مریم نواز کی سیاسی مزاحمت
مریم نواز یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں اگر وہ واقعی یہ لڑائی لڑنا چاہتی ہیں تو ان کی جماعت کہاں کھڑی ہے۔
عملاً ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے مسلم لیگ ن کی سیاست پر مریم نواز کو غلبہ ہے ۔ اگرچہ شہباز شریف پارٹی کے صدر ہیں، مگر عملا معاملات نواز شریف اورمریم نواز کے کنٹرول میں ہیں۔شہباز شریف کو مفاہمتی سیاست کا جادوگر سمجھا جاتا ہے، مگر تاحال ان کی سیاسی جادو گری نواز شریف اورمریم نواز کو کوئی بڑا سیاسی ریلیف نہیں دے سکی ۔
نواز شریف کی مشکلات کم ہونے کے بجائے تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ وہ قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر تنہائی کا شکار ہیں اوران کی اپنی جماعت ان کی رہائی کے لیے کوئی بڑی سیاسی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز میں مایوسی کی کیفیت بھی ہے اوراس کا نتیجہ غصہ اور نفرت یا مزاحمت کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
مریم نواز کی آخری پریس کانفرنس جس میں ان کی جانب سے ویڈیو جاری کی گئی ہے، ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کیونکہ یہ پریس کانفرنس انھوں نے پارٹی صدر شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اوراحسن اقبا ل کے درمیان بیٹھ کر خود کی ہے اور تاثر دیا ہے کہ وہ ہی پارٹی کی حقیقی جانشین ہیں ۔یہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پارٹی صدر سمیت بڑے رہنماوں کی موجودگی میں پارٹی کی ایک نائب صدر خود پریس کانفرنس کی قیادت کرے اوروہ سب کچھ بولے جو وہ بولنا چاہتی ہے۔
یہ امر بھی سب نے دیکھا کہ پریس کانفرنس کے دوران ایک چٹ مریم نواز کو شہباز شریف کی طرف سے دی گئی لیکن انھوں نے پڑھے بغیر اسے اپنے سے دور کردیا ۔ پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے دیگر رہنما بشمول شہباز شریف سب کی باڈی لینگویج ظاہر کرتی تھی کہ وہ بہت زیادہ خود آسان محسوس نہیں کررہے۔
مریم نواز کے سامنے بنیادی طور پر تین بڑے چیلنجز ہیں۔ اول وہ ہر صورت اپنے والد کی رہائی اوران کو علاج کی غرض سے ملک سے باہر لے جانا چاہتی ہیں۔ دوئم وہ سیاسی محاذ پر خود کو اپنے والد کے متبادل کے طو رپر پیش کرچکی ہیں اورچاہتی ہیں کہ پارٹی ان کو اپنا قائد تسلیم کرے۔ سوئم وہ اپنی پارٹی پر سیاسی کنٹرول بڑھانا چاہتی ہیں اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا بالادست کردار دیکھنے کی خواہش مند نہیں ۔چہارم وہ سمجھتی ہیں کہ قانونی محاذ پر ان کے لیے نواز شریف کے لیے آسانیاں پیدا کرنا آسان کام نہیں ہوگا اور وہ سمجھتی ہیں کہ پس پردہ قوتوں کی مدد سے ہی وہ اپنے والد کے لیے کوئی بڑا ریلیف حاصل کرسکتی ہیں۔
مریم نواز کی مزاحمتی سیاست کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پس منظر کو بھی سمجھا جائے کہ ان کا فوری مقصد اپنے والد کو ریلیف دلوانا ہے۔ ماضی میں یہ کام مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ کرچکی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں انھوں نے نواز شریف کو ریلیف دلوانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کلثوم نواز کے سیاسی عزائم نہیں تھے وہ صرف نواز شریف کو مشکل سے نکالنا چاہتی تھیں، جب کہ مریم نواز مشکل سے بھی نکالنا چاہتی ہیں اورخود بھی سیاسی عزائم رکھتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف مریم نواز نے مزاحمتی سیاست کا روپ دھارا ہوا ہے تو دوسری طرف وہ اوران کا خاندان مختلف پس پردہ مفاہمت یا کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر سیاسی ڈیل کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس ڈیل میں جو سیاسی پیچیدگیاں ہیں اس نے مریم نواز کو مجبور کیا ہے کہ وہ حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے مزاحمتی سیاسی کارڈ کا استعمال کیا جائے۔
