کھسیانی بلی کھمبا نوچے

لیکن بدقسمتی سے موجودہ بدامنی اوردہشت گردی کی لہر اپنے عروج کو پہنچ گئی

ابھی چند مہینوں اور دنوں سے لیاری کی بدامنی اور تشویشناک صورت حال کی وجہ سے پورے شہر کی فضا خراب ہوگئی تھی۔ یہ صورت حال اتنی شدت پکڑ گئی کہ حکومتی اہلکاروں، پولیس اور رینجرز کی دسترس سے باہر ہوگئی۔ یعنی یوں کہیے کہ امن وامان کی صورت حال سنگینی اختیار کرگئی۔ ماورائے دیگر حیلوں بہانوں کے یہ حکومت وقت کی ذمے داری بھی اور فرض بھی ہوتا ہے کہ وہ ان تشویشناک حالات کو قابو کرے یا کنٹرول کرے۔ جس کے لیے آئینی و قانونی اقدامات کیے جاتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے موجودہ بدامنی اوردہشت گردی کی لہر اپنے عروج کو پہنچ گئی اور نہ حکومت کی رٹ کہیں نظر آرہی تھی نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی کوئی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار ہورہی تھی اور دہشت گرد اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے پاس جدید ہتھیار بھی ہیں۔ تربیت یافتہ افرادی قوت بھی۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آرہے تھے۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا یا جوابی حملے کرنا دشوار گزار ہوگیا تھا اور اب بھی یہی صورت حال ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان نے امن وامان بحالی کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں کی۔ ان کا خیال تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر اس کیس کی سماعت سے صحیح زمینی حقائق کا اندازہ کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

دوسری جانب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پیش کردہ تحقیقاتی رپورٹس غیر تسلی بخش اور ادھوری نظر آتی تھیں۔ عدلیہ کے لیے یہ آسان نہ تھا کہ بار بار حکومتی ذمے داروں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور افسران کو اسلام آباد طلب کیا جاتا جس کی وجہ سے سماعتیں ملتوی کرنا یا ان کی تاریخیں آگے بڑھانا ضروری ہوجاتا تھا۔ سماعتوں کے بار بار التوا کی وجہ سے وقت اور پیسہ ضایع ہورہا تھا اور کیس کی سماعت تسلسل کے ساتھ نہ ہونے کی بنا پر کسی بھی مرحلے پر کسی نکتے پر رائے قائم کرنا یا فیصلہ صادر کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔ اٹارنی جنرل صاحب کو بار بار دورے کرکے حکومتی ارباب سے ہدایات لینا پڑتی تھیں اور حکومت کی طرف سے غیر ذمے دارانہ طریقہ کار اپنایا جارہا تھا۔ یعنی صحیح معلومات دینے کی بجائے عدالتی احکامات کی نفی کی جارہی تھی جو اس حد تک تجاوز کرگئی کہ عدالتی حکم عدولی کی صورت اختیار کرگئی۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ گزشتہ حکومت (صوبائی حکومت) نے اپنے 5 سالہ دور حکومت میں بھی اس کیس کو جلد نمٹانے کی کوشش میں عدالت عظمیٰ سے تعاون نہیں کیا۔ حالانکہ گزشتہ دو برس پہلے ہی عدالت نے حکم نامہ جاری کیا تھا اور کچھ اقدامات تجویز کیے تھے مگر سب درخوراستثنا سمجھے گئے۔ یعنی ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔

اب مئی 2013 کے انتخابات کے بعد صوبہ سندھ میں وہی (سابقہ پیپلزپارٹی) حکومت برسراقتدار آگئی ہے لیکن کراچی کی امن وامان کی صورت حال مزید بگڑی ہوئی نظر آرہی ہے۔ سپریم کورٹ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ جب بھی وہ اس کیس کی سماعت کرنے کراچی رجسٹری میں آتے ہیں حالات بدستور وہیں کے وہیں نظر آتے ہیں بلکہ ان میں شدت آجاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں کوئی حکومت ہی نہیں یا ہے تو اس کی رٹ قائم ہونے کے بجائے چیلنج کی جاتی ہے۔

دہشت گرد حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجاتے نظر آتے ہیں۔ آخر دہشت گرد اتنے طاقتور کیسے ہوگئے کہ حکومتی ادارے ان کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں؟ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ حکومت تو حکومت اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کمزور نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں امن وامان کا مسئلہ کیسے حل ہوسکتا ہے۔ اسی خفت کو مٹانے کے لیے حکومت اپنا سارا ملبہ دیگر سیاسی جماعتوں پر ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے''۔


بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اس پر قابو نہ پانے میں ناکامی کے باعث (ان میں قانون نافذ کرنے والوں کی ناکامیاں بھی ہیں)۔ اپوزیشن جماعتیں اور دیگر جماعتیں جو حکومت سے باہر ہیں سب ہی کی زبان پر یہی کلمات ہیں کہ موجودہ صورت حال ناقابل کنٹرول ہوگئی ہے۔ اس لیے کراچی میں فوج تعینات کی جائے یا کراچی کو فوج کے حوالے کردیا جائے۔ اس سطح پر بھی حکومت اپنی خفت مٹانے کی کوشش میں کہتی ہے کہ جمہوری حکومت کی موجودگی میں فوج کی تعیناتی، حکومت کی بدنامی کا باعث بنتی ہے اور فوج کا کردار بھی متاثر ہوتا ہے۔ ارے بھائی! جب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہوجائیں اور حالات تشویشناکی سے آگے نکل کر سنگینی کی صورت اختیار کرجائیں تو دوسرا آپشن کیا رہ جاتا ہے۔ یا تو صوبے میں گورنر راج قائم کردیا جائے (جو کسی حد تک آئین کی خلاف ورزی کرنے کا مرتکب ہوجاتا ہو) لیکن آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وقت ضرورت حالات کی سنگینی کے پیش نظر حکومت فوج طلب کرسکتی ہے اور کسی سیاسی جماعت کی طرف سے بھی یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔

اسی بے بسی کے عالم میں حکومت ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' والی حرکت کر بیٹھتی ہے اور ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ بجائے امن وامان کی بگڑی صورت حال کو سدھارنے اور کنٹرول کرنے کے مخالف سیاسی جماعتوں میں الزام تراشیوں اور سیاسی انتقام (ٹارگیٹڈ آپریشن) جیسا ماحول پیدا کردیتی ہے۔ کیا یہی جمہوری حکومت کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ جمہوری حکومت کا ایجنڈا باہم مذاکرات، ہم آہنگی اور سیاسی مفاہمت پر مبنی ہوتا ہے نہ کہ اختلاف برائے اختلاف کی پالیسی اختیار کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور خفت کو مٹانے کے لیے کھسیانی بلی کھمبا نوچے والے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ اور پھر خوش قسمتی سے موجودہ حکومت اور ان کی پاٹی مسلسل 36 سالوں سے چاروں صوبوں کی نمایندہ جماعت کا درجہ رکھتی چلی آرہی ہے۔ لیکن ان کی خراب کارکردگی، جمہوری نظام سے دوری اور عدم اعتماد و عدم استحکام کی بنا پر مئی 2013 کے انتخابات میں شکست کی وجہ سے صرف ''صوبہ سندھ'' تک کی پارٹی میں بدل دیا ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے باوجود پیپلزپارٹی اور اس کی صوبائی حکومت اپنے صوبے میں بالادستی کے زعم میں غیر جمہوری انداز حکومت اپنائے ہوئے ہے۔ اگر اپوزیشن اور حکومت سے باہر پارٹیاں آپ کے اس انداز حکومت پر (بقول آپ کے) واویلا کرتی ہیں تو کچھ غلط نہیں کرتیں۔ اگر آپ غلط طرز حکومت اپنائیں گے تو ہر طرف سے آپ کی حکومت پر سنگباری ہی ہوگی، پھول نہیں برسائے جائیں گے۔ کانٹے بو کر پھولوں کی تمنا کرنا ایک غیر فطری عمل ہے اس طرح کا طرز حکومت نہ اپنائیے۔ اپنے موجودہ طرز حکومت کو بدل دیجیے۔ملک اب مزید رسہ کشی۔ اختلاف برائے اختلاف کی پالیسی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اکثریت اور واحد نمایندگی پر نہ اترائیے۔ سولو فلائٹ اکثر خطرناک ہوتی ہے اس لیے سب کو اپنے ساتھ بٹھاکر چلیے۔ تب ہی تو جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوگی۔ دوسروں کے کاندھوں پر ملبہ ڈالنے سے کام نہیں چلے گا۔

آپ نے وفاق اور صوبے کی حکومتوں میں کارکردگی دکھانے کے بجائے 5 سال گنوا دیے۔ اسی لیے اس مرتبہ عوام نے آپ کو صرف صوبہ سندھ تک محدود کردیا ہے۔ کارکردگی دکھائیے اپنے صوبے کو ہی چار چاند لگا دیجیے۔عوام امید و آس لگائے بیٹھی ہے کہ ہم نے آپ کو 5 سال کا مینڈیٹ اسی لیے دیا ہے کہ آپ اس مرتبہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیے۔ صوبے (بالخصوص شہر کراچی) کی امن وامان کی بگڑتی صورت حال کو سنوارنے، کنٹرول کرنے پر زیادہ توجہ دیجیے۔ تاکہ آپ کو پھر ایک مرتبہ اپنی ناکامیوں کی وجہ سے خفت اٹھانا پڑے اور اس کو مٹانے کے لیے آپ کو ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' کی صورت میں ہر طرف سے طعنے تشنے، طنز و مزاح کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میری سمجھ کے مطابق جمہوریت کو چلانے اور جمہوری نظام کو تقویت پہنچانے کا یہی ایک طریقہ نظر آتا ہے۔

کہنے کا مقصد یہی ہے کہ اپنے صوبے کی ترقی و خوشحالی کی طرف توجہ دیجیے۔ ظاہر ہے کہ جب صوبے کی ترقی و خوشحالی ہوگی تو عوام بھی خوشحال ہوگی۔ پرسکون ماحول پیدا ہوگا۔ پھر یہ کوئی نہ کہے گا کہ ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے''۔ ایک غلطی کو درست کرنے کے لیے دوسری غلطی کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ان ہی گزارشات کے ساتھ اپنا قلم، قلمدان میں رکھ دیا ہے۔ اللہ سب کا حامی و ناصر ہو۔
Load Next Story