کل جماعتی کانفرنس میں زیر بحث نہ آنے والا گروپ
بالآخر وہی سکندر زمرد خان کی بہادری یا بے وقوفی سے پکڑا گیا۔
چند ہی روز پہلے میں نے اس کالم میں مودبانہ التجا کی تھی کہ کراچی میں بے رحم آپریشن کا مطالبہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسنا شروع ہو جاتا ہے۔ بالآخر وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا اور چونکہ میں اس ضمن میں پورا سچ لکھنے کی ہمت نہیں رکھتا اس لیے خاموشی ہی بھلی۔ ہائے کراچی وائے کراچی کی دہائی دینے والے ویسے بھی بے شمار ہیں۔ ان میں سے کئی ایک تو اس شہر کے معاملات کو سمجھنے اور انھیں سلجھانے کے نسخے تیار کرتے ہوئے ابنِ خلدون جیسے مفکرین سے زیادہ بصیرت کے حامل نظر آتے ہیں۔ ذات کا محض رپورٹر ہوتے ہوئے میں کوئی نئی بات کر ہی نہیں سکتا۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ویسے بھی اسلام آباد میں جہاں میں 1975ء سے مقیم ہوں چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے مجھے دور کی کوڑیاں ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا ہے۔
سکندر نام کا وہ شخص تو آپ کو یاد ہو گا جو اپنی بیوی اور بچوں سمیت ہوائی فائر کرتا اسلام آباد کی سب سے بڑی سڑک کے عین درمیان آ کھڑا ہوا تھا۔ پورے پانچ گھنٹے ہمارے 24/7 والوں نے اس کا تماشہ دکھایا۔ اپنی بندوق کے زور پر اس نے میرے چند دوستوں کو پولیس کے گھیرے میں کھڑے ہوئے طویل انٹرویو بھی دے ڈالے۔ وہ سب Live چلے۔ مطالبہ اس کا یہ نکلا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ''اسلام نافذ'' کر دیا جائے اور امریکا کے ساتھ ہم قومی غیرت اور حمیت کی قوت سے بات چیت کریں۔
بالآخر وہی سکندر زمرد خان کی بہادری یا بے وقوفی سے پکڑا گیا۔ آج کل پولیس کی حراست میں اپنا علاج کرا رہا ہے۔ اس کی حراست کے دوران پولیس اور ہمارے تمام تفتیشی اور جاسوسی اداروں نے اپنے اپنے وسائل کو جمع کرنے کے بعد اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں تمام تفصیلات اکٹھی کر لی ہیں۔ ان تفصیلات کو سوائے ایک رپورٹر کے کسی اور نے مجھے یا آپ کو اپنے اخبار یا ٹیلی وژن ادارے کے ذریعے بتانے کی جرأت ہی نہیں کی۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ آپ نہیں جانتے تو ڈرتے ڈرتے بس اتنا یاد دلا دیتا ہوں کہ موصوف ایک زمانے میں سچ مچ کے ''جہادی'' ہوا کرتے تھے۔ ایک اہم تنظیم کے ساتھ منسلک رہے۔ پھر ایک خلیجی ملک کے مخبر بن گئے۔ مخبری کے اس عرصے میں ان کا ضمیر دوبارہ جاگ گیا۔
راہِ راست پر آ کر پھر بھٹک گئے۔ خدا جانے میرے اور آپ کے اِردگرد سکندر جیسے کتنے اور لوگ ہیں جو صحیح اور غلط کے درمیان اسی کی طرح بھٹکتے ہوئے بالآخر تھک کر اپنے گھروں میں بیٹھے جانے کیا سوچ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ سکندر ہی کی طرح اپنے شہروں کی مصروف شاہراہوں پر ایک دن اچانک نمودار ہو کر ٹیلی وژن کو Live کہانیاں فراہم کر سکتے ہیں۔
بات صرف ایک سکندر پر ختم ہو جاتی تو میں دور کی کوڑیاں ڈھونڈنے پر خود کو مجبور نہ پاتا۔ اسلام آباد ہی کے نواحی بھارہ کہو میں عید کے روز ایک مسجد پر حملہ ہوا۔ محافظوں کے چوکس ہونے کی وجہ سے خود کش حملہ آور مارا گیا۔ اس کی لاش کو تحویل میں لے کر پولیس اس کے دوستوں اور لواحقین کی تلاش میں نکلی تو حیران کن انکشاف ہوئے۔
