میڈیا کو حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ملک ہارون الرشید

خبر پڑھنے کا فن آ جائے تو اس سے حاصل ہونے والا لطف سرمایۂ زیست بن جاتا ہے

معروف نیوزکاسٹر، اسکرپٹ رائٹر و صداکار ملک ہارون الرشید کی کتھا

دوستی، مہمان نوازی، ادب آداب، صلح جُوئی، پیار و محبت اور عجز و انکساری جیسی اعلیٰ انسانی صفات خال خال ہی کسی شخصیت میں یکجا ہوتی ہیں، اوپر سے قدرت نے ایسے انسان کو فنکارانہ صلاحیتوں سے بھی مالامال کیا ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے۔

ملک ہارون الرشید بھی متذکرہ صفات سے متصف اور دل کے بادشاہ لگتے ہیں۔ ہمہ جہت شخصیت کے حامل ملک ہارون الرشید 1976ء سے میدان فن وہنر میں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہیں، اس طویل داستان کوکریدنے سے قبل اپنی ابتدائی زندگی کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی پیدائش پشاورکے مضافاتی گاؤں دارمنگی میں 10 اپریل 1957ء کوملک عبدالرحمان کے ہاں ہوئی۔

ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی جبکہ میٹرک کے لیے کینٹ نمبردوسکول پشاور تک رسائی ہوئی، سکول پہنچنے کے لیے روزانہ کئی میل کی مسافت پیدل یا سائیکل کے ذریعے طے ہوتی، یہ سلسلہ آگے بڑھتارہا اور یوں پشتو اور بعد ازاں جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔

تخلیقی صلاحیتوں نے ان کو پی ٹی وی پشاور سنٹر کی راہ دکھائی، آغاز میں چند ایک ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن جلد ہی آڈیشن کے ذریعے خبروں کے مشکل فن میں کود پڑے، سو تب سے اس دشت کے مسافر ہیں۔ ان کو پاکستان میںطویل ترین عرصے تک خبریں پڑھنے کااعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے، یہ دورانیہ 43 سال پر محیط ہے، اس دوران پشتو کے ساتھ اردو میں بھی خبریں پڑھتے رہے۔

ان کو 1982ء سے 1997ء تک قومی نشریاتی رابطے پر بھی خبریں پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے، وہ خیبرپختون خوا کے پہلے نیوزکاسٹر ہیں جن کو تمغہ امتیازسے نوازا گیا۔ وہ پی ٹی وی ریجنل ایوارڈ، پی ٹی وی دس سالہ بہترین کارکردگی ایوارڈکے علاوہ متعدد علاقائی ایوارڈز بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ ریڈیو پر بے شمار ڈراموں میں صدا کاری بھی کی جنہیں پذیرائی حاصل ہوئی، مختلف پروگراموں کی میزبانی کے فرائض بھی انجام دیئے، جبکہ بطور اناؤنسر بھی انہوں نے خود کو منوایا۔

1979ء میں وہ ریڈیو کی طرف گئے اور مختلف شعبوں میں کام کرکے آل راؤنڈرکہلائے۔ ریڈیو کیلئے 170 سے زائد مختصر دورانیے کے ڈرامے تحریر کیے، اپنے لکھے ہوئے ڈراموں میں زیادہ تر صداکاری کے فرائض بھی خود انجام دیئے۔ ڈاکومنٹری بنانے کے ساتھ ان کو اپنی پس پردہ آواز سے مزین کرنے کاکام بھی انجام دیا، امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ڈرامہ نویسی اور ڈائریکشن میں اعترافی سند بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس وقت وہ صوبے کے سرکاری ریڈیو 'خیبرپختون خوا ریڈیو' سے بطور نیوزکاسٹر منسلک ہیں، ان کے بے شمار شاگرد ہیں جنہوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

ہارون الرشید بتاتے ہیں کہ ٹی وی اور ریڈیو پر پہلی مرتبہ آن ایئر ہونے کا اتنا خوف طاری نہ تھا جتنا گھر والوں کے غیض و غضب کا خیال دامن گیر تھا، گھرکو لوٹتے ہوئے دل میں ایک کھٹکا سا رہا، گھر پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا کہ کسی نے پروگرام تو نہیں دیکھا، یہ معلوم کر کے جان میں جان آئی کہ کسی کے کان میں بھنک تک نہیں پڑی، خیر دل تھام کر اور حوصلے کو مہمیز دے کر کام جاری رکھا۔

