس آغا حسن علی اور جسٹس کارنیلس، جسٹس کے ایم اے صمدانی جیسے ججز بھی موجود تھے۔ پھرجنرل مشرف کے غیر قانونی قدم و غیر آئینی قانون (PCO)کے تحت سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے کُل 102میں سے 89نئے سرے سے حلف لینے والے ججز موجود تھے تو 13ججز نے حلف نہ لے کر آئین اورعدلیہ کی بالادستی کا جھنڈا تھامے رکھا۔ اس ملک پر اجارہ داری قائم کرنے کی ہوس نے جہاں ملک کے دیگر اداروں کو کمزور کیا ہے وہیں جمہوریت کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔
حال ہی میں مریم نواز نے اسلام آباد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو ٹیپ جاری کرکے احتسابی نظام پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ حالانکہ یہ ملک میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے ۔ حالیہ ویڈیو میں ایک ایسے فیصلے سے متعلق گفتگو کی گئی ہے جو حال ہی میں ہوا ہے ، ایک طرف یہ فیصلہ کرنے والا جج ہے تو دوسری طرف اس فیصلے کی بنیاد پر ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے والا نواز شریف جیل میں سزا کاٹ رہا ہے ۔ اب اگر فیصلے سے متعلق جج خود دباؤ کا اعتراف کرلے تو پھرملزم کو جیل میں رکھنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے ؟
حقائق سے پردہ ہٹانے اور ملک میں جاری احتساب کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے لیے ایک قومی حقائق کمیشن کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یہ کمیشن اس ویڈیو اور اُس کے حقیقی ہونے کی جانچ پڑتال کرے بلکہ اُن محرکات کا بھی جائزہ لے ،جن کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا ہے، بلکہ ملکی قیام سے آج تک کے اُن تمام فیصلوں اور کرداروں کی بھی تفتیش کرے ۔ پھر چاہے وہ اصغرخان کیس ہو یا بھٹو کیس ہو ، یا پھر'' نظریہ ضرورت '' جیسی اصطلاح کے تحت دیے گئے فیصلے کیوں نہ ہوں۔ ابتدائی طور پر جسٹس حمود الرحمن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اس قومی سانحے میں ملوث کرداروں کے ٹرائل کا اعلان کیا جائے تو اس سے ملک میں اعتماد کا ماحول قائم ہوگا۔
اس ملک کے قیام کی تحریک کی تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بنانے میں عوام کا کردار ہے ۔ پاکستان کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں سو فیصد عوامی ، سیاسی و جمہوری جدوجہد اور سندھ اسمبلی کی قرارداد کی صورت پارلیمانی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اس لیے اس ملک میں اگر کسی کو فوقیت ہونی چاہیے تو وہ عوام اور پارلیمنٹ ہیں، باقی تمام اداروں اور شعبوں کو عوام کی خواہشات اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنے اور عوام کی جانب سے منتخب کردہ پارلیمنٹ کے ماتحت کام کرنے کا پابند ہونا چاہیے ،کیونکہ قانون سازی کے اختیارات بھی اُسی کو ہیںتو جمہوریت کی روح بھی یہی ہے ، جب کہ عدلیہ کو بھی اُسی کے بنائے ہوئے قوانین کی تشریح اور نفاذ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔جس سے عوام کا ملکی اداروں پر اعتماد قائم رہتا ہے ۔ لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ''کفرکا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم اورناانصافی کا نہیں ''۔ کیا پاکستان ایسے ظالمانہ نظام و معاشرے کے قیام کے لیے بنایا گیا تھا ؟ جس کا جواب ہر پاکستانی کی زبان پر یقیناً ''نہیں '' ہی ہوگا، تو پھر ایسے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے ہرمحب وطن پاکستانی فرد ، ادارہ و جماعت یک نظام ہوکر قومی حقائق کمیشن کے قیام کے لیے پُر زور آواز بلند کرکے''قوت ِ اَخوت ِ عوام ''اور'' ایک زندہ قوم'' ہونے کے اپنے دعوے کو ثابت کریں ۔ویسے بھی ملکی حالات پر ناقدانہ نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ملکی صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اس سے برا کچھ نہیں ہوسکتا اور جب برا نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ بہتر ہونے یا بہتر کرنے کا ماحول تیار ہے ، لیکن اس کے لیے بے خوف قیادت کی رہنمائی میں ایک بھرپور عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔
ویسے بھی کہتے ہیں کہ وقت ہر بزدل و کمزور کو بہادر بننے کا ایک موقع ضرور دیتا ہے ، تو یہ وقت ملک کے تمام تر کمزوروں کے لیے بہادر بننے کی دعوت لیے ملکی دروازے پر دستک دے رہا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون '' حُر ِ کربلا '' کی طرح ظالمانہ صفوں سے نکل کر حق ومظلوم کا ساتھی بننے کو ترجیح دیتا ہے ۔ !
