پپو جونیئر کا پاکستان

نئے بت تراشے جاتے ہیں، پرانے ڈھا دیے جاتے ہیں اور پپو جونیئر ادھر سے ادھر چھلانگیں لگا کر مطمئن ہوجاتا ہے

پاکستان میں کسی بھی طرح کی حقیقی تبدیلی آزاد سوچ اور عوامی شعور کے بنا ممکن نہیں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پپو مطالعہ پاکستان پڑھ کر جوان ہوا۔ جیسے تیسے تعلیم مکمل کی، برسرِ روزگار ہوا، پھر شادی ہوئی اور ایک ہی سال میں پپو جونیئر کا باپ بن گیا۔ پپو جونیئر بڑا ہوا۔ اسکول پہنچا اور اسی مطالعہ پاکستان کو پڑھتا پڑھتا تعلیمی منازل طے کرتا چلا گیا، جو پپو سینئر پڑھ کر فارغ التحصیل ہوا تھا۔

پپو جونیئر کے باصلاحیت دماغ کی بتیاں جل پڑنے پر منطقی سوالات ذہن میں ابھر کر زبان پر آبھی جاتے تو استاد جی اسی مطالعہ پاکستان کی روشنی میں تسلی بخش جواب فراہم کردیتے اور کسی بھی قسم کی غیر ضروری چوں چرا کی صورت میں لکڑی کے پھٹے پر ہی مرغا بناکر پپو جونیئر کے ننھے سے وجود کا سارا خون دماغ کی طرف دوڑا دیتے اور یوں روشن ہوئیں تمام بتیاں فوراً سے پہلے گل ہوجاتیں۔ مرغا بننے کی اس افتاد، ذلت اور جگ ہنسائی نے پپو کو یہ سکھادیا کہ کوئی ایسا سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے جس کا جواب مطالعہ پاکستان کے صفحات پر موجود نہ ہونے کا ذرہ بھر امکان بھی موجود ہو۔ اور ایسے سوال کا گلا تو دماغ کے اندر ہی گھونٹ دینا بہتر ہے، جو استاد جی کی طبعیت پر گراں گزرنے کا احتمال رکھتا ہو۔ ورنہ لکڑی کا بینچ ہوگا، اس پر ایک ننھا سا پپو جونیئر مرغا اور استاد جی کی چھڑی۔

ریاستِ پاکستان میں کامیاب لائحہ عمل کے نتیجے میں ایسی پود در پود وجود میں لائی گئی ہے جس کی یاداشت نامکمل، منقسم، بناوٹی، مصنوعی اور مفروضات پر مشتمل ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اپنی تاریخ سے متعلق سطحِ علم، فہم اور آگہی، اجتماعی یادداشت کہلاتی ہے۔ یادداشت ناقص ہو تو انفرادی طور پر انسان اور اجتماعی طور پر معاشرہ روزمرہ کے معمولات تک درست طور پر سرانجام دینے سے قاصر رہتا ہے، تو فیصلہ سازی جیسے پیچیدہ عمل کی بات ہی کیا کی جائے۔

ایسی اقوام جو اجتماعی یادداشت سے محروم ہوجاتی ہیں یا ناقص یادداشت کی حامل ہوتی ہیں، درحقیقت اپنی جڑوں سے محروم ہوجاتی ہیں۔ ایسی اقوام تاریخ کو بار بار دہراتی ہیں، بار بار ایک ہی جیسی غلطیوں کی مرتکب ہوتی ہیں اور مسلسل کمزور فیصلے کرکے خوفناک نتائج بھگتتی ہیں۔ کیونکہ یہ تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی یادداشت کا حصہ نہیں بنا پاتیں۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہیں کہ ترقی اور کامیابی کی بنیادی شرائط میں سے ایک قوی، مکمل اور معیاری یادداشت ہے۔

ریاستِ پاکستان نے ایک کمزور، جذباتی اور بے شعور معاشرہ تخلیق کرنے کی خاطر جو دو اہم کام پوری شدت سے سرانجام دیے ہیں، ان میں سے ایک آبادی میں بے پناہ اضافے کی بھرپور اجازت اور دوسرا تعلیم پر کم سے کم خرچہ کرنا ہے۔ 22 کروڑ کو پہنچ چکی آبادی میں ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد افراد 35 سال یا اس سے کم عمر کے ہیں، جن کی اکثریت کو پپو جونیئر والے خانے میں ڈالا جاسکتا ہے۔

پپو جونیئرز کو یہ تو رٹا دیا گیا کہ ایوب خان کی آمریت پاکستان کا سنہری دور تھی، لیکن یہ بیان نہیں کیا گیا کہ مغربی پاکستان کا یہ سنہری دور مشرقی پاکستان کے جسم سے نوچے گئے سنہری ریشے سے بنا گیا تھا اور پاکستان دولخت ہونے کی بھاری ذمے داری اسی آمرانہ دور پر عائد ہوتی ہے۔ ان پپوؤں کو سقوطِ ڈھاکا میں سازش دکھا کر بنگالیوں کی غداری کا سبق تو پڑھا دیا گیا، لیکن یہ بتلانا بھول گئے کہ کس کے حقوق کس نے کس کس طرح سلب کیے رکھے۔ 6 ستمبر 1965 کو رات کے اندھیرے میں دشمن کا لاہور پر بزدلانہ حملہ بھی ازبر کرا دیا گیا، لیکن آپریشن جبرالٹر کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ 23 مارچ 1940 کی قراردادِ لاہور اور 14 اگست 1947 کی تواریخ تو ماتھے پر جھومر کی طرح سجا دی گئیں، لیکن بیچ کی سات سال گرد و غبار سے اٹے پڑے ہیں، مطلب کے مناظر کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور باقی سب گول کردیا گیا ہے۔

