وقت کسی کا نہیں ہوتا
وقت کی بہتری پر خود کو نہ بدلیں اور دوسرں کے بدترین وقت سے کچھ سیکھنے کی کوشش کیجئے
کہتے ہیں کہ وقت کبھی کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اس کا کام بدلنا ہے اور یہ بدل کر رہتا ہے۔ ہم انسان وقت کے بارے میں بہت انجان ہیں اور ہمیشہ ہی اس کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہم جب کامیاب ہوتے ہیں تو ایسے محسوس کرتے ہیں کہ یہ وقت سدا ایسا ہی رہے گا اور کبھی بدلے گا نہیں، اور ایسے ہی مہربان رہے گا۔ اس لیے جب بھی بہتر وقت آتا ہے تو سب سے پہلے انسان کا رویہ تبدیل ہوتا ہے۔ اس کو دنیا اپنے ماتحت لگنا شروع ہوجاتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ یہ بادشاہی ہمیشہ ایسی ہی رہے گی اور اس کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اب کبھی وقت پلٹا نہیں کھائے گا۔ مگر انسان کو مایوسی اس وقت آ گھیرتی ہے، جب وقت پلٹا کھاتا ہے تو انسان کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں کہ ''یہ وقت کبھی کسی کا نہیں رہتا''۔
بدلاؤ قدرت کا اُصول ہے۔ کچھ بھی ہمیشہ کےلیے نہیں ہے۔ اسی طرح وقت اگر عروج دکھاتا ہے تو زوال بھی انسان کو ہی سہنا پڑتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر جذباتی واقع ہوا ہے۔ اگر کوئی کامیابی ملنا شروع ہوجائے تو آسمان پر اڑنا شروع کردیتا ہے اور اگر زوال آجائے تو پھر مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وقت کبھی بھی دبے پاؤں نہیں بدلتا۔ یہ پلٹنے سے پہلے اپنی کچھ نشانیاں ظاہر کرتا ہے۔ انسان کو وقت بار بار باور کرواتا ہے کہ میں کسی کا نہیں ہوا، اس لیے میرے بہتر ہونے پر کبھی خود کو نہ بدلنا، بلکہ کوشش کرنا کہ جب میں اچھا ہوں تو تمہارا رویہ اس حد تک بہتر ہونا چاہیے کہ میرے بدلنے پر مشکل میں کوئی تمہارے ساتھ کھڑا ہوسکے۔ مگر انسان اپنی دھن میں چلتا رہتا ہے۔ جب اسے ٹھوکر لگتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کاش میں خود کو سدھار لیتا تو اتنی تکلیف نہ اُٹھاتا۔
جب وقت بدلتا ہے تو انسان سے متعلق لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔ آپ کے اچھے وقت میں لوگوں کو آپ کی اچھائیاں نظر آتی ہیں، جبکہ برے وقت میں لوگوں کو آپ کی وہ بھی برائیاں بھی نظر آتی ہیں جو کہ حقیقت میں آپ میں موجود ہی نہیں ہوتیں۔
وقت کے بدلنے کی رفتار کو اگر بہتر طریقے سے بیان کرنے کےلیے پاکستان میں موجود کچھ سیاست کے عظیم ناموں کی داستان بیان کریں تو تاریخ میں بہت پیچھے نہیں جانا پڑے گا۔ 2008 کے الیکشن جیتنے کے بعد آصف علی زرداری کو ملک کا صدر بنایا گیا۔ حقیقت میں ملک کا سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا۔ وہ بھی وقت تھا کہ زرداری صاحب کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ زرداری میموگیٹ جیسے مشکل ترین معاملے میں بھی محفوظ رہے اور ان کے ناقدین بھی ان کو زیرک سیاست دان سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔ پی پی پی کا فیصلہ ہو یا ملک کا، ہر فیصلہ زرداری صاحب نے کیا۔ آج کل ان کا وقت یہ ہے کہ وہ صدر سے ملزم بن چکے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں نیب سے خدمت کروا رہے ہیں۔ وہی لوگ جو زرداری صاحب کو زیرک سیاست دان سمجھتے تھے، آج وہی لوگ زرداری کو ملزم قرار دے رہے ہیں۔
