پاکستان کے بنیادی مسائل

موجودہ حکومت نے تو ملک کو مزید مسائل میں دھکیل دیا ہے۔اب تو نیا عمرانی معاہدہ ضروری ہو گیا ہے۔


جمیل مرغز July 15, 2019

''پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے''۔ یہ جملہ سنتے سنتے بچپن اور جوانی گزر گئی ، لگتا ہے اگلی صدی بھی اسی حالت میں گرز جائے گی' پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک ان 72سالوں میں کبھی بحرانوں سے نکل نہیں سکا'معلوم نہیںاس کے جین میں کوئی مسئلہ ہے۔ بقول شاعر۔اس پر آسیب کا سایہ ہے ۔

کاغذ کے پھول سر پر سجا کر چلی حیات

نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا

اگر ہم غیر جانبداری سے حالات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مسئلہ اس کے وجود میں نہیں بلکہ اس کی پالیسیوں میں ہے۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ریاستی پیراڈائم کیا ہے؟ پیراڈائم(paradigm) یونانی زبان کا لفظ ہے 'اس کے معنی ماڈل یا مثال کے بھی ہوتے ہیں'سیاست میں بھی اس لفظ کا استعمال اب عام ہے 'پیرا ڈائم ایک عالمی نقطہ نظر ہوتا ہے'جو سیاست میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

پاکستان کی پالیسیوں کا اگر صحیح اندازہ لگایا جائے تو اس کا پیراڈائم یا نقطہ نظر چند بنیادی اصولوں پر قائم ہے 'شاید یہ نقطہ نظر عوام کا نہ ہو لیکن ریاست کا ہے'اس کے بنیادی اصول ہیں ''دو قومی نظریہ' نظریہ پاکستان' ہمسایوں کے ساتھ مستقل دشمنی اور ان کو دشمن ماننا' قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے صرف سیکیورٹی ادارے اور وہ تنظیمیں ہیں جو مسلکی بنیادوں پر بنائی گئی ہیں۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پراکسی جنگوں کا فلسفہ استعمال کرنا اور اسلحہ سازی کو زیادہ اہمیت دینا'پاکستان کی سلامتی کا انحصار مضبوط مرکز پر ہے اور اس کی وفاقی حیثیت خطرناک ہے۔یہ پاکستانی ریاست کا پیراڈائم ہے' ان پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو چکا ہے'تین بڑی اور بے شمار چھوٹی جنگیں اور مسلسل حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے معیشت کی تباہی'اس کی وجہ یہ پیراڈائم ہے'اب ضرورت اس ا مر کی ہے کہ اس پیراڈائم کو تبدیل کرکے عوامی مفاد میں سوشل ویلفیئر پیراڈائم اختیار کی جائے۔

پاکستان میں پانچ بڑی قومیں یعنی پنجابی 'پختون' سندھی' بلوچی'سرائیکی، ہندکو اور بہت سے نسلی اور لسانی گروہ' قبائل اور قومیتیں آباد ہیں'جن کی اپنی زبانیں'رسم و رواج'ساحل'وسائل پہاڑ'دریا' وادیاں کھیت اور کھلیان ہیں'سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان ایک نیونو آبادیاتی'نیم قبائلی'نیم جاگیرداری'نیم سرمایہ داری سماج ہے'یہ ایک کثیر القومی اور کثیر السانی ریاست ہے'حالانکہ اس کو وحدانی ریاست سے ایک وفاقی ریاست بننے میں 36سال لگے'اس دوران اس کی آبادی کی اکثریت ون یونٹ اور پیریٹی کے فراڈ سے تنگ ہوکر ریاست سے الگ ہوگئی اور بنگلہ دیش کی ریاست وجود میں آئی۔

ملک کے اندر چونکہ عالمی سامراجی معیشت' قرضوں اور امداد پر انحصار کی وجہ سے گماشتہ سرمایہ داری اور نئے نوآبادیاتی رشتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن زرعی معیشت میں جاگیردارانہ طرز پیداوار'لین دین'رویے اور تعلقات نہ صرف فرسودہ پسماندہ بلکہ قبائلی باقیات پر مبنی ہیں۔ریاستی اخراجات کا کثیر حصہ غیر پیداواری مدوں جیسا کہ تجارتی خسارے' قرضوںاور سود کی واپسی'سیاسی اور نوکرشاہی مراعات' اسلحے کی خریداری جیسے مقاصد پر خرچ ہوتی ہے۔

ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اندرون ملک بھی ہمہ وقت جنگی فضاء جاری رہتی ہے'یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔ صوبوں' قوموں'زبانوں 'مذاہب اور مسالک کے درمیان برابری' رواداری'باہمی مفاداور رضاکارانہ بھائی چارے پر مبنی پرامن تعلقات کی بجائے نفرت'نسلی برتری و تفاخر' استحصالی اور کشیدہ بنا دیے گئے ہیں'چھوٹی اقوام کے استحصال' ثقافتی ترقی میں رکاوٹ اور زبانوں کی عدم ترویج کی وجہ سے ایک آئینی'کثیر القومی و ثقافتی سماجی جمہوری رضاکارانہ وفاقی معاشرے اور ریاست کی تشکیل ممکن نہیں ہوسکی۔