بطور نیوزکاسٹر، ان کو ریڈیو، ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں کے برعکس مختلف نوعیت کے تجربے کا سامنا کرنا پڑا، جو ان کے مطابق میڈیا کے دیگر شعبوں میں سب سے مشکل اور انتہائی سنجیدہ نوعیت کا کام ہے یعنی عوام سے براہ راست ناطہ جوڑ کر غیر جانبدرانہ انداز میں ان کو حقائق پر مبنی واقعات و حالات سے باخبرکرانا۔ ان کو یہ نیا تجربہ دل دہلانے والاکام لگا لیکن حواس پر قابو رکھتے ہوئے اس مشکل سے بخوبی نبرد آزما ہوتے رہے حتیٰ کہ اس دشت کی سیاحی میں 43 سال بیت گئے اور ان مہ و سال کے گزرنے کا انہیں احساس تک نہ ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ خبریں پڑھنا باقاعدہ ایک فن ہے، بدقسمتی سے چند لوگوں نے اسے فیشن اور شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، جو اس بہت اہم شعبے سے مذاق کے مترادف ہے۔ ''میری ذاتی رائے میں خبریں پڑھنا ایک فن اور ہنر ہے، جس کے ہاتھ یہ ہنر آگیا تو حقائق کو اپنے سامعین و ناظرین تک پہنچانے کا لطف و سرور ہی سرمایۂ زیست بن جاتا ہے، یہ بہت مشکل ذمہ داری ہے، یہاں آپ کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔''

ہارون الرشید نوجوان اور نئے نیوز کاسٹرز میں بخت زمان یوسفزئی اور ذکا عبداللہ کے ٹیلنٹ کے معترف ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا خبریں پڑھنے کا انداز، الفاظ کا زیرو بم اور چہرے کے تاثرات، یہ تمام چیزیں سامعین و ناظرین کو ان کا گرویدہ بنا لیتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے اور کسی ماما چاچا کی سفارشی بیساکھی نہ ہونے کی بنا پر ان کا ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے۔

ملک ہارون الرشید 1984ء میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے، ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بیٹی امریکہ میں ڈاکٹر آف میڈیسن ہیں، بڑے بیٹے زرک خان آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر فرائض انجام دے رہے ہیں، دوسرے بیٹے عمرخان بھی ایک اچھے عہدے پر کام کر رہے ہیں، سلطان تیمور خان اور شیر خان اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خوراک کے حوالے سے ان کو جو بھی مل جائے قدرت کا انعام سمجھ کر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن خود کو سبزی خور کہتے ہیں، پودینے اورچھاچھ کے بغیر کھانے کو ادھورا سمجھتے ہیں، لباس میں رکھ رکھاؤ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ انسان کی نفاست کا اندازہ اس کے لباس سے کیا جاتا ہے، فارغ وقت میں باغ بانی سے لطف اندوزہوتے ہیں، جو مشغلہ بھی ہے اور اس طرح گھر سے ہی تازہ سبزیاں بھی مل جاتی ہیں۔

عشق کے بغیر اس کائنات کونامکمل سمجھتے ہیں، جب کہ مجازی عشق کو حقیقی عشق کی پہلی سیڑھی خیال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنی غزل کے اس شعر کا حوالہ دیتے ہیں:


خالق مینہ لہ عالم درومے کعبے لہ

پہ تخلیق ئے زہ مئین یم گنہگاریم

حسن پرست ہیں لیکن اصل حسن، سیرت اور بہترین کردارکو گردانتے ہیں، خود کو اللہ کاشکرگزاربندہ خیال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سوائے شب و روزکے گنوانے کے باقی زندگی میں شہرت، عزت، دولت، سکون قلب اور لوگوں کا پیار سمیٹا ہے۔ لڑکپن میں باسکٹ بال،کبڈی اورکیرم بورڈ سے حسین یادیں وابستہ ہیں، جب کہ اب بھی موقع ملے تو بیڈمنٹن کھیلتے نظر آتے ہیں۔

