اسپورٹس مین اسپرٹ کا فقدان
سیاست پڑوسی ملک بھارت کی ہو یا وطن عزیز پاکستان کی، دونوں کا حال کم وبیش ایک ہی جیسا ہے۔
میدان سیاست کے بارے میں عمومی رائے کبھی بھی اچھی نہیں رہی۔ چنانچہ ایک مغربی مفکر کے بقول "Politics is the game of Scoundrels" یعنی سیاست بد معاشوں کا کھیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر شرفا سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے کنی کتراتے ہیں۔ بقول غالب:
جس کو ہو دین و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں
سیاست پڑوسی ملک بھارت کی ہو یا وطن عزیز پاکستان کی، دونوں کا حال کم وبیش ایک ہی جیسا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ کے بقول ''جیسی شکل ع کی ویسی ہی غ کی''۔ صرف نقطے کا فرق ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اتر پردیش (بھارت) کی صوبائی اسمبلی کے ایک سابق رکن یاد آرہے ہیں جن کا نام ٹھاکر نقلی سنگھ تھا۔ موصوف کو جائزکام کروانے سے گویا چڑ تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے پاس جب بھی آؤ غلط اور ناجائزکام لے کر آؤ کیونکہ میرا نام نقلی سنگھ ہے۔کم سے کم میرے نام کی لاج ہی رکھ لیا کرو۔ نقلی سنگھ صاف گو تھے اس لیے انھوں نے کھری بات کہہ کر سیاست کو بے نقاب کردیا۔ انھوں نے شرافت کا لبادہ اوڑھنے سے گریز کیا۔ بقول شاعر:
بھری بزم میں رازکی بات کہہ دی
بہت بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
وطن عزیزکا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اس کے معرض وجود میں آنے کے تھوڑے سے عرصے کے بعد رحلت فرما گئے اور مفاد پرست عناصر نے ان کے جانشیں قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کرکے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو دورکردیا۔ محسن بھوپالی نے اس المیے کو ان الفاظ میں بیان کرکے اصل حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے۔
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
سیاست کا منحوس سایہ جس چیز پر بھی پڑتا ہے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ بد قسمتی سے کھیلوں کا شعبہ بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔ وطن عزیز میں کرکٹ اور ہاکی کا زوال اس کی بد ترین مثالیں ہیں۔ کھیلوں میں سیاست کے عمل دخل نے پوری دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔کھیل کے میدان جو کبھی میل جول اور دوستی بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہوا کرتے تھے میدان جنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کھیلوں کے بین الاقوامی اداروں نے کھیلوں کے لیے بہت سے قواعد وضوابط وضع کیے ہیں تاکہ کوئی جھگڑا فساد نہ ہو لیکن اس کے باوجود آئے دن ناخوشگوار واقعات پیش آتے رہتے ہیں جس سے کھیلوں کا سارا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ Sportsmen Spirit کی بڑھتی ہوئی کمی ہے۔
تاریخ میں کھیل کو جنگ سے تعبیرکرنے کی بد ترین مثال 1970 کے فیفا (FIFA) ورلڈ کپ فٹبال مقابلے کی ہے جب ایل سلواڈور (Elsalvador) کی فتح کے بعد ہارنے والے ملک ہنڈوراز (Honduras) کے ساتھ اس کی جنگ چھڑگئی۔ یہ جنگ دونوں ممالک کے حامیوں کے درمیان میچ کے اختتام پر تصادم کا نتیجہ تھی۔ اسی طرح 1982 میں ورلڈ کپ فٹبال مقابلے میں ارجنٹینا کی فتح کے بعد برطانیہ کی ٹیم کی ہار کے نتیجے میں دونوں ممالک کے حامیوں میں تصادم کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ اس کے علاوہ عدم برداشت کے باعث کھلاڑیوں کے حامیوں کے درمیان جھگڑے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
تازہ ترین مثال حالیہ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران اسٹیڈیم کے اندر اور باہر افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے حامیوں کی ہے جو مدمقابل پاکستان کی ٹیم کے خلاف مشتعل ہوکر توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی پر اتر آئے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان افغانیوں نے انتہائی احسان فراموشی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ تک نہ سوچا کہ وہ اس میزبان اور مہمان نواز ملک پاکستان کے خلاف یہ مذموم حرکت کر رہے ہیں جس نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دے کر اسلامی بھائی چارے کا شاندار مظاہرہ کیا ہے۔
افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے سپورٹرزکے اس طرز عمل کو محض اتفاقیہ کہہ کر اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ کھیل شروع ہونے سے قبل افغان کرکٹ بورڈ کے سی ای او نے انتہائی بھونڈے اورگھٹیا انداز میں طنزکرتے ہوئے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی کرکٹرزکو افغان کھلاڑیوں سے سیکھنا چاہیے۔ دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کے کرکٹرزکی حیثیت پاکستانی کھلاڑیوں کے آگے طفل مکتب سے زیادہ نہیں جنھیں کھیلنا سکھائے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا:
ہے یہاں کون مری بات سمجھنے والا
میں ہوں کم ظرف کی اوقات سمجھنے والا
یہ تو وہی بات ہوئی کہ ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں میاؤں۔ افغان کرکٹرز کے تو ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے۔ پھر بھلا ان کا پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ کیا موازنہ۔ چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ کہاں راجہ بھوج اورکہاں گنگو تیلی۔ افغان تماشائیوں کے اس نامناسب طرز عمل سے خود ان کی اور ان کے ملک کی ہی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے کیونکہ کرکٹ کا کھیل تو پوری دنیا میں Gentleman's Game یعنی شرفا کے کھیل کے نام سے مشہور ہے۔ آئی سی سی کو اس گھناؤنے واقعے کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی یہی موقف ہے جب کہ شائقین کرکٹ کا بھی یہی مطلب ہے۔ Sportsmen Spirit کا تقاضا بھی یہی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات مدت دراز سے کشیدہ چلے آرہے ہیں اور دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ چار جنگیں بھی ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے پاک بھارت میچوں کے دوران تناؤ کی کیفیت کا موجود رہنا ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ 1982-83 میں پاکستان میں کھیلی گئی پاک بھارت کرکٹ سیریز کے تحت کراچی میں کھیلے گئے ایک میچ کے موقع پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم گروپ نے احتجاجی حربے کے طور پر کریز پر موجود دو بھارتی بلے بازوں پر حملہ کرنے کی مذموم کوشش کی تھی جسے سیکیورٹی ادارے نے ناکام بنادیا تھا۔ اس کے بعد 1987 میں احمد آباد، بھارت میں پاک بھارت سیریز کے تحت کھیلے گئے چوتھے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران تماشائیوں کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں پر پتھراؤ کے نتیجے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیل کا میدان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
اس کے بعد 1999 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت کے دوران پاکستانی ٹیم کے تحفظ کے لیے باقاعدہ گارڈز کا اہتمام کیا گیا تھا کیونکہ انتہا پسند ہندو گروپ کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں پر حملہ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس گروپ نے میچ کھیلے جانے والے ایک مقام پچ (Pitch) کو کھود کر خراب کردیا تھا تاکہ وہاں میچ کھیلا نہ جاسکے۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کے اس انتہا پسند گروپ نے میچ کو رکوانے کے لیے گراؤنڈ میں زہریلے سانپ چھوڑ دینے کا دھمکی آمیز اعلان بھی کیا تھا۔
قابل غور اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پاک بھارت ٹیموں کے درمیان تماشائیوں کے غیر معمولی ہجوم اور انتہائی جوش و خروش کے باوجود کسی بھی ٹیم کے سپورٹرز نے اس طرح کی غیر شائستگی بلکہ اخلاق باختگی کا مظاہرہ ہرگز نہیں کیا جیسا افغان تماشائیوں کی جانب سے حالیہ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے پاک افغان میچ کے دوران کیا گیا تھا۔ ان کی اس نازیبا حرکت سے کسی اور کو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ خود اپنے قومی وقار اور تشخص پر ایسا بدنما داغ لگا ہے جو شاید مدتوں بعد بھی مشکل ہی سے مٹ سکے گا۔
