سب کچھ تو عیاں ہے
ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی احتساب کے نام پر وہی کچھ کیا تھا جو اب تحریک انصاف کر رہی ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے پہلی بار ملک کے بیس ہزار والدین کو نوٹس دیے گئے ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم پر سالانہ دو لاکھ روپے خرچ کر رہے ہیں۔ ایسے والدین سے15 روز میں ان کی آمدنی کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں ، ملک بھر میں ریڑھی لگانے والوں کی رجسٹریشن کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔ حکومت کی ایمنسٹی اسکیم کے تحت پہلی بار ایک لاکھ افراد ٹیکس نیٹ میں آئے ہیں تین ہزار ارب کا کالا دھن سفید ہونے سے حکومت کو 70 ارب روپے ٹیکس بھی وصول ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے گوشوارے بھی جاری کردیے ہیں جس کے مطابق پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان سب سے امیر وزیر اعلیٰ ہیں اور دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں، مراد علی شاہ، محمود خان کے مقابلے میں سوٹ پہننے کے شوقین ہیں اور وہ اقتدار میں نمایاں نظر آنے کے لیے سب سے منفرد نظر آتے ہیں۔
مالی گوشواروں کے مطابق ارکان کی اکثریت کروڑ پتی، بے شمار ارب پتی اور چند برائے نام لکھ پتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں واحد جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق ہیں جو صرف لاکھ روپے کا مالی اثاثہ رکھتے ہیں اور واقعی سادہ نظر آنے والے سیاسی قائد ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں سب سے امیر رکن پی ٹی آئی کے علیم خان ہیں جو صوبائی وزیر کی حیثیت میں کرپشن کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے اور اب ضمانت پر رہا ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری پہلے پی ٹی آئی کے نااہل رہنما جہانگیر ترین کو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین قرار دیتے تھے اور اب انھیں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے اور وفاقی وزیروں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے دیکھ کر غیر قانونی ڈپٹی وزیر اعظم قرار دیتے ہیں جنھوں نے نااہلیت کے باعث اپنے مالی گوشوارے الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کیے جن کے لیے مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے خطیر رقم خرچ کی تھی اور حکومت نے چینی کی قیمت بڑھا کر اپنوں کو نقصان سے زیادہ فائدہ پہنچا دیا ہے۔ جہانگیر ترین ماضی میں وفاقی وزیر رہے ہیں اور سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے تھے، ارب پتیوں میں شمار ہوتے ہیں اور وہ غیر سرکاری اہم ترین شخصیت اور وزیر اعظم کے انتہائی قریب ہیں۔
ملک کے سیاسی ارب پتی مختلف سیاسی جماعتوں میں ہیں اور اپنی پارٹیوں کی مالی اعانت کرتے ہیں اور بدلے میں پارٹیاں انھیں اہم عہدوں سے نوازتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہیں اور ایسے لوگ چھپے ہوئے نہیں عیاں ہیں ان میں ایسے بھی ہیں کہ جن پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنی پسندیدہ حکومتوں سے ٹھیکے اور غیر قانونی مراعات لیں۔
ایسے لوگ سیکڑوں میں ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے بقول تیس پینتیس سال قبل سائیکلوں اور موٹرسائیکلوں پر تھے جو اب اربوں کی جائیدادوں کے مالک اور قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور وہ بھی عیاں ہیں۔ سیاسی طور پر کروڑ پتی پھر ارب پتی بننے والے آبائی طور پر امیر کبیر نہیں تھے جن کا علم حکومت، نیب اور عوام کو بھی ہے مگر کبھی اس سے قبل کسی نے انھیں نہیں پوچھا تھا۔
ایسے لوگوں کو پوچھنے کے لیے ہی جنرل پرویز مشرف نے نیب بنائی تھی جن پر سابق حکمرانوں کی طرح کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوانے کے لیے اداروں کو استعمال کیا تھا اور یہ ادارے اپنے اصل کام کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں سیاسی بن گئے تھے ، جس کے نتیجے میں کرپشن میں پکڑے جانے کے خوف سے پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے منحرف ہوکر پیٹریاٹ بلاک بنایا تھا اور حکومت میں شامل ہوکر خود کو محفوظ کیا تھا۔
ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی احتساب کے نام پر وہی کچھ کیا تھا جو اب تحریک انصاف کر رہی ہے اور موجودہ دس گیارہ ماہ سے اقتدار میں رہنے والوں کے بجائے صرف تین عشروں تک اقتدار میں رہنے والوں کا ہی احتساب ہو رہا ہے۔ فی الحال پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نمٹا جائے اور آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف ودیگر اپوزیشن رہنما موجود ہیں اور تین عشروں میں کرپشن کرنے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے مگر نیب کے وسائل اور عملہ محدود ہے۔ پہلے ہی پکڑے جانے والوں کو عدالتوں سے سزا نہیںملی اور نیب کو عدالتوں سے اپنے خلاف سخت ریمارکس سننے پڑ رہے ہیں۔ وسائل محدود مگر ملک بدعنوانوں سے بھرا پڑا ہے۔
1972 میں جب بھٹو حکومت اقتدار میں آئی تھی تب سے ہی کرپشن بڑھنا شروع ہوئی تھی جس کے متعلق سینئر سیاستدان حاجی مولا بخش سومرو کا کہنا تھا کہ بھٹو حکومت سے قبل جس کے پاس دو گدھے نہیں تھے وہ بھٹو دور میں دو دو شیورلیٹ کاروں کے مالک بن گئے تھے اور اس بات میں کافی حقیقت بھی ہے اور بھٹو دور سے جن لوگوں نے کرپشن سے مال کمایا وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں ان کی شاہانہ زندگی اور ذاتی اخراجات ان کے ذرائع آمدنی سے بہت کم ہیں مگر ان کے ٹھاٹ باٹ سب پر عیاں ہیں مگر پکڑے کم گئے ہیں۔