مستقبل کی پیش بندی…
یہ ٹھیک ہے کہ سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر شدید اعتراض ہے
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین نے منگل کی صبح اپنی جماعت کی رابطہ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں مزید انتظامی صوبوں کے قیام کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے اور اس مسئلہ پر کل جماعتی کانفرنس بلانے کامطالبہ بھی کیا ہے ۔ الطاف حسین کے اس مطالبہ کو بعض عناصر یقینا غیرضروری تنقید کا نشانہ بنائیں گے تاہم الطاف حسین کی اس دلیل سے انکارکرنا ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کا موجودہ صوبائی انتظامی ڈھانچہ ملک کو درپیش چیلنجزکی نشاندہی کرنے اور ان کا سدباب کرنے میں ناکام ثابت رہا ہے اور ملک کو بہتر خطوط پر چلانے کے لیے نئے انتظامی یونٹس کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان اس وقت جن گوناگوں مسائل کا شکار ہے ان میں توانائی کا بحران ، دہشت گردی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو صاف پانی کی فراہمی بھی شامل ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی تقریباً 80 کروڑ آبادی قابل استعمال پانی کے لیے ترس رہی ہے جب کہ مستقبل قریب میں دنیا کی 47 فیصد آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق2021 ء تک دنیا کے کم ازکم تیس ممالک شدید آبی قلت کا شکار ہونگے جن میں 18 کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے ۔ دنیا کے بیشتر ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مستقبل قریب میں عالمی جنگیں تیل، سونے یا اسی نوعیت کے دیگر معاملات کے بجائے قابل استعمال پانی کے ذخائر کے تحفظ یا ان تک دسترس کے حصول کے لیے لڑی جائیں گی۔
بدقسمتی سے پاکستان کاشمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے ۔ پڑوسی ممالک چین ، ہندوستان حتیٰ کہ افغانستان تک کے مقابلے میں صاف پانی کی فی کیپٹل شرح پاکستان میں سب سے کم ہے ۔ یادرہے کہ چین میں صاف پانی کی فی کیپٹل شرح 2700 کیوبک سینٹی میٹر ، ہندوستان میں 1700 اورافغانستان میں 3300 ہے جب کہ پاکستان میں یہی شرح 500 کیوبک سینٹی میٹر سے بھی کم ہے جب کہ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں صاف پانی کی فی کیپٹل شرح 1000 کیوبک سینٹی میٹر ہوناضروری ہے۔
پاکستان میں قلت آب کا سب سے بڑا سبب یہاں ڈیمز اور آبی ذخائر کی شدید قلت ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت آب کی پیش بندی کرتے ہوئے نئے نئے ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر کررہے ہیں، ہم نے اس مسئلہ کو سیاست، لسانیت اور علاقائیت کی بھینٹ چڑھا کر مستقبل میں پیش آنے والے بھیانک چیلنجز کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ پاکستان ، ہندوستان اور چین نے تقریباً ایک ساتھ آزادی حاصل کی لیکن صورتحال یہ ہے کہ چین نے اب تک 48000 ڈیمز تعمیر کرلیے ہیں جب کہ مزید کی تعمیر جاری ہے ۔ ہندوستان میں تقریباً پانچ ہزار ڈیمز مکمل ہوچکے ہیں حتیٰ کہ ایران نے بھی اس سمت تیزی سے پیش رفت شروع کردی ہے اور وہاں تقریباً ساڑھے پانچ سو ڈیمز تعمیر ہوچکے ہیں جب کہ پاکستان ، جسے شدید قلت آب کا سامنا ہے ، وہاںچھوٹے بڑے آبی ذخائر کی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی کم ہے ۔