جس کو ہو دین و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں
سیاست پڑوسی ملک بھارت کی ہو یا وطن عزیز پاکستان کی، دونوں کا حال کم وبیش ایک ہی جیسا ہے۔ ہمارے ایک بزرگ کے بقول ''جیسی شکل ع کی ویسی ہی غ کی''۔ صرف نقطے کا فرق ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اتر پردیش (بھارت) کی صوبائی اسمبلی کے ایک سابق رکن یاد آرہے ہیں جن کا نام ٹھاکر نقلی سنگھ تھا۔ موصوف کو جائزکام کروانے سے گویا چڑ تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے پاس جب بھی آؤ غلط اور ناجائزکام لے کر آؤ کیونکہ میرا نام نقلی سنگھ ہے۔کم سے کم میرے نام کی لاج ہی رکھ لیا کرو۔ نقلی سنگھ صاف گو تھے اس لیے انھوں نے کھری بات کہہ کر سیاست کو بے نقاب کردیا۔ انھوں نے شرافت کا لبادہ اوڑھنے سے گریز کیا۔ بقول شاعر:
بھری بزم میں رازکی بات کہہ دی
بہت بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
وطن عزیزکا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اس کے معرض وجود میں آنے کے تھوڑے سے عرصے کے بعد رحلت فرما گئے اور مفاد پرست عناصر نے ان کے جانشیں قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کرکے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو دورکردیا۔ محسن بھوپالی نے اس المیے کو ان الفاظ میں بیان کرکے اصل حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے۔
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
سیاست کا منحوس سایہ جس چیز پر بھی پڑتا ہے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ بد قسمتی سے کھیلوں کا شعبہ بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔ وطن عزیز میں کرکٹ اور ہاکی کا زوال اس کی بد ترین مثالیں ہیں۔ کھیلوں میں سیاست کے عمل دخل نے پوری دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔کھیل کے میدان جو کبھی میل جول اور دوستی بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہوا کرتے تھے میدان جنگ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ کھیلوں کے بین الاقوامی اداروں نے کھیلوں کے لیے بہت سے قواعد وضوابط وضع کیے ہیں تاکہ کوئی جھگڑا فساد نہ ہو لیکن اس کے باوجود آئے دن ناخوشگوار واقعات پیش آتے رہتے ہیں جس سے کھیلوں کا سارا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ Sportsmen Spirit کی بڑھتی ہوئی کمی ہے۔
تاریخ میں کھیل کو جنگ سے تعبیرکرنے کی بد ترین مثال 1970 کے فیفا (FIFA) ورلڈ کپ فٹبال مقابلے کی ہے جب ایل سلواڈور (Elsalvador) کی فتح کے بعد ہارنے والے ملک ہنڈوراز (Honduras) کے ساتھ اس کی جنگ چھڑگئی۔ یہ جنگ دونوں ممالک کے حامیوں کے درمیان میچ کے اختتام پر تصادم کا نتیجہ تھی۔ اسی طرح 1982 میں ورلڈ کپ فٹبال مقابلے میں ارجنٹینا کی فتح کے بعد برطانیہ کی ٹیم کی ہار کے نتیجے میں دونوں ممالک کے حامیوں میں تصادم کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ اس کے علاوہ عدم برداشت کے باعث کھلاڑیوں کے حامیوں کے درمیان جھگڑے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
تازہ ترین مثال حالیہ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران اسٹیڈیم کے اندر اور باہر افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے حامیوں کی ہے جو مدمقابل پاکستان کی ٹیم کے خلاف مشتعل ہوکر توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی پر اتر آئے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان افغانیوں نے انتہائی احسان فراموشی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ تک نہ سوچا کہ وہ اس میزبان اور مہمان نواز ملک پاکستان کے خلاف یہ مذموم حرکت کر رہے ہیں جس نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دے کر اسلامی بھائی چارے کا شاندار مظاہرہ کیا ہے۔
افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے سپورٹرزکے اس طرز عمل کو محض اتفاقیہ کہہ کر اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ کھیل شروع ہونے سے قبل افغان کرکٹ بورڈ کے سی ای او نے انتہائی بھونڈے اورگھٹیا انداز میں طنزکرتے ہوئے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی کرکٹرزکو افغان کھلاڑیوں سے سیکھنا چاہیے۔ دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کے کرکٹرزکی حیثیت پاکستانی کھلاڑیوں کے آگے طفل مکتب سے زیادہ نہیں جنھیں کھیلنا سکھائے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا:
ہے یہاں کون مری بات سمجھنے والا
میں ہوں کم ظرف کی اوقات سمجھنے والا
یہ تو وہی بات ہوئی کہ ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں میاؤں۔ افغان کرکٹرز کے تو ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے۔ پھر بھلا ان کا پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ کیا موازنہ۔ چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ کہاں راجہ بھوج اورکہاں گنگو تیلی۔ افغان تماشائیوں کے اس نامناسب طرز عمل سے خود ان کی اور ان کے ملک کی ہی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوئی ہے کیونکہ کرکٹ کا کھیل تو پوری دنیا میں Gentleman's Game یعنی شرفا کے کھیل کے نام سے مشہور ہے۔ آئی سی سی کو اس گھناؤنے واقعے کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی یہی موقف ہے جب کہ شائقین کرکٹ کا بھی یہی مطلب ہے۔ Sportsmen Spirit کا تقاضا بھی یہی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات مدت دراز سے کشیدہ چلے آرہے ہیں اور دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ چار جنگیں بھی ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے پاک بھارت میچوں کے دوران تناؤ کی کیفیت کا موجود رہنا ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ 1982-83 میں پاکستان میں کھیلی گئی پاک بھارت کرکٹ سیریز کے تحت کراچی میں کھیلے گئے ایک میچ کے موقع پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم گروپ نے احتجاجی حربے کے طور پر کریز پر موجود دو بھارتی بلے بازوں پر حملہ کرنے کی مذموم کوشش کی تھی جسے سیکیورٹی ادارے نے ناکام بنادیا تھا۔ اس کے بعد 1987 میں احمد آباد، بھارت میں پاک بھارت سیریز کے تحت کھیلے گئے چوتھے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوران تماشائیوں کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں پر پتھراؤ کے نتیجے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیل کا میدان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
اس کے بعد 1999 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت کے دوران پاکستانی ٹیم کے تحفظ کے لیے باقاعدہ گارڈز کا اہتمام کیا گیا تھا کیونکہ انتہا پسند ہندو گروپ کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں پر حملہ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اس گروپ نے میچ کھیلے جانے والے ایک مقام پچ (Pitch) کو کھود کر خراب کردیا تھا تاکہ وہاں میچ کھیلا نہ جاسکے۔ اس کے علاوہ ہندوؤں کے اس انتہا پسند گروپ نے میچ کو رکوانے کے لیے گراؤنڈ میں زہریلے سانپ چھوڑ دینے کا دھمکی آمیز اعلان بھی کیا تھا۔
قابل غور اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پاک بھارت ٹیموں کے درمیان تماشائیوں کے غیر معمولی ہجوم اور انتہائی جوش و خروش کے باوجود کسی بھی ٹیم کے سپورٹرز نے اس طرح کی غیر شائستگی بلکہ اخلاق باختگی کا مظاہرہ ہرگز نہیں کیا جیسا افغان تماشائیوں کی جانب سے حالیہ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے پاک افغان میچ کے دوران کیا گیا تھا۔ ان کی اس نازیبا حرکت سے کسی اور کو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ خود اپنے قومی وقار اور تشخص پر ایسا بدنما داغ لگا ہے جو شاید مدتوں بعد بھی مشکل ہی سے مٹ سکے گا۔