سستے آلات موسیقی کی مارکیٹ ماضی کا حصہ بن گئی
تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران جہانگیرپارک سے متصل مارکیٹ کی دکانیں مسمارکردی گئیں، شوقین افراد پریشان
آرٹ کے دلدادہ اور موسیقی کے رسیا افراد کو انتہائی سستے داموں بیرون ملک سے درآمدکردہ استعمال شدہ مگر معیاری آلات موسیقی مہیا کرنے والی مارکیٹ بھی ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئی ہے۔
جہانگیر پارک سے متصل مارکیٹ میں لیدر کی پرانی جیکٹوں، امریکی ویورپی سیکنڈ ہینڈ جوتوں کی درجنوں دکانوں کے بیچ موسیقی کے شوقین افرادکو عام مارکیٹ سے انتہائی کم داموں کی بورڈ (پیانو) مینول اورالیکڑیکل گٹار،ڈرم ،مائیک ،ہیڈفون سمیت دیگر چیزیں باآسانی مل جایاکرتی تھیں۔
پرانے آلات موسیقی کو نئے سیکھنے والے بچے، شوقیہ گلوکار اور جزوقتی طور پر شادی بیاہ ودیگر تقریبات میں گانے والے پیشہ ور فنکار بھی خرید کرلے جاتے تھے،اکثر و بیشتر پرانے سامان کی اس مارکیٹ میں موسیقی سے شغف رکھنے والوں کوانتہائی معیاری اور برانڈڈ اشیا بھی مناسب داموں پر مل جاتی تھیں۔
مارکیٹ کے خاتمے کے بعد چند ایک دکانداروں نے اس کام سے کنارہ کشی کرکے الیکٹرونکس کے پرانے سامان کا کاروبار شروع کردیا جبکہ کچھ دکاندار شہر کے سستے بازاروں میں عارضی اسٹال کے ذریعے آلات موسیقی فروخت کررہے ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ کے گنجان آبادی میں واقع جہانگیر پارک سے متصل بیرون ملک سے درآمد کیے گئے پرانے سامان کی مارکیٹ میں لیدر کی پرانی و استعمال شدہ جیکٹوں اور جوتوں کی درجنوں چھوٹی بڑی دکانوں کے بیچ پرانے اوراستعمال شدہ آلات موسیقی کی دکانیں بھی ہوا کرتی تھیں استعمال شدہ آلات موسیقی کی دکانوں کے خاتمے نے آرٹ کے دلدادہ افراد سے سستے داموں معیاری آلات موسیقی( میوزک انسٹرومنٹ) کی خریداری کاموقع چھین لیا ہے۔
لگ بھگ 20سال سے قائم استعمال شدہ سامان کی مارکیٹ میں موجود دکانوں کا انہدام اور یہاں کے دکانداروں کی بے دخلی نے، آرٹ اور موسیقی کے دلدادہ افراد کو متاثر کر ڈالا،کیونکہ یہاں انھیں ایک ہی مقام پر میوزک سے متعلق اپنے پسند کے آلات مثلا مینول اور الیکٹریکل گٹار، پیانو حتی کہ سائونڈ سسٹم ،ایمپلی فائر باآسانی مل جایا کرتے تھے،شاید یہی وجہ تھی کہ شہر کے ہر علاقے سے موسیقی کے رسیا اسی مارکیٹ کا رخ کرتے تھے۔
اس مارکیٹ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں ہزاروں روپے کی چیز بھائوتائو کرکے سیکڑوں روپے میں مل جاتی تھی،اور یہ تمام اشیامکمل طور پر امپورٹڈ ہوتی تھیں جویہاں کے دکاندار گل بائی کے قریب واقع بڑے بڑے گوداموں سے خرید کر لاتے تھے،گل بائی کے گوداموں میں باقی ماندہ الیکٹرونکس سامان کے ساتھ یہ آلات موسیقی بھی بڑی تعداد میں امریکا،برطانیہ،چین ،جرمنی،تائیوان سمیت بیرون ملک سے آنے والے کنٹینرز میں موجود ہوتے تھے ،ایک مینول بگنر (ابتدائی طور پر سیکھنے والا )پیانو اور گٹار عمدہ حالت میں 1500سے 2000کے درمیان مل جایا کرتا تھا جبکہ معمولی خرابی والی چیزیں تو دکاندار اونے پونے میں دے دیا کرتے تھے۔
گلوکارعالمگیر طارق روڈ پر کیفے ڈی خان میں گٹاربجایاکرتے تھے