پاکستان میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے آبی ذخائر کی عدم موجودگی سے ہرسال بارش کا میٹھا پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے جس کے باعث ملک بھر کے عوام کو پانی کی قلت کا سامنا کرناپڑتا ہے اور پانی کی عدم فراہمی سے فصلیں تباہی کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے عام کسان کی زندگی سے لے کر ملک کی معیشت پر بر ے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ہرسال ملک میں بارشیں بھی ہوتی ہیں لیکن اربوں ڈالر مالیت کا یہ قیمتی پانی ہرسال ضایع ہوجاتا ہے کیونکہ ملک میں واٹر ڈیم بنانے جیسا خالصتاً انتظامی مسئلہ بھی ہمارے یہاں لسانی و علاقائی بحثوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2010ء اور 2011ء میں آنے والے سیلابی پانی کی مالیت کئی سو ارب ڈالرز کے مساوی تھی لیکن ہم نہ صرف اس قیمتی پانی کوڈیمز نہ ہونے سے محفوظ کرنے میں ناکام رہے بلکہ ملکی معیشت کو اس سیلاب سے اربوں روپے کا نقصان الگ پہنچا۔ یہ بات واضح رہے کہ پاکستان میں آنے والا سیلابی پانی بنیادی طور پر ہمالیہ میں پگھلنے والے گلیشیرز کا ہوتا ہے لیکن عالمی حدت(Global warming) کے بڑھنے سے یہ گلیشیرز جس تیزی سے پگھل رہے ہیں اس کے پیش نظر پانی کا یہ ذریعہ بھی جلد ختم ہوجائے گا اور اس وقت ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے ماضی میں سیلابی پانی کو محفوظ نہ کرکے کتنی بھیانک غلطی کی تھی۔
یہ ٹھیک ہے کہ سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر شدید اعتراض ہے لیکن دوسرے ڈیمز بنانے میں آخر کیا قباحت ہے؟ ہم لسانی وعلاقائی بنیادوں پر ڈیمز بنانے کی مخالفت کرکے اپنے ملک کے شہریوں کو بوند بوند پانی کے لیے ترسانے کے لیے تو تیار ہیں لیکن ڈیم بناکر ہر شہری کو صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے اور اپنی فصلوں کو شاداب بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا ہمارا یہ عمل پاکستان سے محبت قراردیاجاسکتا ہے؟
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم لسانی ، ثقافتی اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہوکر پاکستان اور اس کے عوام کے روشن مستقبل کی فکر کریںاور ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہرقسم کی قربانی کاجذبہ رکھیں اورملک بھر میں نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کریںتاکہ ہرسال بارشوں کا قیمتی پانی ضایع ہونے کے بجائے پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے کام میں لایاجاسکے ۔ جناب الطاف حسین کا یہ کہنا صدفی صد درست ہے کہ پاکستان کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط ومستحکم بنانے کے لیے ہمیں سخت فیصلے بھی کرنے ہوں گے جن میں مزید انتظامی یونٹس قائم کرکے اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنا بھی شامل ہے ۔
پاکستان اس وقت جن گوناگوں مسائل کا شکار ہے ان میں توانائی کا بحران ، دہشت گردی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو صاف پانی کی فراہمی بھی شامل ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی تقریباً 80 کروڑ آبادی قابل استعمال پانی کے لیے ترس رہی ہے جب کہ مستقبل قریب میں دنیا کی 47 فیصد آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق2021 ء تک دنیا کے کم ازکم تیس ممالک شدید آبی قلت کا شکار ہونگے جن میں 18 کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے ۔ دنیا کے بیشتر ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مستقبل قریب میں عالمی جنگیں تیل، سونے یا اسی نوعیت کے دیگر معاملات کے بجائے قابل استعمال پانی کے ذخائر کے تحفظ یا ان تک دسترس کے حصول کے لیے لڑی جائیں گی۔
بدقسمتی سے پاکستان کاشمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی قلت سب سے زیادہ ہے ۔ پڑوسی ممالک چین ، ہندوستان حتیٰ کہ افغانستان تک کے مقابلے میں صاف پانی کی فی کیپٹل شرح پاکستان میں سب سے کم ہے ۔ یادرہے کہ چین میں صاف پانی کی فی کیپٹل شرح 2700 کیوبک سینٹی میٹر ، ہندوستان میں 1700 اورافغانستان میں 3300 ہے جب کہ پاکستان میں یہی شرح 500 کیوبک سینٹی میٹر سے بھی کم ہے جب کہ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں صاف پانی کی فی کیپٹل شرح 1000 کیوبک سینٹی میٹر ہوناضروری ہے۔