اسی طرح نوازشریف پاکستان کی سیاست میں اہم نام ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد ایک طویل جلاوطنی کے بعد ان کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ نوازشریف کی آؤ بھگت دیکھنے والی تھی، جب کبھی لاہور آمد ہوتی تھی تو پورے لاہور کی ٹریفک کو بند کردیا جاتا تھا۔ جاتی اُمرا کی طرف جانے والے راستوں پر خاص روٹس لگائے جاتے تھے۔ بیوروکریسی، انتظامیہ سب ہی نوازشریف کے ماتحت تھے۔ اُن کے چاہنے والوں کی ایک لمبی فہرست تھی اور ان چاہنے والوں کا ماننا تھا کہ نواز شریف سے بہتر تو کوئی وزیراعظم اس ملک میں آیا ہی نہیں۔ پھر پانامہ کا شور اٹھا اور نواز شریف کا وقت بدل گیا۔ بالآخر نواز شریف بھی ملزم ٹھہرے اور آج کل اُسی جرم کی پاداش میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ اُن کے وہ ورکرز جو ان پر جان نچھاور کرتے تھے، ان سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں واضح کمی نظر آنے لگی۔ اُن کے بڑے قریبی ساتھیوں نے بھی اُن کو ہی مورد الزام ٹھہرایا کہ جو بھی ہوا ہے میاں صاحب کے ساتھ اس میں میاں صاحب کی اپنی غلطی ہے۔
اب اس بحث میں اُلجھ کر کیا ملے گا کہ غلطی کس کی تھی یا نہیں۔ بس وقت تھا، بدل گیا۔ اسی پر تو بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا کہ
صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا
ایسی ہی داستان پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثنااللہ خان کی ہے۔ جو دس سال تک پنجاب کے وزیر قانون رہے۔ ایک وقت تھا کہ بیوروکریسی اور مسلم لیگ ن رانا ثنااللہ خان کی مداح تھی۔ پروٹوکول، سیکیورٹی، سب کچھ ہی میسر تھا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قریبی ساتھی ہونے کی بنا پر خاص مقام بھی حاصل تھا۔ پنجاب کے زیادہ تر اُمور رانا ثناللہ خان ہی سرانجام دیتے تھے۔ پھر رانا صاحب کے وقت نے بھی پلٹا کھایا اور آج کل وہ بھی انسداد منشیات کی خصوصی جیل میں منشیات کی برآمدگی ہونے کی صورت میں قید ہیں۔ اُن کے اہل خانہ ٹی وی پر آکر اُن پر ہونے والے ظلم کی داستان کو بیان کرتے ہیں۔ اب تو ان کی اہلیہ نے اقوام متحدہ کی طرف بھی رجوع کرلیا ہے۔ اب وقت ہی اُن کا فیصلہ کرے گا۔
مختصر صرف یہی کہ وقت پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ کبھی بھی کسی کا نہیں ہوتا۔ بدلنا اس کا کام ہے اور یہ بدل کر رہتا ہے۔ مگر سیکھنے والی بات یہ ہے کہ وقت کی بہتری پر خود کو نہ بدلیں۔ اپنا رویہ ایسا رکھیں کہ مشکل میں کوئی آپ کے ساتھ کھڑا رہ سکے۔ اور دوسرں کے بدترین وقت سے کچھ سیکھنے کی کوشش کیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بدلاؤ قدرت کا اُصول ہے۔ کچھ بھی ہمیشہ کےلیے نہیں ہے۔ اسی طرح وقت اگر عروج دکھاتا ہے تو زوال بھی انسان کو ہی سہنا پڑتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر جذباتی واقع ہوا ہے۔ اگر کوئی کامیابی ملنا شروع ہوجائے تو آسمان پر اڑنا شروع کردیتا ہے اور اگر زوال آجائے تو پھر مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وقت کبھی بھی دبے پاؤں نہیں بدلتا۔ یہ پلٹنے سے پہلے اپنی کچھ نشانیاں ظاہر کرتا ہے۔ انسان کو وقت بار بار باور کرواتا ہے کہ میں کسی کا نہیں ہوا، اس لیے میرے بہتر ہونے پر کبھی خود کو نہ بدلنا، بلکہ کوشش کرنا کہ جب میں اچھا ہوں تو تمہارا رویہ اس حد تک بہتر ہونا چاہیے کہ میرے بدلنے پر مشکل میں کوئی تمہارے ساتھ کھڑا ہوسکے۔ مگر انسان اپنی دھن میں چلتا رہتا ہے۔ جب اسے ٹھوکر لگتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کاش میں خود کو سدھار لیتا تو اتنی تکلیف نہ اُٹھاتا۔
جب وقت بدلتا ہے تو انسان سے متعلق لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔ آپ کے اچھے وقت میں لوگوں کو آپ کی اچھائیاں نظر آتی ہیں، جبکہ برے وقت میں لوگوں کو آپ کی وہ بھی برائیاں بھی نظر آتی ہیں جو کہ حقیقت میں آپ میں موجود ہی نہیں ہوتیں۔