گلوکارعالمگیر طارق روڈ پر کیفے ڈی خان پر وہ گٹاربجایا کرتے تھے جس کے عوض انھیں دووقت کی روٹی اور کچھ پیسے مل جایا کرتے تھے مگر اب شہر کی فضائو میں دھنیں بکھیرتی یہ آوازیں کہیں کھو گئی ہیں اوراس کی جگہ بے ہنگم ٹریفک کا شورسنائی دیتاہے۔
نوجوان نسل کا میوزک کی جانب رحجان موجود ہے،میوزک ٹیچر عامرخان
الکرم اسکوائر لیاقت آباد کے میوزک سینٹر میں بطور ٹیچر عامر خان کے مطابق انھیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آج کل کے اسمارٹ فون اور دیگر سوشل رابطوں کے دور کے باوجود نوجوان نسل کا میوزک کی جانب رحجان موجود ہے،عامر خان کے مطابق ان کے پاس کافی بچے سیکھنے آتے ہیں جبکہ کچھ تواپنے لگن کی وجہ سے کافی آگے نکل چکے ہیں۔
آلات موسیقی کی دکانیں گرنے کے بعد کاروبارتبدیل کرلیا،جمعہ خان
جہانگیر پارک سے متصل مارکیٹ میں آلات موسیقی کی دکان چلانے والے جمعہ خان کے مطابق دکانیں گرنے کے بعد اب سب کچھ تتر بتر ہوچکا ہے اور انتہائی کوششوں کے باوجود میوزک کے سامان کی کوئی باقاعدہ مارکیٹ قائم نہیں کی جاسکی ہے، اسی وجہ سے اب انھوں نے کاروبار تبدیل کرلیا ہے اور وہ اب الیکٹرونکس کا متفرق سامان مثلا پنکھے،ٹیپ ریکارڈر،ایل سی ڈی وغیرہ فروخت کررہے ہیں۔
جونامارکیٹ اور دیگر علاقوں میں اب پیانوڈرم گٹکارودیگرآلات مل جاتے ہیں
صدرکے کچھ دکانداروں کے مطابق موسیقی کے آلات فروخت کرنے والے کچھ دکانداروں نے قرب وجوارمیں کسی متبادل جگہ پر کاروبار کو نئے سرے سے چلانے کے لیے تگ ودو کی مگر اس کا کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکل سکا اب لیاقت آباد سی ون ایریا،الکرم اسکوائر اور جونا مارکیٹ ،نگار سینما سمیت لیاری کے کچھ علاقوںمیں ہراقسام کے پیانو،ڈرم،گٹارجبکہ دیگرآلات موسیقی باآسانی مل جاتے ہیں،شہر کے ان مختلف مقامات پر موجود ان دکانوں میں میوزک سکھانے والے ٹیچر بھی مل جاتے ہیں جو ہفتے میں ایک ایک گھنٹے کی دوکلاسیں کرواتے ہیں اور جن کی ماہانہ فیس 1500روپے ہے،یہ میوزک کے ٹیچر گھروں پر بھی سکھانے جاتے ہیں۔
ماضی میں سڑکوں پروائلن اورگٹاربجانے والے نظرآتے تھے
شہر کے پرانے باسی اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے افراد اکثروبیشتر جب کسی تقریب یا محفل میں جب کبھی اپنی ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں،تو اس میں ایک ذکر کثرت سے ملتاہے کہ گزرتے وقتوں میں شہر کی معروف سڑکوں پر وائلن اور گٹاربجاتے فنکار پائے جاتے تھے،خاص طورپرزیب النسا اسٹریٹ اورصدرکے کچھ مقامات پرشام ڈھلتے ہی چلتے چلتے آپ کی نگاہ سڑک کنارے مخصوص انداز میں کھڑے شخص پرپڑتی تھی جو وائلن اورسیکسوفون کے ذریعے دھنیں بکھیر رہا ہوتاتھا،یا پھر گٹارکے تاروں کو چھیڑکر کوئی مشہورنغمہ گنگنا رہا ہوتا تھا،موسیقی کی زبان میں بات کرنے والے اس فنکارکا اپنا ایک الگ ہی انداز ہواکرتا تھا۔
یہ فنکارکبھی بھی نذرانہ منہ سے نہیں مانگا کرتا تھا بلکہ لوگ خود ہی انھیں کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے اور اکثر منچلے ان سے اپنی مرضی کی دھنوں کی فرمائش بھی کردیا کرتے تھے،اکثر ان فنکاروں کا حلیہ بھی منفرد ہی ہواکرتا تھا،ہاتھ میں آلہ میوزک ،ٹوپیس سوٹ اور شرٹ پر بو لگی ہوئی،سر پر اکثر ہیٹ جو بسااوقات نذرانے کی وصولی کے لیے بھی استمعال کیا جاتا تھا، اس کی ایک اور شکل 60اور70کی دہائی میں شہر میں کچھ ہوٹل یا پھر معیاری قسم کے چائے خانوں پر اس قسم کے آرٹسٹ موجود ہوتے تھے جوگاہگوں کی تفریح طبع کے لیے موسیقی بجاتے تھے۔