مریم نواز کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو مزاحمتی کردار وہ پیش کررہی ہیں اوریہ تاثر دے رہی ہیں کہ وہ کوئی بڑ ی سیاسی اورجمہوری حکمرانی کی جنگ کو لڑنا چاہتی ہیں، محض خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوری جدوجہد محض ایک ایسا سیاسی ہتھیار ہے جو اکثر سیاستدان اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس وقت کوئی سیاست جمہوریت کو مضبوط بنانے کی نہیں ہورہی بلکہ سیاسی اختیارات کی جنگ ہے اورجنگ میں عوام کا سوائے استحصال کے کچھ نہیں ہوگا۔
مریم نواز یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں اگر وہ واقعی یہ لڑائی لڑنا چاہتی ہیں تو ان کی جماعت کہاں کھڑی ہے اور اگر وہ سمجھتی ہیں کہ آسانی سے شہباز شریف اوران کے قریبی ساتھی ان کی مزاحمتی سیاست کے سامنے سرنڈر کردیں گے تو وہ غلطی پر ہیں۔مریم نواز جس انداز میں اپنی لڑائی پیش کررہی ہیں اور اس لڑائی میں اپنے سیاسی مخالف عمران خان سمیت اداروں کو شامل کررہی ہیں اس سے ان کی حیثیت اورزیادہ متنازعہ ہوگی اورپارٹی میں موجود لوگ اس لڑائی میں کودنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ جو فاورڈ بلاک کی باتیں ہیں، اس بحران کو بھی اسی مزاحمتی کارڈ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کا مزاج مزاحمتی نہیں ہے اورنہ ہی مسلم لیگ کا ووٹر مزاحمت کی طاقت رکھتا ہے۔
شہباز شریف پہلے بھی کھل کر اپنی سیاست کے لیے سامنے نہیں آئے اور وہ ایک مفاہمتی انداز میں ہی پارٹی یا خاندان کے اندر موجود تقسیم پر اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کردار نے پارٹی کو دو مختلف بیانیوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک بیانیہ کی قیادت مریم نواز کے پاس ہے تودوسرے بیانیہ کی قیادت شہباز شریف کررہے ہیں۔ ایک لڑائی مریم نواز اورحمزہ شہباز کے درمیان بھی ہے۔
حمزہ شہباز خود کو پنجاب کی سیاست میں اپنے والد کا متبادل سمجھتے ہیں۔مریم نواز سوچ رہی ہیں کہ اگر ان کے والد پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں اور وہ باآسانی ان کا متبادل بن سکتی ہیں، یہ بھی کوئی آسان چیلنج نہیں ، کیونکہ مریم نواز کو پہلے پارٹی کے اندر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوسرا ان کے لیے سیاسی اور قانونی مشکلات ختم نہیں بلکہ اوربڑھیں گی۔
مریم نواز کی ایک خوش فہمی یہ بھی ہے کہ وہ یہ لڑائی پیپلز پارٹی کی مدد سے لڑیں گی۔ حالانکہ پیپلز پارٹی زیادہ سمجھ دار اور سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھتی ہے اوراپنے کارڈ مریم نواز کی سیاست کی بجائے اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر کھیلے گی۔ پیپلز پارٹی بھی پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کرنا چاہتی ہے اوراگر کچھ طے ہوا تو مسلم لیگ ن اوربالخصوص مریم نواز کو سیاسی تنہائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔یہ جو احتساب کا سیاسی ریلا ہے اس میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ بہت سے سیاسی لوگوں کی پکڑ ہونی ہے۔مریم نواز جلدی میں ہیں اورجلدی میں وہ یہ بھول رہی ہیں کہ ٹکراؤ کی سیاست ان کے حق میں ہوگی، حالانکہ ایسا ممکن نہیں۔