جس کی وجہ اِس ملک پر اجارہ داری قائم کرنا رہی ہے ، ورنہ تو ان سوالات کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ یہ ملک برصغیر کے اقلیتی عوام کے آزادانہ تشخص و حقوق کے تحفظ اور ترقی کے لیے قائم کیا گیا ۔لیکن یہ ملک اپنے قیام کے اول روز سے ہی پرماری قوتوں کی سازشوں کا شکار ہوگیا ۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ان ''پرماری'' قوتوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اس ملک کے ہر فرد اور ادارے کو اپنا ماتحت بنانے کے لیے دھونس سے کام لیا ہے ۔
ملک کی سیاسی قوتیں ہوں یا پارلیمنٹ اُن کو ہمیشہ سائیڈ کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ملکی عدلیہ بھی دباؤ میں رہی۔ اِس کے لیے اداروں میں ٹکراؤاور سیاسی عدم استحکام کے ماحول کوپروان چڑھانا اُن کا بہترین ہتھیار رہا ہے ۔پھر یہاں صرف کردار بدلتے ہیں لیکن کہانی و تماشہ وہی پرانا ہی چلتا رہتا ہے۔
ویسے کہتے تو یہ بھی ہیں کہ دنیا مکافات ِ عمل ہے ،جس کا مظہر نواز شریف و شہباز شریف ہیں۔حالیہ ن لیگ نے نواز شریف کو العزیزٍٍیہ ریفرنس میں ملنے والی سزاسے متعلق جج کے بارے میں ویڈیو لیک کرکے شور برپا کیا ہوا ہے وہ در اصل اُن کے1993 کی حکومت کے دوران بے نظیر بھٹو کے خلاف جسٹس قیوم پر دباؤ ڈال کر لیے گئے فیصلے کی اپنی لیک ہونے والی ٹیلیفونک ریکارڈنگ کا خمیازہ ہے ۔پھر یہ ویڈیو پاکستانی عدالتوں پر دباؤ کی اُس تاریخ کو بھی دہرا رہی ہے جو 1954سے شروع ہوتی ہے ، جب جسٹس منیر نے ''نظریہ ضرورت'' کی بنیاد رکھی۔ یہ ''نظریہ ضرورت'' تو جیسے اس ملک کے لیے لازمی ہوگیا۔
نہ صرف اُس وقت بلکہ آیندہ تمام عرصہ میں بھی اس ''نظریہ ضرورت ''کی بنیاد پر جب ،جس کا، جی چاہا، وہ اس ملک کا مالک بن بیٹھا ۔ یہ گروہی آمریت کے دباؤ کے تحت مصنوعی طور پر پیدا کیے گئے اُسی'' نظریہ ضرورت ''والے قانون کے کرشمے ہیں کہ ملک کے ایک فالج زدہ آدمی کے مفلوج دماغ کے اشاروں پر چلنا بھی درست قرار پایا، تو ملک کو ون یونٹ جیسے ظالمانہ تجربوں میں دھکیلنے والا پہلاآمر بھی ہیرو بن گیا ، اور تو اور ملک کے دو ٹکڑے بھی ہوئے ۔ پھر ضیائی مارشل لا کا کالا سیاہ دور بھی اسی ''نظریہ ضرورت '' کی بدولت شروع ہوا ، جس دور میں دنیا کے ایک سامراج کے خلاف دوسرے سامراج کا آلہ کار بننا عین اسلامی قرار پایا ۔ اور پھر منشیات اور کلاشنکوف سے لیس افغان باشندوں کو اس ملک کا ستیا ناس کرنے کے لیے کھلا چھوڑدینا بھی ''نظریہ ضرورت '' کے ثمرات میں سے ٹھہرا۔
ملک کے سینئر تجزیہ کار اور علم سیاسیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے موجودہ تمام تر مسائل کی بنیاد ضیائی آمریت اور اُس کی پالیسیاں ہیں ، جب کہ اُس کا سنگ میل وہ '' نظریہ ضرورت ''کو قرار دیتے ہیں ۔ یو ںہر آمر اور آمرانہ دور کو اس ملک کے عوام پر ملسط رہنے کا موقع مل گیا ۔
ہر دور میں اگر ایک طرف نظریہ ضرورت کی حامی قوتیں رہی ہیں تودوسری طرف قانون و انصاف کی سربلندی کو قائم رکھنے والے جسٹس آغا حسن علی اور جسٹس کارنیلس، جسٹس کے ایم اے صمدانی جیسے ججز بھی موجود تھے۔ پھرجنرل مشرف کے غیر قانونی قدم و غیر آئینی قانون (PCO)کے تحت سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے کُل 102میں سے 89نئے سرے سے حلف لینے والے ججز موجود تھے تو 13ججز نے حلف نہ لے کر آئین اورعدلیہ کی بالادستی کا جھنڈا تھامے رکھا۔ اس ملک پر اجارہ داری قائم کرنے کی ہوس نے جہاں ملک کے دیگر اداروں کو کمزور کیا ہے وہیں جمہوریت کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔
حال ہی میں مریم نواز نے اسلام آباد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو ٹیپ جاری کرکے احتسابی نظام پر ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔ حالانکہ یہ ملک میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے ۔ حالیہ ویڈیو میں ایک ایسے فیصلے سے متعلق گفتگو کی گئی ہے جو حال ہی میں ہوا ہے ، ایک طرف یہ فیصلہ کرنے والا جج ہے تو دوسری طرف اس فیصلے کی بنیاد پر ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے والا نواز شریف جیل میں سزا کاٹ رہا ہے ۔ اب اگر فیصلے سے متعلق جج خود دباؤ کا اعتراف کرلے تو پھرملزم کو جیل میں رکھنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے ؟
حقائق سے پردہ ہٹانے اور ملک میں جاری احتساب کی غیرجانبداری کو یقینی بنانے کے لیے ایک قومی حقائق کمیشن کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یہ کمیشن اس ویڈیو اور اُس کے حقیقی ہونے کی جانچ پڑتال کرے بلکہ اُن محرکات کا بھی جائزہ لے ،جن کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا ہے، بلکہ ملکی قیام سے آج تک کے اُن تمام فیصلوں اور کرداروں کی بھی تفتیش کرے ۔ پھر چاہے وہ اصغرخان کیس ہو یا بھٹو کیس ہو ، یا پھر'' نظریہ ضرورت '' جیسی اصطلاح کے تحت دیے گئے فیصلے کیوں نہ ہوں۔ ابتدائی طور پر جسٹس حمود الرحمن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں اس قومی سانحے میں ملوث کرداروں کے ٹرائل کا اعلان کیا جائے تو اس سے ملک میں اعتماد کا ماحول قائم ہوگا۔
اس ملک کے قیام کی تحریک کی تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان بنانے میں عوام کا کردار ہے ۔ پاکستان کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں سو فیصد عوامی ، سیاسی و جمہوری جدوجہد اور سندھ اسمبلی کی قرارداد کی صورت پارلیمانی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اس لیے اس ملک میں اگر کسی کو فوقیت ہونی چاہیے تو وہ عوام اور پارلیمنٹ ہیں، باقی تمام اداروں اور شعبوں کو عوام کی خواہشات اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنے اور عوام کی جانب سے منتخب کردہ پارلیمنٹ کے ماتحت کام کرنے کا پابند ہونا چاہیے ،کیونکہ قانون سازی کے اختیارات بھی اُسی کو ہیںتو جمہوریت کی روح بھی یہی ہے ، جب کہ عدلیہ کو بھی اُسی کے بنائے ہوئے قوانین کی تشریح اور نفاذ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔جس سے عوام کا ملکی اداروں پر اعتماد قائم رہتا ہے ۔ لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ''کفرکا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم اورناانصافی کا نہیں ''۔ کیا پاکستان ایسے ظالمانہ نظام و معاشرے کے قیام کے لیے بنایا گیا تھا ؟ جس کا جواب ہر پاکستانی کی زبان پر یقیناً ''نہیں '' ہی ہوگا، تو پھر ایسے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے لیے ہرمحب وطن پاکستانی فرد ، ادارہ و جماعت یک نظام ہوکر قومی حقائق کمیشن کے قیام کے لیے پُر زور آواز بلند کرکے''قوت ِ اَخوت ِ عوام ''اور'' ایک زندہ قوم'' ہونے کے اپنے دعوے کو ثابت کریں ۔ویسے بھی ملکی حالات پر ناقدانہ نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ملکی صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اس سے برا کچھ نہیں ہوسکتا اور جب برا نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ بہتر ہونے یا بہتر کرنے کا ماحول تیار ہے ، لیکن اس کے لیے بے خوف قیادت کی رہنمائی میں ایک بھرپور عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔
ویسے بھی کہتے ہیں کہ وقت ہر بزدل و کمزور کو بہادر بننے کا ایک موقع ضرور دیتا ہے ، تو یہ وقت ملک کے تمام تر کمزوروں کے لیے بہادر بننے کی دعوت لیے ملکی دروازے پر دستک دے رہا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون '' حُر ِ کربلا '' کی طرح ظالمانہ صفوں سے نکل کر حق ومظلوم کا ساتھی بننے کو ترجیح دیتا ہے ۔ !