جہانگیر پارک سے متصل مارکیٹ میں لیدر کی پرانی جیکٹوں، امریکی ویورپی سیکنڈ ہینڈ جوتوں کی درجنوں دکانوں کے بیچ موسیقی کے شوقین افرادکو عام مارکیٹ سے انتہائی کم داموں کی بورڈ (پیانو) مینول اورالیکڑیکل گٹار،ڈرم ،مائیک ،ہیڈفون سمیت دیگر چیزیں باآسانی مل جایاکرتی تھیں۔
پرانے آلات موسیقی کو نئے سیکھنے والے بچے، شوقیہ گلوکار اور جزوقتی طور پر شادی بیاہ ودیگر تقریبات میں گانے والے پیشہ ور فنکار بھی خرید کرلے جاتے تھے،اکثر و بیشتر پرانے سامان کی اس مارکیٹ میں موسیقی سے شغف رکھنے والوں کوانتہائی معیاری اور برانڈڈ اشیا بھی مناسب داموں پر مل جاتی تھیں۔
مارکیٹ کے خاتمے کے بعد چند ایک دکانداروں نے اس کام سے کنارہ کشی کرکے الیکٹرونکس کے پرانے سامان کا کاروبار شروع کردیا جبکہ کچھ دکاندار شہر کے سستے بازاروں میں عارضی اسٹال کے ذریعے آلات موسیقی فروخت کررہے ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ کے گنجان آبادی میں واقع جہانگیر پارک سے متصل بیرون ملک سے درآمد کیے گئے پرانے سامان کی مارکیٹ میں لیدر کی پرانی و استعمال شدہ جیکٹوں اور جوتوں کی درجنوں چھوٹی بڑی دکانوں کے بیچ پرانے اوراستعمال شدہ آلات موسیقی کی دکانیں بھی ہوا کرتی تھیں استعمال شدہ آلات موسیقی کی دکانوں کے خاتمے نے آرٹ کے دلدادہ افراد سے سستے داموں معیاری آلات موسیقی( میوزک انسٹرومنٹ) کی خریداری کاموقع چھین لیا ہے۔
لگ بھگ 20سال سے قائم استعمال شدہ سامان کی مارکیٹ میں موجود دکانوں کا انہدام اور یہاں کے دکانداروں کی بے دخلی نے، آرٹ اور موسیقی کے دلدادہ افراد کو متاثر کر ڈالا،کیونکہ یہاں انھیں ایک ہی مقام پر میوزک سے متعلق اپنے پسند کے آلات مثلا مینول اور الیکٹریکل گٹار، پیانو حتی کہ سائونڈ سسٹم ،ایمپلی فائر باآسانی مل جایا کرتے تھے،شاید یہی وجہ تھی کہ شہر کے ہر علاقے سے موسیقی کے رسیا اسی مارکیٹ کا رخ کرتے تھے۔
اس مارکیٹ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں ہزاروں روپے کی چیز بھائوتائو کرکے سیکڑوں روپے میں مل جاتی تھی،اور یہ تمام اشیامکمل طور پر امپورٹڈ ہوتی تھیں جویہاں کے دکاندار گل بائی کے قریب واقع بڑے بڑے گوداموں سے خرید کر لاتے تھے،گل بائی کے گوداموں میں باقی ماندہ الیکٹرونکس سامان کے ساتھ یہ آلات موسیقی بھی بڑی تعداد میں امریکا،برطانیہ،چین ،جرمنی،تائیوان سمیت بیرون ملک سے آنے والے کنٹینرز میں موجود ہوتے تھے ،ایک مینول بگنر (ابتدائی طور پر سیکھنے والا )پیانو اور گٹار عمدہ حالت میں 1500سے 2000کے درمیان مل جایا کرتا تھا جبکہ معمولی خرابی والی چیزیں تو دکاندار اونے پونے میں دے دیا کرتے تھے۔
گلوکارعالمگیر طارق روڈ پر کیفے ڈی خان میں گٹاربجایاکرتے تھے
گلوکارعالمگیر طارق روڈ پر کیفے ڈی خان پر وہ گٹاربجایا کرتے تھے جس کے عوض انھیں دووقت کی روٹی اور کچھ پیسے مل جایا کرتے تھے مگر اب شہر کی فضائو میں دھنیں بکھیرتی یہ آوازیں کہیں کھو گئی ہیں اوراس کی جگہ بے ہنگم ٹریفک کا شورسنائی دیتاہے۔
