بی این پی کے ترقیاتی منصوبوں کیلیے PSDP کی نئی کتاب شائع
بجٹ منظوری میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کیلیے سرکاری فنڈز کا استعمال، عمران خان کے ایک اور وعدے کی کھلی خلاف ورزی
تحریک انصاف کی حکومت نے وفاقی بجٹ کی منظوری میں اتحادی جماعت بی این پی (مینگل) کی حمایت حاصل کرنے کیلیے اس کے 56 ترقیاتی منصوبے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں شامل کر کے پی ایس ڈی پی کی نئی کتاب شائع کی جو سیاسی حمایت کے حصول کیلیے ٹیکس دہندگان کی رقوم استعمال کرنے کی مثال اور وزیراعظم عمران خان کے قوم سے کئے گئے اس وعدے کی کھلی خلاف ورزی ہے کہ وہ قوم کے پیسے کی حفاظت کریں گے۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمزنے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پی ایس ڈی پی دستاویز کو واپس لے کر نئی دستاویز چھاپی ہے۔ پی ایس ڈی پی کی نئی کتاب میں 56 اضافی منصوبے شامل ہیں جن میں سے پچاس سے زائد منصوبوں کا تعلق ان علاقوں سے ہے جہاں سے بی این پی مینگل کے امیدوار گزشتہ عام انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ بجٹ کی منظوری کیلیے بی این پی مینگل کے ووٹ ناگزیر تھے۔ پی ایس ڈی پی میں سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے منصوبے شامل کرنا حال ہی میں منظور ہونے والے پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی بھی ہے جو نئے منصوبے شامل کرنے کیلیے چند شرائط عائد کرتا ہے۔
نمائندہ ایکسپریس ٹربیون نے وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ مخدوم خسرو بختیار اور سیکریٹری پلاننگ ظفر حسن کا موقف جاننے کیلیے ان کے دفاتر کا دورہ کیا ۔ وزارت پلاننگ نے وعدہ کرنے کے باوجود اس خبر کی اشاعت تک اپنا موقف نہیں دیا۔
ذرائع کے مطابق پی ایس ڈی پی کی نئی کتاب چھاپنے کے پیچھے وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ، سیکرٹری پلاننگ اور آصف شیخ کا ہاتھ ہے۔ آصف شیخ کا کنٹریکٹ چند ہفتے قبل وزارت پلاننگ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر ختم کردیا تھا لیکن وہ بدستور ڈیوٹی پر آ رہے ہیں اور وزارت کا دفتر اور گاڑی استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت 73سالہ آصف شیخ کی خدمات دوبارہ حاصل کرنے کیلئے اشتہار بھی دی چکی ہے۔
عدالت عالیہ نے آصف شیخ کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔آصف شیخ سیاسی مفادات کے حصول کیلئے سرکاری فنڈز استعمال کرنے کے حوالے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں بھی سرگرم رہے ہیں۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اپنی برطرفی سے قبل آصف شیخ ڈویلپمنٹ بجٹ ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے تھے، وزارت پلاننگ نے انہیں پلاننگ کمیشن کے ممبر انفراسٹرکچر کا اضافی چارج بھی دیدیا اور اس عہدے کو استعمال کرتے ہوئے سارا فائل ورک انہوں نے ہی انجام دیا ہے۔ نئی سکیمیں شامل ہونے سے پی ایس ڈی پی کا حجم 9.8ٹریلین تک پہنچ گیا ہے اور اس میں 1063منصوبے شامل ہیں جبکہ اس سے پہلے اس میں 1007 منصوبے شامل تھے۔
حکومت نے نئے 56 منصوبوں کیلئے فرضی لاگت ظاہر کی ہے تاکہ بجٹ پر اس کے اثرات کو چھپایا جا سکے، اس کے علاوہ ان منصوبوں کی کوئی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار نہیںکی گئی۔ پی ایس ڈی پی میں شامل کئے گئے نئے منصوبوں کا تعلق 7وزارتوں سے ہے ان میں خزانہ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن، ریونیو ڈویژن، بین الصوبائی رابطہ اور امور کشمیر کی وزارتیں شامل ہیں۔ نئے منصوبے شامل کرنے سے وزارت خزانہ کے کل منصوبوں کی تعداد 37سے بڑھ کر50ہو گئی ہے۔