سامراجی 'سرمایہ دارانہ'جاگیردارانہ اور قبائلی معیشت نے طبقاتی تقسیم کو شدید تر کردیا ہے' سرمایہ دار'جاگیردار' سرکاری اشرافیہ اور قبائلی سردار98فی صد وسائل پر براہ راست یا بالو اسطہ قابض ہیں'55فی صد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے' خواتین کی آزادی پر قدغن ہے اور ان کی اکثریت جاگیرداری سماج کی طرح غلامی کی زندگی گزار رہی ہے 'ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچے اسکول جانے کی عمر کے باوجود اسکول جانے سے لاچار ہیں'تعلیم کے مد میں اخراجات فضول ثابت ہو رہے ہیں، سرکاری اسکولوں کی حالت بدتر ہے'سرکاری اسکولوں سے تنخواہ لینے والے اساتذہ اور افسران بھی اپنے بچے پڑھنے کے لیے پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرتے ہیں' 80فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے'دس کروڑ سے زیادہ افراد بیروزگار ہیں۔

کروڑوں افراد کے لیے علاج کی کوئی سہولت میسر نہیں' بچوں اور بوڑھوں کے لیے کوئی خاص مراعات نہیں ہیں'نوجوان نہ صرف تعلیم'صحت اور روزگار سے محروم ہیں بلکہ کھیل اور تفریح کے ذرائع سے بھی محروم ہیں'زمینوں کی تقسیم غیر منصفانہ ہے بلکہ لاکھوں افراد تو گھر اور چھت سے بھی محروم ہیں'افقی اور عمودی نا برابری 'ظلم و ستم'اور استحصال شدید تر ہو رہا ہے'رہی سہی کسر مذہبی منافرت'اقربا پروری'بدعنوانی'انتہا پسندی اور دہشتگردی نے پوری کردی ہے'ماحولیات کی آلودگی'جنگلات کی غیرقانونی کٹائی'پینے کے صاف پانی سے محرومی'صنفی اور طبقاتی استحصال 'جنگی جنون ایسا معاشی نظام اور قومی سلامتی کے پیراڈائم کے شاخسانے ہیں۔

موجودہ حکومت نے تو ملک کو مزید مسائل میں دھکیل دیا ہے۔اب تو نیا عمرانی معاہدہ ضروری ہو گیا ہے۔گو موجودہ پاکستانی آئین کے مطابق ملک میں رہنے والے شہری اگر چہ برابر ہیں لیکن مذہب کا سیاست میں استعمال جمہوریت کی نفی کرتا ہے اور نہ صرف مذہبی نا برابری اور منافرت پھیلاتا ہے بلکہ مسلکی بنیادوں پر بھی شہریوں کی تقسیم در تقسیم کرکے انتہا پسندی اور دہشتگردی کو بھی فروغ دیتا ہے۔

جمہوری نظام پر مبنی ریاست مذہب یا عقیدے کی آزادی' معیار ی تعلیم 'صحت'روزگار 'چھت'بڑھاپے کی پنشن (سوشل سیکیورٹی)فراہم کرتی ہے'ریاست آمدن پر براہ راست ٹیکس لگاتی ہے'کم از کم اجرت مقرر کرکے اسے ٹیکس سے مستشناء قرار دیتی ہے'یعنی محنت کشوں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہوتا ہے اور سرمایہ دار کی آمدن جتنی زیادہ ہو اتنا ہی زیادہ ٹیکس لگایا جاتا ہے 'ریاست اس کے بدلے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتی ہے'بلکہ اعلی تعلیم یافتہ'ہنر مند اور صحت مند افرادی قوت تیار کرتی ہے جو زیادہ پیداوار ممکن بناتی ہے۔ویلفیئر جمہوری نظام عوام کی شراکتی طرز حکمرانی ہے'اس جمہوریت کی بہترین مثال اسکنڈے نیوین ممالک یعنی سویڈن'ناروے اور ڈنمارک ہیں۔

اب 8دسمبر 2018 کے اخبارات میں شائع ایک مفید تقریر۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے اداراتی اصلاحات اور سادگی ڈاکٹر عشرت حسین نے پائیدار ترقی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (SDPI)کے زیر اہتمام 4روزہ 21ویں پائیدار ترقی کانفرنس کی اختتامی تقریب سے دو طرفہ تعلقات پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ۔''پاکستان اور بھارت کے درمیان 37ارب ڈالر کی تجارتی صلاحیت ہے'جو خطے میںمشترکہ خوشحالی اور عدم مساوات کم کرنے کے لیے ایک طاقتور انجن ثابت ہو سکتا ہے' انھوں نے پروڈیوسرز اور صارفین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان بارڈر سسٹم کی بہتری کی تجویز دی''۔

ایک دوسری خبرکے مطابق ''پاک افغان تجارت 160ارب سے کم ہوکر 15ارب روپے رہ گئی۔ایران افغانستان تجارت ڈھائی کھرب تک پہنچ گئی اور ہندوستان نے پاکستان سے مایوس ہوکر چاہ بہار کے متبادل راستے کا استعمال شروع کردیا ہے۔کیا ہم ان آوازوں پر توجہ دیں گے یاہمیشہ IMFاور دیگر سامراجی اداروں سے بھیک مانگیں گے۔ اگر ہم شمالی جنوبی کوریڈور چین کو دے کر CPECسے آمدنی کی توقع کر رہے ہیں تو جنوبی ایشیاء سے یورپ تک مغربی اور مشرقی کاریڈور کھول کر اربوں روپے کمانے میں کیا چیزمانع ہے۔کیا ہماری سیکیورٹی پیراڈائم کی پالیسی ؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں