مانڈوی والا کیخلاف تحریک عدم اعتماد ظفر الحق ممکنہ امیدوار
ڈپٹی چیئرمین پر پی پی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک ہو گیا تو چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں رکاوٹ آ سکتی ہے
سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کی شطرنج پر مسلم لیگ ن نے بھی اپنی چال چل دی، تحریک انصاف کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد پیش کیے جانے کے بعد ن لیگ نے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ اپنے پاس لینے کیلیے سنجیدہ مشاورت اور لابنگ کا آغاز کر دیا۔
پیپلز پارٹی کیلیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانے کیلیے مسلم لیگ ن کا ساتھ ہونا لازم ہے اور اگر ن لیگ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ لینے کی شرط عائد کرتی ہے تو پیپلز پارٹی قیادت کیلئے اپنے اہم ترین رہنما سلیم مانڈوی والا کی ''قربانی'' ناگزیر ہو جائے گی، اس وقت سینیٹ میں 30 نشستوں کیساتھ سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی ن لیگ کے پاس ہے جس پر سینئر لیگی رہنما اور چیئرمین مسلم لیگ ن راجہ ظفر الحق تعینات ہیں ۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ اگر ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ لینے کا حتمی فیصلہ کرتی ہے تو ایسی صورت میں راجہ ظفر الحق بھی ڈپٹی چیئرمین کیلئے ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں ۔ ن لیگی رہنمائوں میں سے بعض کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری کی درخواست پر ہم نے چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حاصل بزنجو کو امیدوار بنانے کی حمایت کی ، عددی اکثریت کی بناء پر ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ مسلم لیگ ن کو ضرور ملنا چاہئے ، ہم سب کچھ پیپلز پارٹی کو ''گفٹ'' نہیں کر سکتے ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کو اپنے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی قربانی دینا آسان نہیں ۔ ذرائع کے مطابق اگر ن لیگ کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کی باضابطہ فرمائش آگئی تو آصف زرداری مشکل صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ ن لیگ کے بغیر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس وقت سینیٹ میں 64 رکنی اپوزیشن میں مسلم لیگ ن کی 30 اور پیپلز پارٹی کی 20 نشستیں ہیں جبکہ ایم ایم اے 6 ، نیشنل پارٹی 5، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی 2 اور اے این پی کی 1 نشست ہے جبکہ 40 رکنی حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 17 ، بلوچستان عوامی پارٹی 11 ، ایم کیو ایم 5 ، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) اور جی ڈی اے کے پاس 1 نشست موجود ہے۔
نشستوں کی تعداد کے تناسب سے اپوزیشن اتحاد کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن اندرون خانہ کئی سینیٹرز اس تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں ہیں ایسی صورتحال میں اگر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک پیدا ہوجاتا ہے تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ آ سکتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کیلیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانے کیلیے مسلم لیگ ن کا ساتھ ہونا لازم ہے اور اگر ن لیگ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ لینے کی شرط عائد کرتی ہے تو پیپلز پارٹی قیادت کیلئے اپنے اہم ترین رہنما سلیم مانڈوی والا کی ''قربانی'' ناگزیر ہو جائے گی، اس وقت سینیٹ میں 30 نشستوں کیساتھ سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن ہے اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی ن لیگ کے پاس ہے جس پر سینئر لیگی رہنما اور چیئرمین مسلم لیگ ن راجہ ظفر الحق تعینات ہیں ۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ اگر ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ لینے کا حتمی فیصلہ کرتی ہے تو ایسی صورت میں راجہ ظفر الحق بھی ڈپٹی چیئرمین کیلئے ممکنہ امیدوار ہو سکتے ہیں ۔ ن لیگی رہنمائوں میں سے بعض کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری کی درخواست پر ہم نے چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حاصل بزنجو کو امیدوار بنانے کی حمایت کی ، عددی اکثریت کی بناء پر ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ مسلم لیگ ن کو ضرور ملنا چاہئے ، ہم سب کچھ پیپلز پارٹی کو ''گفٹ'' نہیں کر سکتے ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کو اپنے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی قربانی دینا آسان نہیں ۔ ذرائع کے مطابق اگر ن لیگ کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کی باضابطہ فرمائش آگئی تو آصف زرداری مشکل صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ ن لیگ کے بغیر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس وقت سینیٹ میں 64 رکنی اپوزیشن میں مسلم لیگ ن کی 30 اور پیپلز پارٹی کی 20 نشستیں ہیں جبکہ ایم ایم اے 6 ، نیشنل پارٹی 5، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی 2 اور اے این پی کی 1 نشست ہے جبکہ 40 رکنی حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 17 ، بلوچستان عوامی پارٹی 11 ، ایم کیو ایم 5 ، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) اور جی ڈی اے کے پاس 1 نشست موجود ہے۔
نشستوں کی تعداد کے تناسب سے اپوزیشن اتحاد کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن اندرون خانہ کئی سینیٹرز اس تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں ہیں ایسی صورتحال میں اگر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک پیدا ہوجاتا ہے تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ آ سکتی ہے ۔