یقینی طور پر مریم نواز میں لیڈر بننے کی صلاحیت ہے۔لیکن وہ خود کو متنازعہ بنا کر ضایع کررہی ہیں ۔ ایک بات طے ہے کہ وہ اب قانونی محاذ پر کوئی لڑائی لڑنے کے لیے تیار نہیں اور ان کا خیال ہے کہ سیاسی میدان میں لڑائی لڑی جائے۔ حالیہ پریس کانفرنس بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ قانونی جنگ کے مقابلے میں سیاسی میدان میں ماحول کو گرم کر کے کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان پر اور ان کے والد پر جو مشکلات ہیں ا س کو کم کیا جاسکے۔
نواز شریف کی مشکلات کم ہونے کے بجائے تسلسل کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ وہ قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر تنہائی کا شکار ہیں اوران کی اپنی جماعت ان کی رہائی کے لیے کوئی بڑی سیاسی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز میں مایوسی کی کیفیت بھی ہے اوراس کا نتیجہ غصہ اور نفرت یا مزاحمت کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
مریم نواز کی آخری پریس کانفرنس جس میں ان کی جانب سے ویڈیو جاری کی گئی ہے، ایک دلچسپ کہانی ہے۔ کیونکہ یہ پریس کانفرنس انھوں نے پارٹی صدر شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اوراحسن اقبا ل کے درمیان بیٹھ کر خود کی ہے اور تاثر دیا ہے کہ وہ ہی پارٹی کی حقیقی جانشین ہیں ۔یہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پارٹی صدر سمیت بڑے رہنماوں کی موجودگی میں پارٹی کی ایک نائب صدر خود پریس کانفرنس کی قیادت کرے اوروہ سب کچھ بولے جو وہ بولنا چاہتی ہے۔
یہ امر بھی سب نے دیکھا کہ پریس کانفرنس کے دوران ایک چٹ مریم نواز کو شہباز شریف کی طرف سے دی گئی لیکن انھوں نے پڑھے بغیر اسے اپنے سے دور کردیا ۔ پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے دیگر رہنما بشمول شہباز شریف سب کی باڈی لینگویج ظاہر کرتی تھی کہ وہ بہت زیادہ خود آسان محسوس نہیں کررہے۔
مریم نواز کے سامنے بنیادی طور پر تین بڑے چیلنجز ہیں۔ اول وہ ہر صورت اپنے والد کی رہائی اوران کو علاج کی غرض سے ملک سے باہر لے جانا چاہتی ہیں۔ دوئم وہ سیاسی محاذ پر خود کو اپنے والد کے متبادل کے طو رپر پیش کرچکی ہیں اورچاہتی ہیں کہ پارٹی ان کو اپنا قائد تسلیم کرے۔ سوئم وہ اپنی پارٹی پر سیاسی کنٹرول بڑھانا چاہتی ہیں اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا بالادست کردار دیکھنے کی خواہش مند نہیں ۔چہارم وہ سمجھتی ہیں کہ قانونی محاذ پر ان کے لیے نواز شریف کے لیے آسانیاں پیدا کرنا آسان کام نہیں ہوگا اور وہ سمجھتی ہیں کہ پس پردہ قوتوں کی مدد سے ہی وہ اپنے والد کے لیے کوئی بڑا ریلیف حاصل کرسکتی ہیں۔
مریم نواز کی مزاحمتی سیاست کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس پس منظر کو بھی سمجھا جائے کہ ان کا فوری مقصد اپنے والد کو ریلیف دلوانا ہے۔ ماضی میں یہ کام مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ کرچکی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں انھوں نے نواز شریف کو ریلیف دلوانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ کلثوم نواز کے سیاسی عزائم نہیں تھے وہ صرف نواز شریف کو مشکل سے نکالنا چاہتی تھیں، جب کہ مریم نواز مشکل سے بھی نکالنا چاہتی ہیں اورخود بھی سیاسی عزائم رکھتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف مریم نواز نے مزاحمتی سیاست کا روپ دھارا ہوا ہے تو دوسری طرف وہ اوران کا خاندان مختلف پس پردہ مفاہمت یا کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر سیاسی ڈیل کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس ڈیل میں جو سیاسی پیچیدگیاں ہیں اس نے مریم نواز کو مجبور کیا ہے کہ وہ حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے مزاحمتی سیاسی کارڈ کا استعمال کیا جائے۔