نوجوان نسل کا میوزک کی جانب رحجان موجود ہے،میوزک ٹیچر عامرخان
الکرم اسکوائر لیاقت آباد کے میوزک سینٹر میں بطور ٹیچر عامر خان کے مطابق انھیں یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آج کل کے اسمارٹ فون اور دیگر سوشل رابطوں کے دور کے باوجود نوجوان نسل کا میوزک کی جانب رحجان موجود ہے،عامر خان کے مطابق ان کے پاس کافی بچے سیکھنے آتے ہیں جبکہ کچھ تواپنے لگن کی وجہ سے کافی آگے نکل چکے ہیں۔
آلات موسیقی کی دکانیں گرنے کے بعد کاروبارتبدیل کرلیا،جمعہ خان
جہانگیر پارک سے متصل مارکیٹ میں آلات موسیقی کی دکان چلانے والے جمعہ خان کے مطابق دکانیں گرنے کے بعد اب سب کچھ تتر بتر ہوچکا ہے اور انتہائی کوششوں کے باوجود میوزک کے سامان کی کوئی باقاعدہ مارکیٹ قائم نہیں کی جاسکی ہے، اسی وجہ سے اب انھوں نے کاروبار تبدیل کرلیا ہے اور وہ اب الیکٹرونکس کا متفرق سامان مثلا پنکھے،ٹیپ ریکارڈر،ایل سی ڈی وغیرہ فروخت کررہے ہیں۔
جونامارکیٹ اور دیگر علاقوں میں اب پیانوڈرم گٹکارودیگرآلات مل جاتے ہیں
صدرکے کچھ دکانداروں کے مطابق موسیقی کے آلات فروخت کرنے والے کچھ دکانداروں نے قرب وجوارمیں کسی متبادل جگہ پر کاروبار کو نئے سرے سے چلانے کے لیے تگ ودو کی مگر اس کا کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکل سکا اب لیاقت آباد سی ون ایریا،الکرم اسکوائر اور جونا مارکیٹ ،نگار سینما سمیت لیاری کے کچھ علاقوںمیں ہراقسام کے پیانو،ڈرم،گٹارجبکہ دیگرآلات موسیقی باآسانی مل جاتے ہیں،شہر کے ان مختلف مقامات پر موجود ان دکانوں میں میوزک سکھانے والے ٹیچر بھی مل جاتے ہیں جو ہفتے میں ایک ایک گھنٹے کی دوکلاسیں کرواتے ہیں اور جن کی ماہانہ فیس 1500روپے ہے،یہ میوزک کے ٹیچر گھروں پر بھی سکھانے جاتے ہیں۔
ماضی میں سڑکوں پروائلن اورگٹاربجانے والے نظرآتے تھے
شہر کے پرانے باسی اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے افراد اکثروبیشتر جب کسی تقریب یا محفل میں جب کبھی اپنی ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں،تو اس میں ایک ذکر کثرت سے ملتاہے کہ گزرتے وقتوں میں شہر کی معروف سڑکوں پر وائلن اور گٹاربجاتے فنکار پائے جاتے تھے،خاص طورپرزیب النسا اسٹریٹ اورصدرکے کچھ مقامات پرشام ڈھلتے ہی چلتے چلتے آپ کی نگاہ سڑک کنارے مخصوص انداز میں کھڑے شخص پرپڑتی تھی جو وائلن اورسیکسوفون کے ذریعے دھنیں بکھیر رہا ہوتاتھا،یا پھر گٹارکے تاروں کو چھیڑکر کوئی مشہورنغمہ گنگنا رہا ہوتا تھا،موسیقی کی زبان میں بات کرنے والے اس فنکارکا اپنا ایک الگ ہی انداز ہواکرتا تھا۔
یہ فنکارکبھی بھی نذرانہ منہ سے نہیں مانگا کرتا تھا بلکہ لوگ خود ہی انھیں کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے اور اکثر منچلے ان سے اپنی مرضی کی دھنوں کی فرمائش بھی کردیا کرتے تھے،اکثر ان فنکاروں کا حلیہ بھی منفرد ہی ہواکرتا تھا،ہاتھ میں آلہ میوزک ،ٹوپیس سوٹ اور شرٹ پر بو لگی ہوئی،سر پر اکثر ہیٹ جو بسااوقات نذرانے کی وصولی کے لیے بھی استمعال کیا جاتا تھا، اس کی ایک اور شکل 60اور70کی دہائی میں شہر میں کچھ ہوٹل یا پھر معیاری قسم کے چائے خانوں پر اس قسم کے آرٹسٹ موجود ہوتے تھے جوگاہگوں کی تفریح طبع کے لیے موسیقی بجاتے تھے۔