وقت کے بدلنے کی رفتار کو اگر بہتر طریقے سے بیان کرنے کےلیے پاکستان میں موجود کچھ سیاست کے عظیم ناموں کی داستان بیان کریں تو تاریخ میں بہت پیچھے نہیں جانا پڑے گا۔ 2008 کے الیکشن جیتنے کے بعد آصف علی زرداری کو ملک کا صدر بنایا گیا۔ حقیقت میں ملک کا سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا۔ وہ بھی وقت تھا کہ زرداری صاحب کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ زرداری میموگیٹ جیسے مشکل ترین معاملے میں بھی محفوظ رہے اور ان کے ناقدین بھی ان کو زیرک سیاست دان سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔ پی پی پی کا فیصلہ ہو یا ملک کا، ہر فیصلہ زرداری صاحب نے کیا۔ آج کل ان کا وقت یہ ہے کہ وہ صدر سے ملزم بن چکے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں نیب سے خدمت کروا رہے ہیں۔ وہی لوگ جو زرداری صاحب کو زیرک سیاست دان سمجھتے تھے، آج وہی لوگ زرداری کو ملزم قرار دے رہے ہیں۔
اسی طرح نوازشریف پاکستان کی سیاست میں اہم نام ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد ایک طویل جلاوطنی کے بعد ان کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ نوازشریف کی آؤ بھگت دیکھنے والی تھی، جب کبھی لاہور آمد ہوتی تھی تو پورے لاہور کی ٹریفک کو بند کردیا جاتا تھا۔ جاتی اُمرا کی طرف جانے والے راستوں پر خاص روٹس لگائے جاتے تھے۔ بیوروکریسی، انتظامیہ سب ہی نوازشریف کے ماتحت تھے۔ اُن کے چاہنے والوں کی ایک لمبی فہرست تھی اور ان چاہنے والوں کا ماننا تھا کہ نواز شریف سے بہتر تو کوئی وزیراعظم اس ملک میں آیا ہی نہیں۔ پھر پانامہ کا شور اٹھا اور نواز شریف کا وقت بدل گیا۔ بالآخر نواز شریف بھی ملزم ٹھہرے اور آج کل اُسی جرم کی پاداش میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ اُن کے وہ ورکرز جو ان پر جان نچھاور کرتے تھے، ان سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں واضح کمی نظر آنے لگی۔ اُن کے بڑے قریبی ساتھیوں نے بھی اُن کو ہی مورد الزام ٹھہرایا کہ جو بھی ہوا ہے میاں صاحب کے ساتھ اس میں میاں صاحب کی اپنی غلطی ہے۔
اب اس بحث میں اُلجھ کر کیا ملے گا کہ غلطی کس کی تھی یا نہیں۔ بس وقت تھا، بدل گیا۔ اسی پر تو بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا کہ
صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا
ایسی ہی داستان پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثنااللہ خان کی ہے۔ جو دس سال تک پنجاب کے وزیر قانون رہے۔ ایک وقت تھا کہ بیوروکریسی اور مسلم لیگ ن رانا ثنااللہ خان کی مداح تھی۔ پروٹوکول، سیکیورٹی، سب کچھ ہی میسر تھا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قریبی ساتھی ہونے کی بنا پر خاص مقام بھی حاصل تھا۔ پنجاب کے زیادہ تر اُمور رانا ثناللہ خان ہی سرانجام دیتے تھے۔ پھر رانا صاحب کے وقت نے بھی پلٹا کھایا اور آج کل وہ بھی انسداد منشیات کی خصوصی جیل میں منشیات کی برآمدگی ہونے کی صورت میں قید ہیں۔ اُن کے اہل خانہ ٹی وی پر آکر اُن پر ہونے والے ظلم کی داستان کو بیان کرتے ہیں۔ اب تو ان کی اہلیہ نے اقوام متحدہ کی طرف بھی رجوع کرلیا ہے۔ اب وقت ہی اُن کا فیصلہ کرے گا۔
مختصر صرف یہی کہ وقت پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ کبھی بھی کسی کا نہیں ہوتا۔ بدلنا اس کا کام ہے اور یہ بدل کر رہتا ہے۔ مگر سیکھنے والی بات یہ ہے کہ وقت کی بہتری پر خود کو نہ بدلیں۔ اپنا رویہ ایسا رکھیں کہ مشکل میں کوئی آپ کے ساتھ کھڑا رہ سکے۔ اور دوسرں کے بدترین وقت سے کچھ سیکھنے کی کوشش کیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