پاکستان میں قلت آب کا سب سے بڑا سبب یہاں ڈیمز اور آبی ذخائر کی شدید قلت ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت آب کی پیش بندی کرتے ہوئے نئے نئے ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر کررہے ہیں، ہم نے اس مسئلہ کو سیاست، لسانیت اور علاقائیت کی بھینٹ چڑھا کر مستقبل میں پیش آنے والے بھیانک چیلنجز کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ پاکستان ، ہندوستان اور چین نے تقریباً ایک ساتھ آزادی حاصل کی لیکن صورتحال یہ ہے کہ چین نے اب تک 48000 ڈیمز تعمیر کرلیے ہیں جب کہ مزید کی تعمیر جاری ہے ۔ ہندوستان میں تقریباً پانچ ہزار ڈیمز مکمل ہوچکے ہیں حتیٰ کہ ایران نے بھی اس سمت تیزی سے پیش رفت شروع کردی ہے اور وہاں تقریباً ساڑھے پانچ سو ڈیمز تعمیر ہوچکے ہیں جب کہ پاکستان ، جسے شدید قلت آب کا سامنا ہے ، وہاںچھوٹے بڑے آبی ذخائر کی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی کم ہے ۔
پاکستان میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے آبی ذخائر کی عدم موجودگی سے ہرسال بارش کا میٹھا پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے جس کے باعث ملک بھر کے عوام کو پانی کی قلت کا سامنا کرناپڑتا ہے اور پانی کی عدم فراہمی سے فصلیں تباہی کا شکار ہوجاتی ہیں جس سے عام کسان کی زندگی سے لے کر ملک کی معیشت پر بر ے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ہرسال ملک میں بارشیں بھی ہوتی ہیں لیکن اربوں ڈالر مالیت کا یہ قیمتی پانی ہرسال ضایع ہوجاتا ہے کیونکہ ملک میں واٹر ڈیم بنانے جیسا خالصتاً انتظامی مسئلہ بھی ہمارے یہاں لسانی و علاقائی بحثوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2010ء اور 2011ء میں آنے والے سیلابی پانی کی مالیت کئی سو ارب ڈالرز کے مساوی تھی لیکن ہم نہ صرف اس قیمتی پانی کوڈیمز نہ ہونے سے محفوظ کرنے میں ناکام رہے بلکہ ملکی معیشت کو اس سیلاب سے اربوں روپے کا نقصان الگ پہنچا۔ یہ بات واضح رہے کہ پاکستان میں آنے والا سیلابی پانی بنیادی طور پر ہمالیہ میں پگھلنے والے گلیشیرز کا ہوتا ہے لیکن عالمی حدت(Global warming) کے بڑھنے سے یہ گلیشیرز جس تیزی سے پگھل رہے ہیں اس کے پیش نظر پانی کا یہ ذریعہ بھی جلد ختم ہوجائے گا اور اس وقت ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے ماضی میں سیلابی پانی کو محفوظ نہ کرکے کتنی بھیانک غلطی کی تھی۔
یہ ٹھیک ہے کہ سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر شدید اعتراض ہے لیکن دوسرے ڈیمز بنانے میں آخر کیا قباحت ہے؟ ہم لسانی وعلاقائی بنیادوں پر ڈیمز بنانے کی مخالفت کرکے اپنے ملک کے شہریوں کو بوند بوند پانی کے لیے ترسانے کے لیے تو تیار ہیں لیکن ڈیم بناکر ہر شہری کو صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے اور اپنی فصلوں کو شاداب بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا ہمارا یہ عمل پاکستان سے محبت قراردیاجاسکتا ہے؟
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم لسانی ، ثقافتی اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہوکر پاکستان اور اس کے عوام کے روشن مستقبل کی فکر کریںاور ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہرقسم کی قربانی کاجذبہ رکھیں اورملک بھر میں نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کریںتاکہ ہرسال بارشوں کا قیمتی پانی ضایع ہونے کے بجائے پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے کام میں لایاجاسکے ۔ جناب الطاف حسین کا یہ کہنا صدفی صد درست ہے کہ پاکستان کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط ومستحکم بنانے کے لیے ہمیں سخت فیصلے بھی کرنے ہوں گے جن میں مزید انتظامی یونٹس قائم کرکے اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنا بھی شامل ہے ۔