بھارت میں جان کا خوف جانوروں پر بھی سوار بڑی تعداد میں پاکستان آنے لگے
بھارت میں شکار کی وجہ سے اکثر جانور جان بچانے اور بہتر خوراک کے لئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
وائلڈلائف پارک جلو میں جہاں گزشتہ 6 ماہ کے دوران مختلف اقسام کے ہرنوں کے 32 بچے پیدا ہوئے ہیں وہیں بھارتی سانبھڑ کا خاندان بھی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔
پاک بھارت سرحد عبور کرکے آنے والے سانبھڑ ہرنوں کو زیادہ تر وائلڈ لائف پارک جلو میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ یہاں اب ان بن بلائے مہمانوں کی تعداد 11 تک پہنچ چکی ہے۔
وائلڈ لائف پارک جلو کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ان کے پاس بھارتی سانبھڑ ہرنوں میں 5 مادہ ، 3 نر اور 3 بچے شامل ہیں۔ بھارت میں سانبھڑ ہرنوں کی تعداد زیادہ ہونے اور ان کے بڑھتے ہوئے شکار کی وجہ سے اکثر یہ جانور جان بچانے اور بہتر خوراک کی تلاش میں قصور، لاہور اور سیالکوٹ کے قریب سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔
غلام رسول نے بتایا کہ یہاں ان بن بلائے بھارتی مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کی جاتی ہے، اس وجہ سے ان کی نسل بڑھ رہی ہے، حال ہی میں سانبھڑ کے 2 بچے پیدا ہوئے ہیں۔ پاک بھارت مشرقی سرحد سے سانبھڑ اور نیل گائے جبکہ رحیم یارخان اور بہاولنگر کے بارڈرسے نیل گائے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ جنگلی حیات کا کوئی ملک اورسرحد نہیں ہوتی ، وہ جس ملک میں داخل ہوجائیں اسی کے شمار ہوں گے ، اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ بھارت سے پاکستان آنے والے جانوروں کو واپسی کے لئے بھارت کوئی کلیم کرسکے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف پارک جلو کا کہنا تھا کہ بھارت سے پاکستان پہنچنے والے اکثرجانور زخمی حالت میں ملتے ہیں جوخود کو دیگر درندوں سے بچاتے ہوئے یہاں تک پہنچتے ہیں، بھارتی سانبھڑوں کے علاوہ جلوپارک میں موجود دیگرہرنوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوا ہے، گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہرنوں کے 32 بچے پیداہوئے ہیں۔ ان میں مفلن شیپ کے 12، اڑیال کے 2،پ اڑہ ہرن کے 6، کالاہرن کے 3، چتکبرے ہرن کے 3 اور سانبھڑ کے 2 بچے شامل ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والے تمام بچے صحت مند ہیں اور یہاں تفریح کے لئے آنیوالوں کی توجہ کا مرکزبنے رہتے ہیں۔ جلوپارک میں ہرنوں کی بہترپرورش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں انہیں لاہور چڑیا گھر کی نسبت زیادہ کھلے احاطے اور قدرتی ماحول میسر ہے۔
پاک بھارت سرحد عبور کرکے آنے والے سانبھڑ ہرنوں کو زیادہ تر وائلڈ لائف پارک جلو میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ یہاں اب ان بن بلائے مہمانوں کی تعداد 11 تک پہنچ چکی ہے۔
وائلڈ لائف پارک جلو کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر غلام رسول نے بتایا کہ ان کے پاس بھارتی سانبھڑ ہرنوں میں 5 مادہ ، 3 نر اور 3 بچے شامل ہیں۔ بھارت میں سانبھڑ ہرنوں کی تعداد زیادہ ہونے اور ان کے بڑھتے ہوئے شکار کی وجہ سے اکثر یہ جانور جان بچانے اور بہتر خوراک کی تلاش میں قصور، لاہور اور سیالکوٹ کے قریب سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔
غلام رسول نے بتایا کہ یہاں ان بن بلائے بھارتی مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کی جاتی ہے، اس وجہ سے ان کی نسل بڑھ رہی ہے، حال ہی میں سانبھڑ کے 2 بچے پیدا ہوئے ہیں۔ پاک بھارت مشرقی سرحد سے سانبھڑ اور نیل گائے جبکہ رحیم یارخان اور بہاولنگر کے بارڈرسے نیل گائے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ جنگلی حیات کا کوئی ملک اورسرحد نہیں ہوتی ، وہ جس ملک میں داخل ہوجائیں اسی کے شمار ہوں گے ، اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ بھارت سے پاکستان آنے والے جانوروں کو واپسی کے لئے بھارت کوئی کلیم کرسکے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف پارک جلو کا کہنا تھا کہ بھارت سے پاکستان پہنچنے والے اکثرجانور زخمی حالت میں ملتے ہیں جوخود کو دیگر درندوں سے بچاتے ہوئے یہاں تک پہنچتے ہیں، بھارتی سانبھڑوں کے علاوہ جلوپارک میں موجود دیگرہرنوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوا ہے، گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہرنوں کے 32 بچے پیداہوئے ہیں۔ ان میں مفلن شیپ کے 12، اڑیال کے 2،پ اڑہ ہرن کے 6، کالاہرن کے 3، چتکبرے ہرن کے 3 اور سانبھڑ کے 2 بچے شامل ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والے تمام بچے صحت مند ہیں اور یہاں تفریح کے لئے آنیوالوں کی توجہ کا مرکزبنے رہتے ہیں۔ جلوپارک میں ہرنوں کی بہترپرورش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں انہیں لاہور چڑیا گھر کی نسبت زیادہ کھلے احاطے اور قدرتی ماحول میسر ہے۔