یہ نئے منصوبے خضدار، نوشکی، چاغی اور کوئٹہ کیلیے ہیں۔ سب سے زیادہ 21نئے منصوبے وزارت آبی وسائل کے تحت ہیں اور ان کا تعلق بھی بلوچستان کے انہی علاقوں سے ہے جہاں بی این پی مینگل کے ارکان اسمبلی کے حلقے ہیں۔ ان منصوبوں میں خضدار میں 10چھوٹے ڈیموں کی تعمیر،نوشکی، چاغی میںڈیلے ایکشن ڈیم، گوادر میں فلڈ اری گیشن سکیم، کوئٹہ اور خاران میں چھوٹے ڈیم شامل ہیں۔ 18نئے منصوبے پاور ڈویژن سے متعلق ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت پلاننگ، ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمزنے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پی ایس ڈی پی دستاویز کو واپس لے کر نئی دستاویز چھاپی ہے۔ پی ایس ڈی پی کی نئی کتاب میں 56 اضافی منصوبے شامل ہیں جن میں سے پچاس سے زائد منصوبوں کا تعلق ان علاقوں سے ہے جہاں سے بی این پی مینگل کے امیدوار گزشتہ عام انتخابات میں منتخب ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ بجٹ کی منظوری کیلیے بی این پی مینگل کے ووٹ ناگزیر تھے۔ پی ایس ڈی پی میں سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے منصوبے شامل کرنا حال ہی میں منظور ہونے والے پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی بھی ہے جو نئے منصوبے شامل کرنے کیلیے چند شرائط عائد کرتا ہے۔
نمائندہ ایکسپریس ٹربیون نے وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ مخدوم خسرو بختیار اور سیکریٹری پلاننگ ظفر حسن کا موقف جاننے کیلیے ان کے دفاتر کا دورہ کیا ۔ وزارت پلاننگ نے وعدہ کرنے کے باوجود اس خبر کی اشاعت تک اپنا موقف نہیں دیا۔
ذرائع کے مطابق پی ایس ڈی پی کی نئی کتاب چھاپنے کے پیچھے وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ، سیکرٹری پلاننگ اور آصف شیخ کا ہاتھ ہے۔ آصف شیخ کا کنٹریکٹ چند ہفتے قبل وزارت پلاننگ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر ختم کردیا تھا لیکن وہ بدستور ڈیوٹی پر آ رہے ہیں اور وزارت کا دفتر اور گاڑی استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت 73سالہ آصف شیخ کی خدمات دوبارہ حاصل کرنے کیلئے اشتہار بھی دی چکی ہے۔
عدالت عالیہ نے آصف شیخ کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔آصف شیخ سیاسی مفادات کے حصول کیلئے سرکاری فنڈز استعمال کرنے کے حوالے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں بھی سرگرم رہے ہیں۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اپنی برطرفی سے قبل آصف شیخ ڈویلپمنٹ بجٹ ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے تھے، وزارت پلاننگ نے انہیں پلاننگ کمیشن کے ممبر انفراسٹرکچر کا اضافی چارج بھی دیدیا اور اس عہدے کو استعمال کرتے ہوئے سارا فائل ورک انہوں نے ہی انجام دیا ہے۔ نئی سکیمیں شامل ہونے سے پی ایس ڈی پی کا حجم 9.8ٹریلین تک پہنچ گیا ہے اور اس میں 1063منصوبے شامل ہیں جبکہ اس سے پہلے اس میں 1007 منصوبے شامل تھے۔
حکومت نے نئے 56 منصوبوں کیلئے فرضی لاگت ظاہر کی ہے تاکہ بجٹ پر اس کے اثرات کو چھپایا جا سکے، اس کے علاوہ ان منصوبوں کی کوئی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار نہیںکی گئی۔ پی ایس ڈی پی میں شامل کئے گئے نئے منصوبوں کا تعلق 7وزارتوں سے ہے ان میں خزانہ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن، ریونیو ڈویژن، بین الصوبائی رابطہ اور امور کشمیر کی وزارتیں شامل ہیں۔ نئے منصوبے شامل کرنے سے وزارت خزانہ کے کل منصوبوں کی تعداد 37سے بڑھ کر50ہو گئی ہے۔
یہ نئے منصوبے خضدار، نوشکی، چاغی اور کوئٹہ کیلیے ہیں۔ سب سے زیادہ 21نئے منصوبے وزارت آبی وسائل کے تحت ہیں اور ان کا تعلق بھی بلوچستان کے انہی علاقوں سے ہے جہاں بی این پی مینگل کے ارکان اسمبلی کے حلقے ہیں۔ ان منصوبوں میں خضدار میں 10چھوٹے ڈیموں کی تعمیر،نوشکی، چاغی میںڈیلے ایکشن ڈیم، گوادر میں فلڈ اری گیشن سکیم، کوئٹہ اور خاران میں چھوٹے ڈیم شامل ہیں۔ 18نئے منصوبے پاور ڈویژن سے متعلق ہیں۔