کسی اخباری رپورٹر نے نہیں اس ملک کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں از خود بتایا کہ عید کے دن مارے جانے والا خودکش تھا تو چنیوٹ کا رہنے والا مگر دوستی اس کی اسلام آباد میں موجود ایک گروپ سے ہو گئی تھی۔ اس گروپ کے نوجوان تعلق تو جنوبی وزیرستان سے رکھتے تھے مگر ان کا یا ان کے قریبی عزیزوں یا خاندان والوں کا کسی بھی انتہا پسند گروپ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ مگر انٹرنیٹ کی مدد سے اس ملک میں جہاد برپا کرنے کے نت نئے طریقے سوچنا شروع ہو گئے۔ ان کے کالج کی ایک طالبہ بھی ان کے ساتھ مل گئی اور اس نے اپنا گھر ان لوگوں کے گویا ''ہیڈ کوارٹر'' میں تبدیل کر دیا۔
ابھی اس گروپ کی کہانی پوری طرح منظر عام پر نہیں آئی تھی کہ بھارہ کہو ہی کے علاقے سے ایک اور گھر کے برآمدے میں کھڑی ایک گاڑی پکڑی گئی۔ اس کے دروازوں کو بارود سے بھر کر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کسی بڑے دھماکے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ گاڑی کی ملکیت ایک ایسے نوجوان کے نام تھی جس کا بھائی پولیس میں ایک بڑے اہم عہدے پر فائز ہے۔ اس شخص کو گرفتار کرنے کے بعد تفتیش ہوئی تو مقامی پولیس، اسلام آباد کے مضافاتی ایک اور سیکٹر کے ایک اور مکان تک پہنچی۔
اس کے تہہ خانے میں ریموٹ سے چلائے جانے والے چار کھلونا نما طیارے برآمد ہوئے۔ ان طیاروں میں جاسوسی کے آلات فٹ کر کے انھیں بارود سے بھر دیا گیا تھا۔ صاف ارادہ اسلام آباد کی کچھ عمارتوں کو نشانہ بنا کر انھیں ''دیسی ڈرون حملوں'' سے تباہ کر دینا تھا۔ وہ گھر جہاں سے یہ طیارے برآمد ہوئے ایک ڈاکٹر کے استعمال میں تھا۔ تعلق اس ڈاکٹر کے خاندان کا مقبوضہ کشمیر سے تھا جس کے کچھ افراد وہاں کی آزادی کی تحریک میں کافی نمایاں رہے تھے۔
سکندر کے واقعے سے ہٹ کر ہونے والے یہ دو واقعات واضح طور پر نشان دہی کر رہے ہیں کہ اب ہمارے ملک میں نوجوانوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ بن گئے ہیں۔ انٹرنیٹ ان کے جذبات بھڑکاتا ہے اور وہ اپنی مدد آپ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے جہاد کے نام پر اس ملک میں تباہی پھیلانے کے نت نئے طریقے سوچتے اور انھیں عمل میں لانے کی لگن میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اپنے طور پر میں نے کافی تحقیق کرنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کی کہ حال ہی میں دہشت گردی کا علاج سوچنے کے لیے جو کُل جماعتی کانفرنس برپا ہوئی اس کے دوران کسی سیاسی رہنما یا حکومتی اہلکار نے کھمبیوں کی طرح از خود اُگنے والے متوسط طبقے کے بظاہر نارمل اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے ان گروہوں کا بھی تذکرہ کیا یا نہیں۔ مجھے حیرت ہوئی اور بڑے افسوس کے ساتھ آپ کو بھی بتا رہا ہوں کہ اس معاملے پر کسی نے کوئی بات نہیں کی۔
چوہدری نثار علی خان تو بڑے پُر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں یقین سا ہو گیا ہے کہ کُل جماعتی کانفرنس کے بعد مذاکرات کے ذریعے پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ اللہ کر ے وہ جو سوچ رہے ہیں ویسا ہی ہو۔ پھر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کا کیا ہو گا جو انٹرنیٹ کے ذریعے ''جہادی اختراعات'' کے مشغلے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس میں ان کی نمایندگی تو کیا ہونا تھی۔ ان کا ذکر تک نہیں ہوا۔