مریم نواز کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو مزاحمتی کردار وہ پیش کررہی ہیں اوریہ تاثر دے رہی ہیں کہ وہ کوئی بڑ ی سیاسی اورجمہوری حکمرانی کی جنگ کو لڑنا چاہتی ہیں، محض خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوری جدوجہد محض ایک ایسا سیاسی ہتھیار ہے جو اکثر سیاستدان اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس وقت کوئی سیاست جمہوریت کو مضبوط بنانے کی نہیں ہورہی بلکہ سیاسی اختیارات کی جنگ ہے اورجنگ میں عوام کا سوائے استحصال کے کچھ نہیں ہوگا۔
مریم نواز یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں اگر وہ واقعی یہ لڑائی لڑنا چاہتی ہیں تو ان کی جماعت کہاں کھڑی ہے اور اگر وہ سمجھتی ہیں کہ آسانی سے شہباز شریف اوران کے قریبی ساتھی ان کی مزاحمتی سیاست کے سامنے سرنڈر کردیں گے تو وہ غلطی پر ہیں۔مریم نواز جس انداز میں اپنی لڑائی پیش کررہی ہیں اور اس لڑائی میں اپنے سیاسی مخالف عمران خان سمیت اداروں کو شامل کررہی ہیں اس سے ان کی حیثیت اورزیادہ متنازعہ ہوگی اورپارٹی میں موجود لوگ اس لڑائی میں کودنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ جو فاورڈ بلاک کی باتیں ہیں، اس بحران کو بھی اسی مزاحمتی کارڈ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کا مزاج مزاحمتی نہیں ہے اورنہ ہی مسلم لیگ کا ووٹر مزاحمت کی طاقت رکھتا ہے۔
شہباز شریف پہلے بھی کھل کر اپنی سیاست کے لیے سامنے نہیں آئے اور وہ ایک مفاہمتی انداز میں ہی پارٹی یا خاندان کے اندر موجود تقسیم پر اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کردار نے پارٹی کو دو مختلف بیانیوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک بیانیہ کی قیادت مریم نواز کے پاس ہے تودوسرے بیانیہ کی قیادت شہباز شریف کررہے ہیں۔ ایک لڑائی مریم نواز اورحمزہ شہباز کے درمیان بھی ہے۔
حمزہ شہباز خود کو پنجاب کی سیاست میں اپنے والد کا متبادل سمجھتے ہیں۔مریم نواز سوچ رہی ہیں کہ اگر ان کے والد پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں اور وہ باآسانی ان کا متبادل بن سکتی ہیں، یہ بھی کوئی آسان چیلنج نہیں ، کیونکہ مریم نواز کو پہلے پارٹی کے اندر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوسرا ان کے لیے سیاسی اور قانونی مشکلات ختم نہیں بلکہ اوربڑھیں گی۔
مریم نواز کی ایک خوش فہمی یہ بھی ہے کہ وہ یہ لڑائی پیپلز پارٹی کی مدد سے لڑیں گی۔ حالانکہ پیپلز پارٹی زیادہ سمجھ دار اور سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھتی ہے اوراپنے کارڈ مریم نواز کی سیاست کی بجائے اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر کھیلے گی۔ پیپلز پارٹی بھی پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کرنا چاہتی ہے اوراگر کچھ طے ہوا تو مسلم لیگ ن اوربالخصوص مریم نواز کو سیاسی تنہائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔یہ جو احتساب کا سیاسی ریلا ہے اس میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ بہت سے سیاسی لوگوں کی پکڑ ہونی ہے۔مریم نواز جلدی میں ہیں اورجلدی میں وہ یہ بھول رہی ہیں کہ ٹکراؤ کی سیاست ان کے حق میں ہوگی، حالانکہ ایسا ممکن نہیں۔
یقینی طور پر مریم نواز میں لیڈر بننے کی صلاحیت ہے۔لیکن وہ خود کو متنازعہ بنا کر ضایع کررہی ہیں ۔ ایک بات طے ہے کہ وہ اب قانونی محاذ پر کوئی لڑائی لڑنے کے لیے تیار نہیں اور ان کا خیال ہے کہ سیاسی میدان میں لڑائی لڑی جائے۔ حالیہ پریس کانفرنس بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ قانونی جنگ کے مقابلے میں سیاسی میدان میں ماحول کو گرم کر کے کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان پر اور ان کے والد پر جو مشکلات ہیں ا س کو کم کیا جاسکے۔