ممنون حسین کی صدارتی تقریب
ممنون صاحب کی تجارتی زندگی کے دوران ان کی سیاسی زندگی بھی ساتھ ساتھ رواں دواں رہی ہے۔
یہ محض اتفاق تھا کہ پاکستان کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری پر اے پی سی (APC) کی خبریں غالب رہیں مگر جہاں تک تقریب کے وقار کا تعلق تھا وہ اپنے اندر تمام اس تشخص سے پر تھی جو صدر ممنون حسین کی شان سے مطابقت رکھتی تھی، نہ زندہ باد کا شور نہ کسی پارٹی کی سربلندی اب امید ہے کہ ان کے عہد صدارت میں قصر صدارت کسی مخصوص پارٹی کی صداؤں سے نہ گونجے گا اور اگر کوئی آوازہیں، یہ سطور اس لیے تحریر نہیں کی جارہی ہیں کہ راقم کبھی بھی مسلم لیگ کا کارکن رہا ہو بلکہ اس تحریر میں صدر صاحب کی ذاتی زندگی اور ان کے کردار کی روشنی میں رقم کی جارہی ہیں، ممنون صاحب کی صدارت سے چند ہفتہ قبل جو آرٹیکل تحریر کیا تھا، اس کے ردعمل کے طور پر جن لوگوں کو انھوں نے یاد فرمایا وہ ان کے 50 کی دہائی کے سیاسی رفیق اور نکتہ چیں بھی تھے اس سے ان کی وسیع النظری کا اندازہ ہوتاہے۔
ممنون صاحب کی تجارتی زندگی کے دوران ان کی سیاسی زندگی بھی ساتھ ساتھ رواں دواں رہی ہے۔ اسی لیے وہ بابائے سندھ حیدر بخش جتوئی اور ان کے ہمنواؤں کے معترف رہے ہیں۔ ایک عالم جناب علامہ ابن حسن جارچوی صاحب جب تک کراچی مسلم لیگ کا قلم دان ان کے سپرد تھا تو 9 اور 10 محرم کا ماتمی جلوس جہانگیر پارک کراچی سے برآمد ہوتا تھا اور اس جلوس کی خصوصیت یہ تھی کہ ماتمی جلوس اور ڈھول اور تعزیے کا جلوس جو اہل سنت نکالتے تھے، ساتھ ساتھ آگے پیچھے چلتے تھے تو مسلم لیگ میں وضع داری روشن خیالی موجود رہی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب مسلم لیگ لیڈرشپ کے مسئلے نے اہمیت اختیار کرلی ہمہ گیریت میں کمی آتی گئی تو پھر مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں ہوتی گئیں۔
جتنے بھی فوجی حکمراں آئے انھوں نے اپنی مسلم لیگ بنالی اور پھر ان کے جانشینوں نے ان میں اضافہ کیا یہاں تک کہ اسمبلی کی ایک سیٹ لینے والے کی بھی ایک مسلم لیگ ہے ، دھڑے بندی، گروہی سیاست کو فروغ ملا، خاندانی سیاست کو عروج اب اقبال اور قائد کے ماننے والے اجتماعی سوچ کو فراموش کرتے چلے گئے جب کہ ممنون حسین اسی گروہی سیاست سے خود کو دور رکھتے رہے ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف کو شاید ان کی یہی وضع داری پسند آئی ہے اور اصول پرستی اور ذاتی منفعت سے دوری ان کا وطیرہ ہے، ممکن ہے کہ ان کے دور میں گروہی سیاست کو فروغ نہ ملے اور اجتماعی سیاست کو پھولنے پھلنے کا موقع ملے مگر یہ تمام باتیں امکانات اور اختیارات کے دائرہ کار میں آتی ہیں، آج سے قبل صدر زرداری کی حکومت تھی نہ یوسف رضا گیلانی کی اور نہ کسی اور لائق و فائق کی، تمام فیصلے قصر صدارت میں ہوتے تھے، انھی کے احکامات سے حکومت چل رہی تھی۔ یہ کون نہیں جانتا محض قانونی کارروائی کے لیے بلاول بھٹو نے پارٹی کا قلم دان سنبھال رکھا تھا گوکہ یہ حکومت پارلیمانی طرز حکومت تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ممنون صاحب کی صدارت حکومتی فیصلوں سے خاصی دور کھڑی رہے گی اور اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہوگی کیونکہ صدر ممنون کا عوام سے رابطہ رہا ہے وہ عوامی طبقوں کے نمایندہ ہیں ان کی یہ خصوصیت عام آدمی کے افکار کی آئینہ دار ہے جس کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے ہیں جہاں پیدا