سیاست، جمہوریت اور عوامی نظام سے نفرت کا پرچار تو دن رات کیا گیا، لیکن چار آمرانہ ادوار کے ملک و معاشرے پر پڑے بدترین اثرات کے متعلق کوئی بحث نہیں۔ سیاسی ادوار کی ریشہ دوانیوں کو تو پھول بوٹے ٹانک کر پیش کیا گیا، لیکن ڈوریاں ہلانے والوں کا ذکر شجرِ ممنوعہ ہے۔ غداری اور ایجنٹ کے لیبل لگا لگا کر عوامی نمائندگان کو قابلِ نفرت، حقیر، قومی سلامتی کےلیے خطرہ، نااہل اور ناقابلِ قبول مخلوق تو ثابت کیا جاتا رہا ہے، لیکن آئین پامال کرنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے والے غیر منتخب غاصبین، نجات دہندہ اور مسیحا کے درجات پر فائز کیے گئے ہیں۔


اسی طرح قیام پاکستان اور قراردادِ لاہور سے پہلے اس معاشرے کی یادداشت گول میز کانفرنسوں، علامہ اقبال کے خواب، دو قومی نظریے، قائداعظم کی انگلستان سے واپسی، مسلم لیگ کے قیام، کانگریس کے مسلم دشمن رویے، قائداعظم اور علامہ اقبال کی تاریخِ پیدائش و رحلت اور زندگی کے انتہائی منتخب حصوں پر مشتمل ہے۔

اس سے پیچھے مسلمان بادشاہوں کی ہندوستان پر کئی سو برس حکومت کا فتور اور جنگجو مسلم فاتحین کی عظمت کا خیال رگ و پے میں جنون بن کر دوڑتا ہے۔ یہ جنون اور فتور اجتماعی نفسیات کا لاشعور ہے، جو ناقص یادداشت کے ساتھ سیاسی بندوبست پر یقین کم کرتا ہے، نظام کو غیر اہم سمجھتا ہے، ہمہ وقت کسی مسیحا کی آمد کا منتظر رہتا ہے اور جنگجو افراد کی گاہے بگاہے ںظام سے چھیڑخانی پر اطمینان کا اظہار بھی کرتا ہے۔

ایسی مخصوص و ناقص یادداشت کے حامل معاشرے کی موجودگی مقتدرِاعلیٰ اور حقیقی فیصلہ ساز قوتوں کےلیے انتہائی اہم ہے، جو ریاست کے نظریات اور معاملات پر اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی صورتحال میں ایسے معاشرے کے ممکنہ رویے اور ردِعمل سے متعلق کافی حد تک درست اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا حقیقی قوتوں کےلیے کسی بھی قسم کے حالات میں ایسے معاشرے کی مہار موڑنا اور رائے عامہ اپنے حق میں قائم رکھنا نسبتاً آسان عمل ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے کسی بھی مسئلے پر درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور عمومی طور پر روایتی فیصلے ہی کرتے ہیں۔

ایک درست یادداشت کا حامل باشعور، تعلیم یافتہ اور آزاد سوچ رکھنے والا معاشرہ ایسی کسی بھی اجارہ داری کو مسترد کرتے ہوئے جدید ترقی یافتہ معاشروں کی تقلید میں حقیقی عوامی حقِ حکمرانی اور جمہوری نظام کو ریاست کی ترقی کے لیے ناگزیر سجمھ سکتا ہے۔ لہٰذا اجارہ دار قوتوں کی جانب سے معاشرے کے ذہنی و شعوری انجماد کو قائم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔ مخصوص اور ناقص تعلیم فراہم کی جاتی ہے، آزادی اظہار پر قدغن لگائی جاتی ہے، ریاستی سطح پر موافق نظریات کی تشہیر کی جاتی ہے اور مخالفین سے کسی دشمن کے طور پر سلوک برتا جاتا ہے۔

عوامی حقِ حکمرانی اور شعور کی بھوک مٹانے کے واسطے ہر دور کےلیے نیا مسیحا تخلیق کیا جاتا ہے۔ اپنی مرضی کا میدان سجا کر من پسند کھلاڑی اتارے جاتے ہیں، انہیں حکومت کا جھنجھنا تھمایا بھی جاتا ہے لیکن پھر انہی مہروں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا دیکھ کر قومی سلامتی، غداری، نااہلی اور بدعنوانی کے نام پر نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے۔ نئے بت تراشے جاتے ہیں، پرانے ڈھا دیے جاتے ہیں اور پپو جونیئر ادھر سے ادھر چھلانگیں لگا کر مطمئن ہوجاتا ہے۔

آج 2019 کا پاکستان 1990 کے پاکستان سے کسی طور مختلف نہیں۔ حقیقی مقتدر قوتیں وہی ہیں، بس مہروں کے چہرے اور شناخت تبدیل ہوگئی ہیں۔ کل کا بغل بچہ آج کا مجرم ہے اور آج کا لے پالک کل کا نااہل ہوگا۔ پپو جونیئر کے پاکستان میں کسی بھی طرح کی حقیقی تبدیلی آزاد سوچ اور عوامی شعور کے بنا ممکن نہیں ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story