یہ پہلا دھچکا تھوڑی ہے
ہار جیت کا معاملہ محض عالمی عدالتِ انصاف تک محدود نہیں۔
عمران خان نے ریکوڈک کیس ہارنے کے اسباب اور مقدمہ جیتنے والی آسٹریلوی کانکن کمپنی ٹیتھیان کو پانچ اعشاریہ نو بلین ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کے حکم کے پس منظر میں پاکستانی ذمے داروں کے تعین کے لیے ایک کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔
حالانکہ یہ کمیشن بائیس مارچ دو ہزار سترہ کو کانکنی کے حقوق کے بارے میں سرمایہ کاری تنازعوں سے متعلق عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل میں کیس ہارنے کے فوراً بعد قائم ہونا چاہیے تھا۔ اگر تب قائم نہ ہو سکا تو اب سے ایک برس پہلے پی ٹی آئی کی حکومت برسرِ اقتدار آتے ہی بن جانا چاہیے تھا۔مگر یہ مجوزہ کمیشن بھی شائد ذمے داروں کا تعین کر کے باز پرس نہ کر پائے۔کیونکہ اس کی زد میں حکومتِ بلوچستان بھی آئے گی جس نے نومبر دو ہزار گیارہ میں بغیر کوئی معقول وجہ بتائے ٹھیتھان کمپنی کو ریکوڈک کی لیز دینے سے انکار کر دیا۔ اور جب جنوری دو ہزار بارہ میں ٹھیتیان نے ہرجانے کا دعویٰ بین الااقوامی ٹریبونل میں داخل کیا تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اس کیس کے مضمرات و نتائج کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے ایک عام سا مقدمہ سمجھا۔
آخری کیل اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل اس تین رکنی بنچ کے فیصلے نے ٹھونک دی جس کے تحت سات جنوری دو ہزار تیرہ کو کانکنی کے ان تمام معاہدات کو کالعدم قرار دے دیا گیا جو انیس سو ترانوے سے انیس سو گیارہ کے درمیان طے پائے تھے۔ مگر بین الاقوامی ٹریبونل نے پاکستانی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ٹیتھیان کمپنی کی جانب سے دو ہزار سترہ میں ہرجانے کا دعویٰ تسلیم کرلیا۔
اب اگر ٹیھتیان کمپنی اور حکومتِ پاکستان میں اس بھاری ہرجانے کی بابت کہ جس کی مالیت آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کے برابر ہے کوئی سمجھوتہ ہوتا بھی ہے تو وہ غالباً یہ ہوگا کہ حکومتِ پاکستان ریکوڈک کی چابیاں ٹھیتھیان کے حوالے کر دے اور اس کے عوض ٹیتھیان جو بھی شرائط لگائے انھیں بلاچون و چرا تسلیم کر لے۔ریکوڈک کا مطلب ہے چھ ارب ٹن خام تانبے اور چھ لاکھ ٹن سونے کے ذخائر۔
مگر ہم سب مل کر اس فیصلے کا ایسے پوسٹ مارٹم اور ماتم کر رہے ہیں جیسے پہلی بار عدالتی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہو۔
دس اگست انیس سو اٹھانوے کو پاک بحریہ کا غیر مسلح طیارہ اٹلانٹک سندھ اور گجرات کی انتہائی جنوبی سرحد پر بھارتی فضائیہ نے مار گرایااور عملے کے تمام سولہ افراد شہید ہوگئے۔پاکستان اکیس ستمبر انیس سو ننانوے کو یہ کیس عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر گیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ طیارہ سرحد کے اندر پرواز کر رہا تھا۔ایک غیر مسلح طیارے کو نشانہ بنانا جنگی اقدام اور ہوابازی کے بین الاقوامی قوانین کی کھلی پامالی ہے۔ بھارت سے ساٹھ ملین ڈالر ہرجانہ دلایا جائے۔
بھارت نے موقف اختیار کیا کہ طیارہ اس کی فضائی حدود کے اندر تھا اور یہ دلیل دی کہ انیس سو چوہتر کے ایک فیصلے کے مطابق دولتِ مشترکہ کے رکن ممالک کے دوطرفہ معاملات کی سماعت عالمی عدالت کے دائرہِ اختیار سے باہر ہے۔اکیس جون سن دو ہزار کو ابتدائی سماعت کے دوران ہی سولہ میں سے چودہ ججوں نے بھارت کی یہ دلیل مان لی۔ صرف دو ججوں نے اختلاف کیا۔
اس سماعت کے دوران حکومتِ پاکستان کی جانب سے شریف الدین پیرزادہ کو ایڈہاک جج نامزد کیا گیا اور عزیز منشی نے پاکستان کی جانب سے وکالت کی۔عدالت کی جانب سے پاکستانی درخواست مسترد ہونے کے بعد ایم ڈی طاہر ایڈوکیٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی کہ حکومتِ پاکستان اپنا مقدمہ پرزور انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہی اور اس مقدمے اور وکلا کی فیسوں پر قومی خزانے کے ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوئے لہذا عدالت جواب طلبی کرے۔جسٹس عبدالقیوم نے نے درخواست ڈسمس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے بھرپور قانونی وکالت ہوئی ، رقم ٹھیک مد میں خرچ ہوئی اور اس کیس کے نتیجے میں عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں مدد ملی ( گویا ہارے بھی تو بازی مات نہیں )۔