محلات بنانے، حویلیاں تیار کرنے سے کوئی ترقی نہیں ہوتی یہ تو تازہ افکار، مسائل کو حل کرنا، معاملات کو کئی سمتوں سے دیکھنا ہوتا ہے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جن کے پاس جس قدر مال و دولت ہے وہ اتنا ہی دانا و بینا ہے ایسا ہر گز نہیں ۔ اگر یہ بات ہوتی تو سائنس آرٹس، فلسفہ میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کا کوئی عمل دخل ہوتا، یا ایجادات ہوتیں۔ یہ دانا لوگ تو دنیا سے کنارہ کش ہوکر دھیان گیان کی ایک سمت کا تعین کرتے ہیں تب ان کی پذیرائی ہوتی ہے۔ نوبل انعامات پاتے ہیں ایسے ہی لوگ جہان نو کی تعمیر کرتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسے لوگ زیر دست پست اور غمزدہ ہیں جعلی دانشور نمود اور نمائش کے عہدوں پر فائز ہیں۔ ممنون صاحب کراچی کی اہل دانش کی محفلوں میں آتے جاتے رہے ان سے واقف ہیں ایک معمولی سی مثال پیش کرتا ہوں۔
1966 کی بات ہے تقریباً ہر ماہ ہمارے گھر پر ادبی نشست ہوتی تھی جوش صاحب آخر میں اپنا کلام پڑھتے تھے، محدود شعراء اور سامعین ہوتے تھے اور ان کی چائے پانی پر میں اور ایک دو لوگ ہاتھ بٹاتے تھے میں کمرے میں چائے لے کر حاضر ہوا سادے کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین پر پڑا تھا میرا پاؤں اس پر پڑ گیا۔ جوش صاحب نے کہا بیٹا! چائے رکھو، کاغذ اٹھاؤ اور چومو اس پر علم رکھا جاتا ہے تعظیم کرو تو کہنا یہ ہے کہ عالموں کے روبرو چلتے پھرتے علم برستا ہے بالکل علم کی برسات ہوتی رہتی ہے لہٰذا ایسے دیدہ ور کو اگر سیاسی زندگی سے دور رکھا گیا تو پھر صدر ممنون سے ملک فیض یاب نہ ہوسکے گا ہر چیز کے لیے مینڈیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ورنہ جلد ہماری قوم میں وہ دن آنے کو ہے کہ علاقے کے لوگ بااختیار متقی کا چناؤ کرکے کسی کو بھی اللہ واہ کہہ کر چناؤ کردیں گے اور پھر لوگ اس کا فیصلہ مانیں گے مانا کی صدر صاحب کسی بھی کیمپ کے نہیں۔
نہ دائیں بازو کے اور نہ بائیں بازو کے، نہ لبرل اور نہ قدامت پرستوں کے حامی، مگر پاکستان کے مسئلے پر ان کی آرا ضروری ہے ملک کے اہم فیصلوں میں ان کی آرا اور بعض اہم شعبہ ہائے زندگی میں ان کا عمل دخل ضروری ہے۔ ماضی میں جمہوری حکومتیں ایسی گزری ہیں جہاں وزیر اعظم نے صدور کو عضو معطل بنا کر رکھا تھا اور خود بھی وہ جمہوری، علمی اور سیاسی آرا سے دور تھے البتہ بے نظیربھٹو کے دور میں جب وہ 1989 میں بطور وزیر اعظم عوام کے سامنے آئیں تو انھوں نے ادبی اور علمی حقیقت کو پہلی بار پاکستان میں اہمیت دی مگر وہ دور ایک اعتبار سے حکومت کو تقویت توانائی بخشنے کا ذریعہ بنتا تھا مگر بعض پہلوؤں پر دور رس مقالے پڑھے گئے مگر حکومت نے ان پر عمل نہ کیا یہ اہل قلم کانفرنس 28 تا 30 مارچ لاہور میں منعقد ہوئی تھی مگر چونکہ معاملات خاصے پیچیدہ ہوچکے ہیں۔
لہٰذا اس کانفرنس کا دائرہ کار وسیع تر ہونا چاہیے یہ کانفرنس صدر ممنون حسین بہ طریقہ احسن منعقد کراسکتے ہیں جس میں ادب، سیاست پر مقالے اور پاکستان کے مخصوص حالات پر بھی جائزہ ضروری ہے مینڈیٹ والوں کی سیاسی بصیرت تو سامنے آچکی ہوگی اس کے بعد کے حالات پر فلسفی حضرات جنھیں ملک کی مختلف جامعات سے چنا جاسکتا ہے۔ یہ کانفرنس ملک کو نئی سمت دے گی اور امن کی ضمانت کی ضامن ہوگی اور ملکی مسائل کے حل کے لیے نشاندہی ہوگی۔ صدر صاحب کے جذبے کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ان میں جذبہ خود نمائی نہیں ان کو صدارت کی اطلاع ملتے ہی انھوں نے جس سرعت سے ماضی کے ورق الٹے ہیں وہ اہل نظر دیکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ محض ان کو قصر صدارت کی زینت بنانے کے بجائے انھیں ان کی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور تمام ملکی معاملات میں ان کی رائے کو فوقیت دی جائے۔
جس سے دل دریا میں تلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
اقبال