پشتو موسیقی پر فریفتہ ہیں، شاعری میں غزل کو خاصے کی چیزگردانتے ہیں۔ استاد خیال محمد کو زیادہ سنا، جبکہ موسیقاروں میں استاد نذیر گل کے فن کے معترف ہیں۔ کہتے ہیں، ''محمد اعظم اعظم کی شاعری، خیال محمد کی آواز اور استاد نذیر گل کی موسیقی کا تکون یکجا ہو تو کیا کہنے، سننے والے پر ایک سحر طاری ہو جاتا ہے۔'' اسی طرح وہ کشور سلطان، نازیہ اقبال، ہمایون خان، وگمہ، مہ جبین، گلنار بیگم، سردار علی ٹکر اور موجودہ دور میں فیاض خیشگی کے فن کو پشتو موسیقی کے باب میں معراج پر دیکھتے ہیں، جب کہ اداکاروں میں وہ سید ممتاز علی شاہ، مرحوم قاضی ملا، اسماعیل شاہد، سید رحمان شینو کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ شعراء میں رحمان بابا، امیر حمزہ خان شینواری، قلندر مومند اور محمد اعظم اعظم کو اپنے فن کے حوالے سے درخشندہ ستارے سمجھتے ہیں۔

شاعری کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ چونکہ شاعر معاشرے کی آنکھیں ہیں اس لیے شاعر کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ گل و بلبل، حسن و عشق اور تخیلاتی شاعری کے بجائے حقیقت پر مبنی شاعری کر کے سلگتے معاشرتی مسائل کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیں اور یہ موجودہ وقت میں اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کیوں کہ آج پختون جن حالات سے گزر رہے ہیں اور پختون قوم جس تکلیف میں ہے، ہمیں اپنی شاعری میں قوم کے زخموں پر پھاہا رکھ ایک مٹھی بن کر اغیار کی سازشوں کو ناکام بنانا پڑے گا، یہی ہمارے پاس ایک راستہ ہے۔ نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ان میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے، اگر وہ درست سمت میں محنت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کامیاب نہ ہوں، کل یقینا ان کا ہو گا۔ جب کہ ایمانداری کی بدولت وہ ہرمتاع حاصل کرسکتے ہیں، ساتھ نوجوانوں کو وقت ضائع نہ کرنے کی بھی تلقین کرتے ہیں کہ زیست کا ہر لمحہ قیمتی ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

تمغۂ امتیاز پانے والے اسکرپٹ رائٹر اور چار عشروں سے خبریں پڑھنے والے سینئر نیوزکاسٹر ملک ہارون الرشیدکہتے ہیں، ''1974ء میں پی ٹی وی پشاور سنٹر اداکاری کے شوق میں گیا، اداکار تو نہ بن سکا البتہ نیوزکاسٹر بن گیا، 18دسمبر 1974ء اتوارکے دن شام ساڑھے چاربجے پہلی مرتبہ خبریں پڑھنے کاموقع ملا اور اس سلسلے کو آج تک قائم و دائم رکھے ہوئے ہوں، اس شعبے سے وابستگی کی بنا پر اللہ نے بہت عزت دی اور ساتھ جینے کا ڈھنگ بھی عطا کیا، یہ درست ہے کہ خبریں پڑھنا ایک مشکل اور سنجیدہ عمل ہے لیکن لگن اور دل چسپی کے ساتھ خبریں پڑھنا ایک فن ہے کیوں کہ آپ کوغیر جانبدار رہتے ہوئے ناظرین و سامعین تک سچ پہنچانا ہوتا ہے، خبریں پڑھتے ہوئے آپ کوایک معینہ وقت میں سب کچھ بخیر و بخوبی انجام دینا پڑتا ہے اور آپ کے پاس غلطی کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔ ایک اچھے نیوزکاسٹرکے لیے مناسب شکل و صورت کے ساتھ درست لب و لہجے اور الفاظ کے اتار چڑھاؤ کا علم ہونا ضروری ہے، جب کہ تعلیم یافتہ ہونا اضافی خوبی تصورکی جاتی ہے۔ تعلیم اور اچھی تربیت سے آپ ایک بہترین نیوز کاسٹر بن سکتے ہیں۔''

وہ قومی ٹی وی کے انداز اور معیار کو آج بھی سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر پشاور کے شعبہ نیوز میں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ افراد کی موجودگی میں مستند رپورٹنگ کے ساتھ خبروں کا معیار ہمیشہ بلند رہا ہے، جب کہ مسابقتی دور میں آج بھی پی ٹی وی ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتا ہے، اس کے علاوہ پی ٹی وی سے نشر ہونے والی خبریں ذمہ داری اور سچ کی عکاس ہوتی ہیں کیوں کہ جدت پسندی کے باوجود اس ادارے نے اپنے لیے ایک الگ مقام اور پہچان بنا رکھی ہے۔ ان کے بقول، ''خبریں پڑھتے وقت بہت سے دل چسپ واقعات پیش آتے ہیں لیکن اپنی حاضردماغی کی بدولت اس وقت تو ان پر کنٹرول پا لیتے ہیں لیکن آف ایئر سٹوڈیو میں وہ واقعہ یاد کر کے ہنسی ضبط نہیں ہوتی۔''