ہار جیت کا معاملہ محض عالمی عدالتِ انصاف تک محدود نہیں۔سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان نے جب جب عالمی بینک کی ثالثی چاہی اس کی جانب سے وکالت بااثر نہ ہو پائی۔مثلاً جب بھارت نے دریائے چناب پر ساڑھے چار سو میگاواٹ کا بگلیہار ہائیڈرو منصوبہ شروع کیا تو بھارت نے ساڑھے سینتیس ملین مکعب میٹر پانی کی گنجائش والے ذخیرے کی تعمیر شروع کردی۔پاکستان کا موقف تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت چھ اعشاریہ بائیس ملین مکعب میٹر سے زائد گنجائش کا ذخیرہ نہیں بنا سکتا۔بھارت نے سنی ان سنی کردیا۔
پاکستان نے عالمی بینک سے غیر جانبدار ثالث نامزد کرنے کی درخواست کی۔بارہ فروری دو ہزار سات کو ثالث نے رولنگ دی کہ بھارت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ساڑھے سینتیس ملین مکعب میٹر سے کم کرکے ساڑھے بتیس ملین مکعب میٹر تک لانے کے لیے ڈیزائن میں تبدیلی کرے۔ بھارت نے جھٹ یہ تجویز مان لی۔پاکستان اگرچہ تکنیکی لحاظ سے مقدمہ جیت گیا مگر اس کا مطالبہ تو چھ اعشاریہ بائیس مکعب میٹر کے ذخیرے کا تھا۔تو عملاً کون کامیاب رہا؟ بالاخر دو ہزار دس میں دونوں ممالک نے بگلیہار کو متنازعہ آبی منصوبوں کی فہرست سے خارج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس دوران دو ہزار چار میں بھارت نے کشمیر میں پینتالیس میگاواٹ کے نیموبازگو ہائیڈل منصوبے پر کام شروع کردیا۔جب تقریباً نصف تعمیراتی کام ہو گیا تب یوسف رضا گیلانی حکومت کو کچھ خیال آیا کہ اس منصوبے کو بھی عالمی ثالثی کے حوالے کیا جائے پھر اچانک بگلیہار منصوبے کی ثالثی کا حشر نظروں کے سامنے گھوم گیا۔لیکن قربانی کا بکرا بھی تو چاہیے۔
چنانچہ انیس سو ترانوے سے دو ہزار گیارہ تک رہنے والے پاکستان کے واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ دو ہزار دس میں سب سے پہلے جماعت الدعوۃ نے الزام لگایا کہ جماعت علی شاہ تنخواہ تو پاکستان سے لیتے ہیں مگر وفادار بھارت کے ہیں۔پھر نوائے وقت میں خبریں شایع ہونی شروع ہوئیں کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے دو ہزار چار پانچ میں ہی نیمو باز گو منصوبے کے بارے میں اطلاع دے دی تھی مگر جماعت علی شاہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
پھر معلوم ہوا کہ جماعت علی شاہ دو ہزار گیارہ میں سبکدوش ہوگئے ، پھر ان کے خلاف مبینہ تحقیقات کی خبریں آنے لگیں، پھر کسی نے کہا وہ کینیڈا فرار ہوگئے۔دو ہزار بارہ میں انھوں نے ایک انٹرویو میں دعوی کیا کہ بگلیہار ڈیم پر پاکستان کا کیس پرویز مشرف نے کمزور کیا کیونکہ وہ بھارت سے تعلقات بحال رکھنا چاہتے تھے۔اور اگر میرے بارے میں آیندہ کسی نے الزام تراشی کی تو میں عدالت میں لے جاؤں گا۔تب سے کچھ امن ہے۔اگر جماعت علی شاہ کی ملی بھگت سے ہی پاکستان کو آبی نقصان پہنچا تو وہ اور ان پر الزام لگانے والے بھی پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔پکڑ لو اگر کہانی سچی ہے۔
دو ہزار تیرہ سے پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دریائے جہلم پر ساڑھے تین سو میگاواٹ کے کشن گنگا ہاہیڈل پروجیکٹ اور دریائے چناب پرساڑھے آٹھ سو میگاواٹ کے رتلے پروجیکٹ کو عالمی بینک کے ثالثی نظام کے ذریعے رکوانے کے لیے کوشاں ہے۔دو ہزار سولہ میں جب مودی نے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی دی تو عالمی بینک نے پاکستان کے کہنے پر ایک غیر جانبدار ثالث کی تقرری پر رضامندی بھی ظاہر کردی تھی مگر دسمبر میں اچانک امریکی دباؤ کے سبب عالمی بینک نے پلٹا کھایا اور زور دیا کہ پہلے دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں اور ناکامی کی صورت میں ہم سے رجوع کریں۔
مارچ دو ہزار سترہ میں سندھ طاس کمیشن کا دو برس بعد باقاعدہ اجلاس ہوا جو حسبِ توقع بے نتیجہ رہا۔اپریل میں واشنگٹن کی سرپرستی میں سیکریٹریوں کی سطح پر بات چیت کا ڈول ڈالا گیا مگر معاملہ آگے نہیں بڑھ پایا۔بات صرف آبی تنازعات کے حل میں وکالت کی ناکامی کی حد تک نہیں ہے۔
پاکستان نے سوئس بینکوں سے آصف زرداری کے مبینہ ساٹھ ملین ڈالر واپس لانے کے لیے جانے کتنے ملین ڈالر اور ایک عدد وزیرِ اعظم بھی قربان کردیا مگر مقدمہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر بالاخر سوئس حکومت نے حکومتِ پاکستان کے بھر بھر پور تعاون سے داخلِ دفتر کردیا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق کل سترہ جولائی کو عالمی عدالتِ انصاف بھارتی جاسوس کھلبھوشن یادو کے قانونی مستقبل کے بارے میں فیصلہ دینے والی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)