نئے آنے والے ساتھیوں کو اس شعبے سے منسلک ہونے کے متعلق کہتے ہیں کہ کوئی بھی کام کرنے سے قبل اس کے مختلف پہلوؤں پر سوچ بچار، اپنے سینئر سے جان کاری اور مشاورت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔ جذبات کی رو میں آکر کئے گئے فیصلے پر ہمیشہ پچھتاوا ہی ہوتا ہے لیکن نوجوان یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر اس پر قائم رہنا چاہئے۔ ''اس وقت بہت سے نیوزکاسٹر معیارکوقائم رکھے ہوئے ہیں ۔

ایک نیوز کاسٹرکوخبریں پڑھتے ہوئے انتہائی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے لیکن کبھی کبھارکوئی خبراندر سے ہلادیتی ہے، یہی معاملہ ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی دیے جانے کی خبر پڑھتے ہوئے بھی پیش آیا، جب کہ سب سے پہلے یہ خبر میں نے ہی ٹی وی سکرین پر پڑھی تھی، اسی طرح کئی اہم شخصیات کے انتقال کی خبریں بھی میں نے ہی پڑھی تھیں جن میں باچا خان، ارباب سکندر، قیوم خان، قلندر مومند اوردیگرشامل ہیں۔''

ہارون الرشید کہتے ہیں، ''ننانوے فی صد لوگ ہمیں سنتے ہیں، اس لیے ہماری ویوئرشپ بھی دوردراز علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے، ہرجگہ ہم سے محبت کرنے والے موجود ہوتے ہیں اورمیں جس جگہ بھی جاتا ہوں لوگ انتہائی پیار و محبت سے پیش آتے ہیں، مجھ سے آٹوگراف مانگتے ہیں اورمیرے ساتھ تصاویر کھنچواتے ہیں، جس کومیں خداکی طرف سے ایک تحفہ سمجھتاہوں۔'' میڈیا کے شعبے میں آنے والی لڑکیوں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ویسے تو ایک لڑکی کے لیے قدم قدم پر آزمائشیں منہ کھولے کھڑی ہوتی ہیں لیکن اس شعبے میں یہ مشکلات دگنا ہو جاتی ہیں، انہی مشکلات سے ڈر کر اکثر لڑکیاں یہ فیلڈ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا ایک موثر ہتھیار ہے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم نے ابلاغ عامہ کو معاشرتی اصلاح، ترقی، شعور و آگہی اور فروغ تعلیم کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تو ہمارا ملک بہت آگے جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے مختلف ٹی وی چینلز پر چند چھاتہ بردار لوگ حقیقی مسائل اور ایشوزکو چھوڑ کر عوام کو غیر ضروری ایشوز میں الجھا رہے ہیں جو قطعاً درست نہیں۔

کہتے ہیں کہ جب تک خیبر پختونخوا اپنے میڈیا کے قیام کے لیے اقدامات نہیں کرے گا اس وقت تک ہماری آواز دوسروں تک نہیں پہنچ سکتی، اپنے صوبے کا بہتر امیج پیش کرنے کے لیے یہاں کے صحافیوں کو اسلام آباد، لاہور اورکراچی وغیرہ جا کر میڈیا ہاؤسز میں کام کرنا چاہئے جو اپنے لوگوں کی آواز موثر پلیٹ فارم سے پیش کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا میڈیا سنسنی خیزی پھیلا رہا ہے جس سے معاشرے میں منفی رجحانات کا اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ پیمرا بھی اس کو روکنے میں ناکام رہا ہے، اس کی نسبت اخبار پھر بھی بہتر ہے کیونکہ اس میں جانچ پرکھ ہوتی ہے، جس طرح ڈاکٹر اور وکیل کے لیے لائسنس جاری ہوتا ہے اسی طرح ایک صحافی کے لیے بھی لائسنس جاری ہونا چاہئے تاکہ غیر ذمہ داری کی صورت میں اس کا لائسنس منسوخ کیا جا سکے جب کہ دوسری جانب میڈیا مالکان اپنے کارکنان کو بہتر مراعات و سہولیات دے کر ان کی صلاحتوں سے بہتر انداز میں کام لے سکتے ہیں۔
Load Next Story